Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Monday, January 17, 2022

عشق رسول ہے مگر اتباع رسول نہیں..

 
       تحریر /شمشیر عالم مظاہری دربھنگوی
امام جامع مسجد شاہ میاں روہوا ویشالی بہار. 
                    صدائے وقت 
=================================
وہ معزز تھے زمانے میں مسلماں ہو کر
اور ہم خوار ہوۓ تارک قرآں ہو کر
اس دنیا میں عاشقوں کی کمی نہیں خصوصاً ہمارے اس دور میں خود رو جھاڑیوں کی طرح عاشقوں کی بہتات ہے آپ کو گلی کوچوں میں شہروں اور دیہاتوں میں ہر سائز کے ہر رنگ کے ہر نسل کے اور ہر قسم کے عاشق مل جائیں گے ایک ڈھونڈو ہزار ملتے ہیں ان میں سے کوئی عہدہ اور منصب کا عاشق ہے کوئی سیم و زر کا عاشق ہے تو کوئی حسینوں کی اداؤں کا عاشق ہے کوئی نیل گوں آنکھوں کا اور کوئی سفید چمڑی پر عاشق ہے کوئی اپنی ہی ذات پر عاشق ہے مختصر یہ کہ عاشقوں اور معشوقات کی ان گنت قسمیں ہیں لیکن عشق کی یہ ساری قسمیں فانی ہیں اور یہ عاشق بالعموم برساتی مینڈکوں کی طرح ہوتے ہیں ان کے عشق میں پائیداری نہیں ہوتی ہمارے دور کے کئی عاشق تو ایسے ہیں کہ سر پر جوتے لگنے سے ان کا سارا عشق ہوا ہو جاتا ہے یہ ماڈرن عاشق ہیں بڑے چالاک اور مکار ہوتے ہیں کبھی کبھی یہ عشق میں ناکامی پر اس انداز سے دھمکی دیتے ہیں کہ دنیا کے سامنے سرخرو بھی ہو جائیں اور جان بھی بچ جائے ۔
الحمدللہ ہم اور آپ مسلمان ہیں ہمیں اسلام قبول کرنے پر قطعاً مجبور نہیں کیا گیا بلکہ ہم نے اپنی مرضی اور اختیار سے اسلام قبول کرلیا ہے اور اسلام قبول کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم اللہ اور رسول کے تمام احکام کو دل وجان سے تسلیم کرتے ہیں اور صرف تسلیم کرنا ہی کافی نہیں بلکہ ان پر عمل کرنا بھی ضروری ہے۔  دنیا میں زبانی محبت کرنے والے تو بہت ہیں مگر خالی خولی محبت مقصود نہیں اگرچہ یہ بھی فائدے سے خالی نہیں لیکن اصل مقصود وہ محبت ہے جو دل میں بھی ہو زبان سے بھی اس کا اثر ظاہر ہو اور بدن کا ایک ایک عمل اس بات کی گواہی دے کہ اس شخص کو حضور صلی اللہ وسلم سے محبت ہے دیکھنے والے دیکھ کر کہہ دیں کہ وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا محب اور عاشق جا رہا ہے یہ نہ ہو کہ زبان سے بھی آپ کا نام خوب لیا جا رہا ہے آپ کے نام پر مال بھی خوب حاصل کیا جا رہا ہے لیکن نہ تو زندگی کے مسائل میں آپ کی اتباع ہے نہ دین کے لیے کوئی قربانی ہے نہ سیرت حضور صلی اللہ علیہ وسلم جیسی ہے نہ صورت حضور صلی اللہ علیہ وسلم جیسی اور عاشق رسول بلکہ عشق رسول کے واحد رجسٹرڈ ٹھیکیدار بنے پھرتے ہیں
آج کل کے عاشقانِ رسول کا حال
