Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Saturday, December 4, 2021

بابری مسجد ! نا انصافیوں کا ایک مکمل باب.....

بابری مسجد ! نا انصافیوں کا ایک مکمل باب
از / مفتی محمد اجوداللہ پھولپوری 
نائب ناظم مدرسہ اسلامیہ عربیہ بیت العلوم سرائمیر اعظم گڈھ
                      صدائے وقت 
=================================
ہر سال دسمبر کا مہینہ آتا ہے اور کروڑوں محبین اسلام کو افسردہ و غمزدہ کرجاتا ہے چونکہ 6 دسمبر 1992ء کو بابری مسجد کی شہادت کا واقعہ رونما ہوا تھا وطن عزیز کی جمہوریت کو تار تار کرنے اور اسکی بنیادوں کو ہلادینے والے چند سیاست دانوں اور زعفرانی دہشت گردوں کی سازشوں کے باعث سینکڑوں سال سے اپنی گود میں مچلتے سجدوں کو سمونے والی پیاری بابری شیطانی چالوں کا شکار ہوگئی
یہ جمہوری کتاب کا وہ سیاہ باب ہے جو ہزاروں روشنیوں کے باوجود اپنی سیاہی دھل پانے سے عاجز ہے تاریخ سے اس سیاہی کا ختم ہونا ممکن نہیں اس سیاہی کو صرف اور صرف انصاف کے پانی سے صاف کیا جاسکتا ہے جمہوریت کی تاریخ میں بابری مسجد پر ہونے والے طویل مظالم جیسی داستان مل پانی مشکل ہے
 پورے 43 سال تک اسے قید و بند کی صعوبتوں سے گزارا گیا اسکے اپنوں کو اس سے دور رکھا گیا   جس کے آغوش میں بلا ناغہ ساڑھے چار سو سال تک دیوانوں نے جبیں سائی کی اچانک اس کی گود کو خالی کردیا گیا جس کے کندھوں پہ کھڑے ہوکر اسکے اپنوں نے اللہ اکبر کی صدائیں بلند کی اچانک انہیں ان سے دور کردیا گیا 1949ء سے لیکر 1992ء تک مسلمان بابری مسجد میں اپنی جبینوں کو ٹیکنے سے محروم رہے
 صدیوں تلک تیری زمیں پر عشق نے سجدے کئے
 تو ارتکاز عشق کی اک داستاں در داستاں
 
 اور بالآخر 6 دسمبر 1992ء کو اس کے مجروح در و بام کو زمین دوز کرکے اسے شہادت سے نواز دیا گیا پورا جمہوری اور عدالتی نظام ایک تماشائی بنا جمہوریت کی بنیادوں کو کھوکھلا ہوتے دیکھتا رہا زعفرانی عفریت مذہب کی افیم کا نشہ سماج کے ایک بڑے طبقہ کو پلا کر اسکے ہاتھوں پوری آزادی سے جمہوریت کو ننگا کرتے رہے اسکی عصمتوں کو تار تار کرتے رہے مسلمانوں کا بے تحاشا خون بہایا گیا اور پورا سسٹم ایک تماشائی بنا جمہوریت کا جنازہ نکلتے دیکھتا رہا
بابری مسجد کی شہادت ایک ایسا زخم ہے جو کبھی بھی مندمل نہیں ہوسکتا آج بابری مسجد کی شہادت کو 29 سال گزر گئے۔ فسادات میں تین ہزار سے زائد مسلمان شہید ہوئے، لیکن افسوس آج تک نا تو مسلمانوں کا ایک بھی قاتل ملا اور نا ہی بابری مسجد کو ڈھانے والے
چھ دسمبر 1992 کو زعفرانی دہشت گردوں کے ایک گروہ نے بابری مسجد پر حملہ کر کے اسے زمین دوز کر دیا۔ یہ مسجد مغل بادشاہ ظہیرالدین بابر نے 1527 میں اتر پردیش کے ضلع ایودھیا میں تعمیر کرائی تھی۔ زعفرانیوں کا دعویٰ تھا کہ بابری مسجد کی تعمیر شری رام کی جائے پیدائش پر کی گئی ہے جس کے بعد ۔ 1859 میں انگریز حکمرانوں نے عبادت کی جگہ کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا تھا۔ اندر والا حصہ مسلمانوں کے لئے جبکہ باہر کا حصہ ہندوؤں کے لئے مختص کر دیا گیا تھا۔ 1949ء میں مسجد کے اندر سے مورتی ملنے کے بعد ہونے والے فسادات کی وجہ سے بھارتی حکومت نے مسجد کے دروازے بند کرا دیئے۔ 1984ء میں ہندو کمیونٹی نے مسجد کی جگہ رام مندر تعمیر کرنے کیلئے وشو ہندو پریشد پارٹی کی قیادت میں ایک تحریک چلائی۔ بعد میں اس تحریک کی قیادت بھارتی جنتا پارٹی کے رہنما لال کرشنا ایڈوانی نے سنبھال لی۔ 1986 میں ضلعی جج نے مسجد کے دروازے کھلوا کر ہندوؤں کو اپنی عبادت کرنے کا حکم دے دیا۔ 1991 میں اتر پردیش میں بی جے پی کی حکومت آئی اور 1992 کو سیکڑوں ہندوؤں نے مسجد کو شہید کر دیا۔ مسجد کی شہادت کے بعد بھارت میں ایک مرتبہ پھر ہندو مسلم فسادات شروع ہو گئے سینکڑوں جانیں گئیں نا جانے کتنی عصمتیں لٹیں کتنے گھر ویران ہوئے 
قصہ کوتاہ! جب ملک کی سب سے بڑی عدالت میں بابری مسجد کے معاملے پر سماعت ہو رہی تھی اور مسجد کا دفاع کرنے والے عدالت کے اندر دلائل و تاریخی حقائق کے ساتھ بھرپور انداز میں دفاع کررہے تھے اسی وقت میں باہر یہ فضا بنائی جانے لگی کہ عدالت جو بھی فیصلہ دے گی ملک کے تمام لوگ اسے تسلیم کریں گے۔ ہندو مسلمان سب اسے مان لیں گے دلائل و تاریخی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے مسلمانان ہند نے بھی اس بات کیلئے خوب زور شور سے ہامی بھرلی اس لیے کہ سب کو امید تھی کہ اگر فیصلہ انصاف کے ساتھ کیا گیا تو مسلمانوں کے حق ہی میں آئیگا اور وہ پاک سرزمین جو پچھلے انتیس سالوں سے ویران پڑی تھی  ایک بار پھر اسے مادی وجود ملیگا اور وہ سرزمین جو 1528 سے سجدوں سے آباد تھی وہ ایک بار پھر اللہ اکبر کی صداؤں سے گونج اٹھے گی لیکن افسوس !
 خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا جو سنا افسانہ تھا...!
 9 نومبر 2019 یعنی جب فیصلہ سنانے کی گھڑی آئی تو اس بلند و بالا عمارت پر سب کی نگاہیں اس امید کے ساتھ مرکوز ہوگئیں کہ آج ناانصافیوں کا حساب ہوگا اور مظلوم و معصوم بابری کو اس کا حق دیا جائے گا ابتداءا منصف اعظم نے بھی بابری مسجد کے  حق میں خوب دلائل دیئے اسے مظلوم و مقہور قرار دیا اور کہا کہ مسجد کے ساتھ انصاف ہونا چاہیے نیز سپریم کورٹ نے یہ بھی اقرار کیا کہ اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ کسی مندر کو توڑ کر مسجد بنائی گئی ساتھ ہی 1949 تک باجماعت نماز ہونے کا بھی اقرار کیا اور اس نے یہ بھی تسلیم کیا کہ رات کی تاریکی میں مورتی رکھی گئی تھی۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ اس نے یہ بھی مانا کہ بابری مسجد کا انہدام ایک غیر قانونی عمل تھا اس وقت ایسا لگ رہا تھا کہ اب شاید بابری مسجد کو  انصاف مل جائے گا لیکن اچانک سب کچھ ملیا میٹ ہو گیا انصاف کا بت آسمان سے زمین پر آٹپکا آنریبل جج نے دستور کی ایک شق کا سہارا لے کر فرمان جاری کردیا کہ زمین کا وہ ٹکڑا جہاں بابری مسجد آباد تھی اسے ہندؤں کے حوالہ کیا جاتاہے اور جہاں سینکڑوں سالوں سے مسجد کا