Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, January 20, 2022

وزیر اعظم کی سیکوریٹی.....


از /مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ. 
                     صدائے وقت 
==================================
 ہندوستان میں جن چند لوگوں کے تحفظ کے لیے حکومت فکر مند ہوتی ہے، ان میں ایک ملک کا وزیر اعظم ہے، تحفظ میں کوتاہی کے نتیجے میں ملک نے ۱۹۸۴ء میں اندرا گاندھی ۱۹۹۱ء میں راجیو گاندھی کو کھو دیا ان کے علاوہ ناتھو رام گوڈسے کے ذریعہ ۱۹۴۸ء میںمہاتما گاندھی، ۱۹۶۵ء میں پنجاب کے سابق وزیر اعلیٰ پرتاپ سنگھ کیرو، ۱۹۷۵ء میں وزیر ریل للت نرائن مشرا اور ۱۹۹۵ء میں پنجاب کے وزیر اعلیٰ بے انت سنگھ کا قتل اسی حفاظتی حصار کے کمزور ہونے کا نتیجہ تھا، ان حادثات سے سبق لے کر وزیر اعظم کے تحفظ کے لیے پورے حفاظتی گروپ کی تشکیل کی گئی ہے جسے ایس، پی، جی یعنی اسپیشل پروٹیکشن گروپ کہا جاتا ہے، یہ امیریکی سکریٹ سروس کے طرز پرتربیت یافتہ اور جدید ہتھیاروں سے مسلح ہوتے ہیں، یہ گروپ ۱۹۸۸ء میں بنایا گیا تھا، اس گروپ کا سالانہ بجٹ تین سو پچھہتر کروڑ رپے ہے، یہ ملک کا سب سے مہنگا اور مضبوط تحفظ کا نظام ہے۔
 وزیر اعظم جب کسی دورے پر جاتے ہیں تو ایس، پی جی کے ساتھ اے ایس ایل (ایڈوانس سیکوریٹی لیزن) ریاستی پولیس اور مقامی انتظامیہ بھی ایس پی جی کے معاون کے طور پر کام کرتی ہے، اور اسے ضروری مشورے دیتی ہے، اس طرح وزیر اعظم کے چاروں طرف چہار سطحی حفاظتی حصار ہوتا ہے؛ البتہ آخری فیصلہ ایس پی جی کا ہی ہوتا ہے ۔
 ۲۰۲۰ء میں مرکزی وزیر مملکت برائے امور داخلہ نے پارلیامنٹ میں اٹھائے گئے ایک سوال کے تحریری جواب میں بتایا تھا کہ وزیر اعظم کی سیکوریٹی پر روزانہ ایک کروڑ باسٹھ لاکھ روپے خرچ ہوتے ہیں، اتنے سارے اخراجات اور اتنے سخت تحفظ کے نظام کے باوجود وزیر اعظم کی سیکوریٹی میں اس قدر خامی رہ گئی کہ انہیں اپنا فیروز پور پنجاب کا دورہ ملتوی کرکے دہلی لوٹ جانا پڑا، یہ انتہائی حساس اور سنگین مسئلہ ہے، جس کا جواب پورا ملک جاننا چاہتا ہے ۔
اس سے قبل ۲؍ فروری ۲۰۱۹ء کو اشوک نگر مغربی بنگال ، ۲۶؍ مئی ۲۰۱۸ء شانتی نیکیتن، ۲۵؍ دسمبر ۲۰۱۷ء نوئیڈا اتر پردیش ، ۱۷؍ نومبر ۲۰۱۴ء وانکھیڈے اسٹیڈیم ممبئی میں وزیر اعظم کی سیکوریٹی میں خامیاںسامنے آئی تھیں، جس میں کئی بار انجانا شخص ان کے قریب پہونچ گیا تھا، ایک بار ان کا قافلہ بھی مہامایا فلائی اوور کی ٹریفک میں پھنس گیا تھا، گو یہ توقف صرف دو منٹ کا تھا۔خود وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی کئی موقعوں پر اس حصار کو توڑنے کا کام کیا ہے، با خبر ذرائع کے مطابق وشوناتھ کو ریڈور کے افتتاح کے موقع سے بنارس پہونچنے میں کئی بار انہوں نے سیکوریٹی نظام کی ان دیکھی کی، غیر ملکی مہمانوں کے استقبال کے موقع سے بھی ان کا رویہ پروٹوکول کے خلاف رہا ہے، ۲۰۱۹ء میں سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد سلمان کے دہلی پہونچنے پر ان سے گلے مل کر سیکوریٹی پروٹوکول کوانہوں نے خود سے توڑدیا تھا۔
 اسی طرح موسم کی خرابی کی وجہ سے فیروز پور جلسہ گاہ تک ان کا نہ پہونچنا بھی کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے، ۲۰۱۶ء میں وہ بہرائچ کی ریلی میں موسم خراب ہونے کی وجہ سے نہیں پہونچ پائے تھے، ۵؍ اکتوبر ۲۰۱۴ء کو ناسک مہاراشٹر ، ۲۹؍ جون ۲۰۱۵ء کو وارانسی ، فروری ۲۰۱۹ء میں رودر پور اتراکھنڈ کی ریلیوں میں خراب موسم کی وجہ سے وزیر اعظم کا جانا نہیں ہو سکا تھا، لیکن انہوں نے فون پر خطاب کیا تھا اور پروگرام میں نہ آنے کی وجہ بھی بتادی تھی، پھر فیروز پور ریلی کو انہوں نے بذریعہ فون خطاب کیوں نہیں کیا؟
