Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Tuesday, December 7, 2021

کامیاب تدر یس کے لئے سبق کی موثرمنصوبہ بندی لازمی..


    
از / مولانابدیع الزماں ندوی قاسمی/ صدائے وقت 
==================================
درس و تدریس کو موثر بنانے میں سبق کی منصوبہ بندی (lesson plan) کو کلیدی اہمیت حا صل ہے۔سبق کی بہتر منصوبہ بندی کے ذریعے نہ صرف تدریسی عمل کو دلچسپ اور خوش گوار بنایا جا سکتاہے بلکہ کم وقت میں زیادہ اکتسابی افعال کی انجام دہی بھی ممکن ہے۔ما ہرین تعلیم کی نظرمیں ایک کامیاب استادموثردرس و تدریس کے لئے سازگار اکتسابی فضا ہموار کرتا ہے۔ تدریسی افعال کو سہل اور دلکش بنانے کے لئے ماہرین تعلیم و تجربہ کاراساتذہ نے اپنے تجربات کی روشنی میں چند ایسے تدر یسی اصولوں اور مہارتوں کووضع کیاہے جو کمرۂ جماعت کے ماحول کو بہتر بنانے میں سود مند ثابت ہوئے ہیں۔تدریسی اصول او ر طریقہ کا ر کا ایک اہم جزسبق کی منصوبہ بندی بھی ہوتی ہے۔اکثر مدارس اور اساتذہ اس اہم کاز کو پس پشت ڈال دیتے ہیں ، جس کی وجہ سے مطلوبہ تعلیمی مقاصد کا حصول دشوار ہوجاتا ہے اورطلبہ کی ہمہ گیر تعلیمی ترقی جمود کا شکار ہوجاتی ہے۔اساتذہ کی ایسی کثیر تعدا د بھی ہے جو سبق کی ذہنی منصوبہ بند ی کو ہی کافی سمجھتی ہے۔ در حقیقت سبق کی ذہنی منصوبہ بندی کافی نہیں ہے بلکہ منصوبے کو ذہن سے صفحۂ قرطاس پر منتقل کر نابھی ضروری ہوتاہے۔ تحریری منصوبہ بندی کا مقصد متعین تدریسی اہداف کا حصول ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ متعلقہ مضمون کے استادکی غیرحاضری میں دوسرا متبادل معلم بھی تحریرکردہ منصوبہ بند سبق کی روشنی میں بغیر کسی تعطل کے احسن طریقے سے تدریسی عمل کو جاری رکھ سکتاہے۔ بعض ماہرین تعلیم کی نظر میں”استاد ایک منتظم ہوتاہے جو پہلے تدریسی واکتسابی سر گرمیوں کو ترتیب دیتاہے اور پھر کمرۂ جماعت میں ترتیب وار ان سر گرمیوں پر عمل پیرا ہوتاہے۔” متعدد ماہرین تعلیم نے سبق کی منصوبہ بندی کے مختلف اصول وپیمانے وضع کئے ہیں لیکن تقریباً اکثر ماہرین تعلیم اس بات سے متفق ہیں کہ سبق کی موثر منصوبہ بندی کے لئے:
 (1) سبق کی منصوبہ بندی کا خاکہ۔
(2) مقاصد تدریس۔
(3) ذہنی آمادگی۔(motivation)
(4)بلند خوانی۔ 
( 5)تفہیمی سوالات۔
 (6)نئے الفاظ و معنی کا تعارف۔
(7)سرگرمیاں۔
( 8 ) سبق کا خلاصہ او ر
 (9 ) تفویضی کام۔ (ہوم ورک)ضروری ہیں۔
سبق کی موثر منصوبہ بندی تب ہی ممکن ہے جب استاد کو اس بات کا علم ہو کہ وہ کس جماعت کو درس دینے والاہے؟ اس جماعت کے طلبہ کی ذہنی صلاحیتیں کیسی ہیں؟کو نسا مضمون اور کونسا عنوان پڑھانا ہے؟گھنٹے کا دورانیہ کتنا ہو گا؟ اور طلبہ کی کیا تعداد ہوگی؟ اسی لئے ایک استاد کو سبق کی منصوبہ بندی سے قبل سبق کی منصوبہ بندی کا خاکہ تیار کر نا ضروری ہوتا ہے، ورنہ سبق کی منصوبہ بندی کتنی بھی عمدہ کیوں نہ ہو ، تدریس کا مقصد فوت ہو جائے گا ۔اسی لئے ماہرین تعلیم نے سبق کی منصوبہ بندی کے خاکے کو بہت زیادہ اہمیت دی ہے اور یہ خاکہ ہی ہوتا ہے جو سبق کو منصوبہ بند طر یقہ سے کا میاب و موثر درس و تدریس کی سمت گامزن کر تا ہے۔سبق کی تدریس سے پہلے سبق سے وابستہ مقاصد کا تعین کر لینا ضروری ہوتا ہے ،اگر استاد سبق کے مقاصد سے آگا ہی نہ رکھتا ہوتو یہ تعلیم و تعلم پر بہت ہی بد نما داغ سمجھا جاتا ہے۔