وجود تھا اس کے سینہ پہ مندر تعمیر کرنے کی اجازت دی جاتی ہے اور دلیل یہ دی کہ اگر مسلمانوں کے حق میں فیصلہ کر بھی دیا جائے تو عمل درآمدگی ایک مشکل عمل ہوگا اور ساتھ ہی اکثریت کی مرضی و منشا کے مطابق فیصلہ نہ ہونے پر فساد پھیلنے کا قوی امکان ہے  ناانصافی کی ایک طویل  داستان کو اس عجوبہ فرمان کے ساتھ مکمل کردیا گیا رہی سہی کسر لکھنؤ کی عدالت کے محترم جج نے اپنی سبکدوشی کے آخری دن یعنی 30 ستمبر 2020 کو یہ کہتے ہوئے پوری کردی کہ  مسجد منہدم کرنے والے تمام کے تمام 32 ملزموں کے خلاف کوئی ثبوت نہیں اسلئے انہیں باعزت بری کیا جاتا ہے اس طرح ظلم و زیادتی اور ناانصافی کا وہ باب جو 1949 میں شروع کیا گیا تھا اپنی تکمیل کو پہونچا
عدالت عظمی نے جب بابری مسجد کے خلاف اپنا آخری فیصلہ دیا تو انتہائی فیاضی کا مظاہرہ کرتے ہوئے چند ایکڑ زمین حقیقی جگہ سے میلوں دور مسجد کی تعمیر کیلئے مختص کرتے ہوئے انصاف کا سر فخر سے بلند کردیا اور مرغ بسمل کی طرح تڑپتی امت کے زخموں پر نمک رکھنے کی کوشش کی سمجھ میں نہیں آیا کہ یہ خیرات کیوں دی گئی؟ اگر واقعی بابری مسجد ایک مسجد تھی تو یہ کون سا انصاف تھا اور اگر وہ جگہ مندر کی تھی تو یہ بھیک کیوں دی گئی کیا امت ایک مسجد تعمیر کرپانے سے عاجز تھی؟ کیا لاکھوں مدرسوں کو اپنی امداد سے چلانے والی امت چند ایکڑ زمین کے حصول اور مسجد کی تعمیر کیلئے کسی کی محتاج تھی ؟ ہرگز نہیں ! اس امت کو اللہ تعالی نے بہت نوازا ہے کبھی بھی اور کہیں بھی بابری مسجد جیسی ہزاروں مسجدوں کی تعمیر کا حوصلہ رکھتی ہے اور کر بھی رہی ہے لیکن بات یہاں حق اور انصاف کی ہے جمہوری روح کے بقاء کی ہے قانون کے بالادستی کی ہے بابری مسجد سے متعلق تحریریں پہلے بھی آچکی ہیں اس کی تاریخی حقیقت کو لکھنے والوں نے تفصیل سے لکھا ہے اس پر ہونے والے مظالم کو اجاگر کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے اسکے باوجود ضرورت ہے کہ اس کے بارے میں بار بار لکھا جائے اس پر ہونے والے مظالم کو سال در سال لکھا جائے تاکہ آنے والی نسلیں حقیقت کو جانیں انہیں یہ معلوم رہے کہ اگر 1992ء میں بابری مسجد کو شہید نہ کیا گیا ہوتا تو کوئی بھی عدالت اس جگہ مندر تعمیر کا فیصلہ نہ دیتی انہیں یہ بھی معلوم ہونا چاہئے کہ معصوم سی مسجد کو شہید تو کیا گیا لیکن ہزاروں تصویریں اور ویڈیوز ہونے کے باوجود انصاف کی آنکھ قاتلوں کو تلاش نہ کرسکی ایک جیتا جاگتا وجود اجاڑ دیا گیا اور اسکی لاش پہ نئی تعمیر کرکے لوگ خوشیاں بٹورنا چاہتے ہیں 
شاید یہ بددیانت لوگ بابری مسجد کے واقعہ کو  بھی تاریخی صفحات  سے مٹانے کی کوشش کریں اسلئے یہ بات آنے والی نسلوں کے ذہن و دماغ میں پیوست ہونی ضروری ہے کیونکہ جو لوگ اپنی تاریخ کو بھلا دیتے ہیں تاریخ انہیں بھی فراموش کردیتی ہے اسلئے تاریخ خواہ اچھی ہو یا بری اسے بھولنا نہیں چاہئے اگر تاریخ اچھی ہے تو اس سے حوصلہ لینا چاہئے اور اگر بری تو اس سے سبق ...... یہی زندہ قوموں کی نشانی ہوتی ہے