 یہ اور اس قسم کے بہت سارے سوالات لوگوں کے ذہن میں اٹھ رہے ہیں، موسم خراب ہونے کی وجہ سے ہیلی کاپٹر کے بجائے سڑک راستہ سے فیروز پور جانے کا فیصلہ وزیر اعظم کا اپنا ہو سکتا ہے، لیکن سیکوریٹی پر نگاہ رکھنا ایس پی جی کی ذمہ داری تھی، مقامی پولیس کو اس میں تعاون کرنا تھا، اس معاملہ میں ایس جی پی اس قدر طاقتور ہے کہ وہ سیکوریٹی کا حوالہ دے کروزیر اعظم کے سفر کو ملتوی کراسکتا ہے اور ہوا بھی کچھ ایسا ہی ، لیکن ایس جی پی کو فیصلہ کرنے میں بیس(۲۰) منٹ لگ گئے اور وزیر اعظم کی گاڑی بیس(۲۰) منٹ تک ہائی وے پر کھڑی رہی، اس سلسلہ میں سب سے پہلی بات تو یہی ہے کہ جب موسم سازگار نہیں تھا تو ایک سو پچیس کلو میٹر کا فاصلہ بذریعہ سڑک طے کرنے کا فیصلہ ہی درست نہیں تھا، کیوں کہ اتنے طویل راستہ کو اتنی جلدی سیناٹائز کرنا ممکن نہیں تھا، پھر جب فیصلہ کر ہی لیا گیا تھا تو ہماری خفیہ ایجنسیاں کیا کر رہی تھیں کہ انہیں صحیح صورت حال کا علم بیس منٹ بعد ہو سکا۔
 ہائی وے پر رکا وٹوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ کسان اندولن پر بیٹھے ہوئے تھے، یہ اچانک سڑکوں پر کس طرح آگئے ، با خبر ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ کسان احتجاج کے لیے فیروز پور جا رہے تھے، پولیس نے وہاں جانے سے روکا تو وہ وہیں کے وہیں سڑک پر بیٹھ گیے، اس لیے سڑک جام ہو گیا، اگر ایسا ہے اور پولیس والوں کو معلوم تھا کہ اس راستہ سے وزیر اعظم کا قافلہ گذرنا ہے تو اسے سڑک سے ہٹا کردور بیٹھانا چاہیے تھا؛ تاکہ راستہ صاف رہے، اور وزیر اعظم کا قافلہ بحفاظت وہاں سے گذر جائے، بد قسمتی سے ایسا نہیں ہو سکا، وزیر اعظم کی سیکوریٹی کو یقینی نہیں بنایا جا سکا، اور وہ دہلی لوٹ گئے۔
 جہاں تک فون سے وزیر اعظم کے خطاب کا معاملہ ہے اس کے بارے میں لوگوں کا کہنا ہے کہ کرسیاں خالی تھیں، وزیر اعظم کس سے خطاب کرتے، لوٹنے میں حفاظتی نظام کے ساتھ اس بات کا بھی بڑا دخل رہا ہو تو اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔
 وجوہات کیا تھیں، اس پر ریاستی اور مرکزی حکومت دونوں نے جانچ کمیٹی تشکیل دی ہے،سپریم کورٹ نے سبکدوش جج کے ذریعہ اس کی تحقیق کا حکم دیاہے، اس معاملات سے متعلق حرکات سے متعلق حرکات وسکنات کے تمام دستاویز کو محفوظ رکھنے کو کہا گیا ہے، پنجاب سرکار نے ریاستی اور مقامی پولیس ذمہ داروں پر کاروائی بھی کی ہے، ان میں سے کئی معطل کیے جا چکے ہیں۔ ایجنسیوں کی رپورٹ یقینا الگ الگ ہی آئے گی، ریاستی سرکار کی رپورٹ میں سیکوریٹی ایجنسیوں کو مورد الزام گرداناجائے گا، اور مرکزی رپورٹ میں پنجاب سرکار کو ، ایک امید سپریم کورٹ کے سبکدوش جج سے ہے کہ وہ شاید حقیقت کا پردہ فاش کرنے میں کامیاب ہو جائیں، بشرطیکہ وہ کسی دباؤ کے بغیر آزادانہ اورمنصفانہ جانچ پر قادر ہوں۔
وزیر اعظم کی سیکوریٹی کا معاملہ واقعتا بہت اہم ہے اور جو لوگ قصور وار ہیں ان کو سخت سزا ملنی چاہیے، لیکن جس طرح اس واقعہ پر سیاست ہو رہی ہے اور میڈیا ٹرائل کیا جا رہا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ پنجاب کے ساتھ پانچ ریاستوں میں انتخاب کی تاریخ کا اعلان کر دیا گیا ہے، کانگریس اور بی جے پی دونوں اس واقعے کے حوالہ سے ووٹ کے حصول کی کوشش کرنے میں لگ گئی ہے، سیاست اسی کا نام ہے یہاں تو کفن کو بھی ووٹ کے لیے استعمال کرلیا جاتا ہے، یہ تو وزیر اعظم کی سیکوریٹی کا معاملہ ہے۔