معلم کو اس با ت کا علم ضروری ہے کہ وہ سبق کی تدریس کے ذریعے طلباء میں کن صلاحیتوں کو فروغ دینا چاہتاہے۔ابتدائی جماعتوں میں تدریسی مقاصد قلیل ہو تے ہیں اور ان کادائرہ سننے،بولنے،پڑھنے اور لکھنے تک محدود ہوتا ہے جن کو ماہرین تعلیم( LSRW)Speaking,Listening ،Reading اور Writing سے تعبیر کر تے ہیں۔ان ابتدائی مقاصد کو عمومی مقاصد سے تعبیر کیا جا تا ہے ، جبکہ سبق کے اختتام پر طلبہ میں سبق کے خلاصہ کو بیان اور تحریر کر نے کے استعداد کا حصول، مو ضوع سے متعلق کم از کم پندرہ جملے تحریر کر نے اور سبق میں دئیے گئے نئے الفاظ کو اپنے جملوں میں استعمال کر نے کی استعداد پیدا کرناوغیرہ تدریس سبق کے خاص مقاصد کہلاتے ہیں۔وہ تعلیم بے اثر اور بے فیض ہو تی ہے جس کا کو ئی منشا اور مقصدنہ ہو ۔ اس لئے اساتذہ پر یہ قوی ذمہ دار ی عائد ہوتی ہے کہ وہ تدریسی مقاصد کے تعین میں محتاط رہیں ۔
درس و تدریس کو اس وقت قدر کی نگاہ سے دیکھا جا تا ہے ، جب استاد دوران سبق مقررہ مقاصد کوغیر محسوس طر یقے سے حا صل کر نے میں کا میاب ہو جا تا ہے۔ اسا تذہ کی تدریسی مقاصد وضع کر نے میں نا کا می طلبہ کے لئے زہر قا تل ثابت ہوگی ، اورطلبہ جو قوم و ملک کے مستقبل و معمار ہوتے ہیں ، تعلیمی طور پر معذور و مجروح ہو جا ئیں گے۔
آج تدریسی مقاصد کے تعین کی واضح نا کامی کی وجہ سے طلبہ عام سوجھ بوجھ (کامن سینسcommon sense) سے عاری ہیں۔رٹ ما ر کر امتحانا ت میں اعلیٰ نشانات اور درجہ تو حا صل کر ر ہے ہیں لیکن نفس مضمون کو پا نے سے پھر بھی کو سوں دور ہیں۔ 
تعلیمی و تدریسی مقاصد کے فقدان کی وجہ سے ایسی سند یافتہ جہلا کی ایک فوج تعلیمی وتحقیقی اداروں سے نکل رہی ہے جو عام سوجھ بوجھ سے کا فی دور ہے۔ان نا مساعد حالات پر ارباب تعلیم و تعلم کو نوحہ کناں ہو نا چاہیئے کہ طلبہ حصول علم کے باوجود دربدر کی ٹھو کر یں کھا نے پر مجبور ہیں۔اساتذہ تعلیم اور زندگی میں وابستگی پیدا کر یں تا کہ تعلیم کی تکمیل کے بعد طلبہ کو تعلیمی اداروں کی با ہر کی زندگی اجنبی محسوس نہ ہو۔ سبق کی منصوبہ بندی میں مقاصد تدریس کے تعین کے بعد ذہنی آمادگی (motivation ) کا درجہ آتاہے۔استاد سبق کو مشینی اندازمیں پڑھادینے والے فردکا نا م نہیں ہے بلکہ استاد ایک رہبر، رہنما ، محرک اور ترغیب کار ہو تا ہے ، جو طلبہ کی زندگیوں کو سنوارنے میں 
کوئی کسر با قی نہیں رکھتا۔
سبق کی موثر منصوبہ بند ی میں تر غیب و تحریک اہم تصور کی جا تی ہے جس کے ذریعے استاد سبق کے آغاز پر اپنے سوالات اور تجربات کی روشنی میں طلبہ کے ذہنو ں کو تیا ر کر تے ہوئے درس و تدریس کے کام کو مزید دلچسپ بنا دیتا ہے۔سبق شروع کر نے سے پہلے استاد کو چاہیئے کہ وہ طلبہ سے مو ضوع سے متعلق دلچسپ سوالات کر ے تا کہ طلبہ در س کے لئے ذہنی طورپرتیارہوجائیں۔ استاد اگر ذہنی طورپرطلبہ کو آمادہ کرنے میں کا میاب ہو جا تا ہے تو اس کے لئے با قی سبق کی تدریس نہا یت ہی آسان ہو جا تی ہے۔