ہر میٹھا اور پر تعیش کام کرنے کے لئے تیار ہیں مگر پرمشقت کام کرنے کے لئے تیار نہیں۔  جیسے وہ ایک واقعہ بیان کیا جاتا ہے کہ بوڑھی عورت کا شوہر انتقال کر گیا اس کے رونے کی آواز سن کر لوگ جمع ہوگئے پوچھا اماں جی کیوں رو رہی ہو کہنے لگی یہ سامنے لٹکی ہوئی بندوق دیکھ کر مجھے شوہر یاد آرہا ہے۔ ہاۓ یہ بندوق بھی بے سہارا ہو گئی اسے استعمال کرنے والا نہیں رہا ان میں سے ایک لالچی آدمی آگے بڑھا کہنے لگا آپ کا یہ غم میں دور کرتا ہوں یہ بندوق مجھے دے دیجئے آپ یوں سمجھیں اسے سہارا مل گیا اماں نے کہا لے جاؤ بیٹا ور نہ اسے دیکھ دیکھ کر میرا غم تازہ ہوتا رہے گا ۔ اگلے دن پھر رونے کی آواز آئی یہ لالچی آواز سن کر بھاگا بھاگا گیا پوچھا اماں جی آج کونسی چیز آپ کے غم کو تازہ کر رہی ہے اماں نے کہا بیٹا میرے شوہر گھوڑے سے بہت پیار کرتے تھے اب وہ نہیں ہیں تو یہ ان کی جدائی کی غم میں اداس کھڑا ہے اس کی اداسی مجھ سے دیکھی نہیں جاتی لالچی صاحب نے فوراً کہا اماں ہمارے جیسے جانثار بیٹوں کی موجودگی میں آپ کو اداس ہونے کی ضرورت نہیں یہ گھوڑا مجھے عنایت کر دیجئے تاکہ نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری نہ گھوڑا ہوگا نہ آپ کو مرحوم شوہر کی یاد ستائے گی گھوڑا بھی لے گیا اب جب بھی رونے کی آواز آتی تو وہ فرمانبردار بیٹا بن کر حاضر ہو جاتا اور اماں جان کا غم دور کرنے کے لیے کوئی نہ کوئی سامان لے جاتا مرحوم کے کپڑے اس کا بستر اس کے جوتے اور استعمال کی دوسری اشیاء ایک ایک کرکے لے گیا اور اس نے پورے گھر کا صفایا کردیا لیکن اماں کا غم پھر بھی دور نہ ہوا اور ایک دن پھر رونے کی آواز آنے لگی وہ لالچی جانتا تھا کہ اب گھر میں کوئی چیز باقی نہیں رہی اس لیے اس نے آنے میں دیر کر دی اور اس کے آنے سے پہلے ہی کئی لوگ آچکے تھے اماں سے پوچھا آج کیوں رو رہی ہیں اماں نے کہا بیٹا مجھے معلوم نہیں تھا لیکن کل ہی پتہ چلا ہے کہ میرے شوہر کے ذمہ اتنے سارے قرض ہیں مجھے یہ غم ہے کہ یہ قرض کیسے ادا ہوگا تو وہ لالچی بیٹا جو گھر کا صفایا کر چکا تھا اپنے ساتھیوں سے کہتا ہے بھائی آخر تم بھی تو کچھ بولو میں تو اتنے دن سے اماں کے غم دور کر رہا ہوں۔ 
یہی حال آج کل کے عاشقانِ رسول کا ہے وہ کہتے ہیں کہ ہم نے جھنڈیاں لگائیں، قمقمے جلائے، جلوس نکالے، نعرے لگائے، مٹھائیوں کے ڈبے بھی وصول کیے، جب ہم نے اتنے کام کرلیے تو اب کوئی اطاعت کرنے والا بھی تو ہونا چاہیے یہ کیا ہوا کہ سارے کام ہم ہی کرتے جائیں۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ نام کے عاشق رہ گئے کام کے عاشق چل بسے۔  مسلمان کی ذات تو ہے مسلمان کی صفات باقی نہیں رہیں اب تو مسلمان پہچانا ہی نہیں جاتا تھا بتانا پڑتا ہے کہ یہ صاحب مسلمان ہیں ورنہ صورت اور سیرت سے مسلمان کی پہچان نہیں ہوتی بلکہ معاملہ یہاں تک پہنچ گیا ہے کہ مسلمان کے جو اوصاف تھے وہ غیر مسلموں نے اپنا لیے ہیں وہ معاملات کی صفائی، وہ قومی ہمدردی، وہ امانت و دیانت، وہ راست بازی، جو کبھی مسلمان کی پہچان ہوتی تھی وہ کافروں کی پہچان بن گئی ہے۔  اور معاملات میں گڑ بڑ، قوم دشمنی، فراڈ ، خیانت،  جھوٹ، اور وعدہ خلافی مسلمان کی پہچان بن گئی ہے
صحابہ کرام کا جذبۂ اتباع سنت
صلح حدیبیہ کے موقع پر جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالی عنہ کو اپنا ایلچی بنا کر بھیجا تو سنت کے مطابق ان کا زیر جامہ آدھی پنڈلی تک تھا اور قریش اسے معیوب سمجھتے تھے اس لئے آپ کے چچا زاد بھائی ابان بن سعید نے آپ سے کہا کہ اپنا زیرجامہ ذرا نیچے کرلیجئے تاکہ سردارانِ قریش آپ کو حقیر نہ سمجھیں لیکن حضرت عثمان ایسا کرنے پر راضی نہ ہوئے اور جواب میں فرمایا کہ ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کا زیر جامہ ایسا ہی ہے جب آقا کا زیر جامہ ایسا ہے تو کسی کے معیوب سمجھنے کی وجہ سے میں آپ کا طریقہ کیوں چھوڑ دوں ۔
اسی طرح حضرت جثامہ بن مساحق کنانی رضی اللہ عنہ کا واقعہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے ان کو اپنا ایلچی بنا کر ہرقل شاہ روم کے پاس بھیجا جب وہ اس کے دربار میں پہنچے تو بے خیالی میں ایک کرسی پر بیٹھ گئے اچانک ان کی نظر پڑی تو انہوں نے دیکھا کہ وہ سونے کی کرسی پر بیٹھے ہوئے ہیں نظر پڑتے ہی وہ فوراً اس کرسی سے نیچے اتر آئے ہرقل یہ دیکھ کر ہنسا اور کہنے لگا ہم نے تو اس کرسی پر بیٹھا کر تمہارا اعزاز کیا تھا تم کیوں اتر گئے ہو آپ نے جواب دیا میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ آپ اس جیسی کرسی کے استعمال سے منع فرماتے تھے ۔ 
حضرت حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ اپنے زمانے کی سپرپاور ایران کے بادشاہ کسریٰ کے دربار میں مذاکرات کے لیے پہنچے تو وہاں ان کے سامنے اعزاز کے طور پر کھانا لا کر رکھا گیا کھانے میں تہذیب کے بڑے بڑے دعویدار  اور کسریٰ کے حوالی موالی بھی شریک تھے کھانے کے دوران حضرت حذیفہ کے ہاتھ سے ایک نوالہ نیچے گر گیا انہوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے مطابق اس نوالے کو اٹھانے کیلئے ہاتھ بڑھایا تو ایک صاحب نے اشارہ سے آپ کو ایسا کرنے سے منع کیا تا کہ تہذیب کے ان جھوٹے دعویداروں کی نظر میں ان کا مقام نہ گرجاۓ اور وہ آپ کو حریص اور لالچی نہ سمجھ بیٹھیں آپ نے وہ نوالہ اٹھانے کے ساتھ ایک تاریخی جملہ ارشاد فرمایا، آپ نے فرمایا (أ أ ترک سنۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لھؤلاء الحمقاء) کیا میں رسول اللہ صلی اللہ وسلم کی سنت کو ان احمقوں کی وجہ سے چھوڑ دوں 
مسلمان کی پہچان ختم ہونے کی اصل وجہ یہ ہے کہ مسلمان نے سیرت النبی کا دامن چھوڑ دیا ہے نبی کی سیرت، نبی کی صورت، نبی کی اطاعت، اور نبی کی غلامی، یہ تو مسلمان کی اصل پہچان تھی۔  وہ ہزاروں اور لاکھوں میں پہچانا لیا جاتا تھا وہ کافروں اور مشرکوں کے مجمع میں، اور قیصر و کسریٰ کے درباروں میں، سب سے جدا سب سے ممتاز نظر آتا تھا کسی کے طنز اور کسی کی باتوں کے خوف سے وہ اپنے آقا کی بات چھوڑ نے کے لئے تیار نہیں ہوتے تھے ۔