بلند خوانی کا کام زبانوں کی تدر یس میں بہت اہم ہوتا ہے۔استاد کو چاہیئے کہ بلند خوانی کے دوران طلبہ کی کمزوریوں کی نشاندہی کرتے ہوئے انھیں دور کر یں۔بلند خوانی کے دوران الفاظ کی ادائیگی اور تلفظ پر خاص توجہ دیں۔ استاد ہر طالب علم کو ز یادہ سے زیاد بلند خوانی کے مواقع فراہم کرے تاکہ طلبہ روانی سے عبارت خوانی کے قابل ہوجائے ۔ اس مقصد کے تحت ہر طالب علم کو سبق سے چند جملے یا ایک پیراگراف کی بلند خوانی کاموقع فراہم کرنا ضروری ہوتا ہے تا کہ ہرطالب علم کو بلند خوانی کامساوی موقع حا صل ہو۔ اس کے علا وہ جو طلبہ پڑھنے سے کترا تے ہیں ، بلند خوانی سے ان کی جھجھک دور ہو گی اور ان کا اعتما د بڑھے گا ۔بلند خوانی کے دوران معلم کو چاہیئے کہ وہ طلبہ کو اہم نکات سمجھاتاجا ئے اور طلباء کو بوریت سے بچانے کے لئے درمیان میں تفہیمی سوالا ت بھی کر تا رہے تا کہ طلبہ سبق کی جا نب بھر پو ر توجہ دے سکیں۔
سبق کی تدر یس کے بعد سبق کو ذہن نشین کر وانے کی خاطر طلبہ سے اعادے کے سوالات کر ے۔درس وتدر یس کے دوران سوالات پوچھنا بھی ایک اہم فن ہے اور اس تکنیک سے درس و تدریس سے وابستہ افراد کے لئے متصف ہونا ضروری ہے۔ یہ ایک آفاقی حقیقت ہے کہ سوالات اسی وقت مو ثر ہو تے ہیں جب معلم پہلے سے ا چھی طرح سبق کی تیار ی کرے ۔۔ اگر سبق کی تدریس میں کو ئی کمی بھی رہ جا تی ہے تو استاد کو چاہیئے کہ وہ تفہیمی سوالات کے دوران اس کا ازالہ کر دے۔ تفہیمی سوالات کے بعد استاد طلبہ کو سبق میں آنے والے نئے الفاظ کے معنی و مفہوم سے آگا ہ کر تے ہوئے ان کو جملوں میں استعمال کر نا سکھا ئے ۔لغت سے طلبہ کو نئے الفاظ کے معنوں کو تلاش کر کے لکھنے کے کام کے ذریعہ استاد طلبہ کی صلاحیتوں کو مزید پروان چڑھا سکتا ہے۔
سبق کی اختتام پر تفویض کردہ سرگر میاں سبق کے اعادہ اور سبق کے اہم نکات کو ذہن نشین کر نے میں ممد و معاون ہو تی ہیں۔
سبق کے تکمیل کے بعد فہم و ادراک اور فکر و تدبر کو فروغ دینے کے لئے استاد طلبہ کو اپنے جملوں میں سبق کا خلاصہ تحریر کر نے کی ہدایت دے۔
 لیکن یہ با ت ذہن نشین رہے کہ ابتدائی جماعتوں کے طلبہ خود سے خلاصہ تحر یر نہیں کر سکتے اس کام کی انجام دہی کے لئے ان کو استاد کی رہبر ی و رہنمائی کی سخت ضرورت ہوتی ہے۔استا د کی رہبری سے طلبہ سبق کا خلاصہ اور سبق یا کسی واقعہ کے اہم نکات کو اجا گر کر نا سیکھ جا تے ہیں۔
سبق کے اختتام پر ہوم ورک کے سوالا ت کے ذریعہ مو ضوع کو مزید مستحکم کیا جا سکتا ہے ۔یہ سچ ہے کہ استاد کتا ب کو پڑھا تا ہے نہ کہ کتا ب طلبہ کو پڑھا تی ہے جس طرح ایک خراب کتا ب (مواد)اچھے استاد کے ہا تھ آکر طلبہ کے لئے نعمت غیر مترقبہ بن جا تی ہے ، اسی طرح ایک بہترین کتاب نااہل استاد کے ہا تھ نا کارہ ہو جاتی ہے۔ اسا تذہ صرف سبق کی منصوبہ بندی کے ذریعے کامیابی حاصل نہیں کر سکتے کیو نکہ کامیابی اور نا کامی کا دینے والا اللہ ہے،اسی لئے اسا تذہ کودر س وتدریس کی کا میابی کے لئے اللہ سے دعا نا نگنا چاہیئے تا کہ اللہ ان کے کام میں آسانیا ں پیدا فر مائے۔ ہر معا ملے میں اللہ رب العز ت سے دعا مانگنا نبی اکرم صلی الله عليه وسلم کی سنت بھی ہے۔دعا صرف اس وقت ہی نہیں مانگی جا تی جب وسائل کی کمی ہو یا آدمی کسی الجھن اور پریشانی کا شکارہو بلکہ دعا اس وقت بھی مانگی جانی جا تی ہے جب آدمی کے پاس تمام وسائل و اسباب موجود ہوں اور کا میابی کا قوی امکان بھی ہوکیونکہ ہمارا یمان اور عقیدہ ہے کہ وسائل اور اسباب کی موجودگی کا میابی فرا ہم نہیں کر تی ہے بلکہ کا میابی و کامرانی اللہ رب العزت کی دین ہے۔