Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, January 23, 2022

بدمزاجی -انسانی رشتوں کے لیے زہر قاتل.


از /مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب نائب امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
                      صدائے وقت 
================================
امیر شریعت سادس حضرت مولانا سید نظام الدین صاحب ؒ فرمایا کرتے تھے کہ آپ کی صلاحیت بہت اچھی ہو، لیکن مزاج صحیح نہیں ہو تو لوگ آپ سے دور بھاگنے لگیں گے، بالکل اسی طرح جس طرح گُہمن سانپ کے لعل کے حصول کا خواہشمند ہر آدمی ہوتا ہے، لیکن اس کی جو پھُنکار ہوتی ہے اس سے ڈر کر آدمی اس کے قریب نہیں جاتا، اسی طرح با صلاحیت انسان کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے کی خواہش ہوتی ہے، لیکن اس کی بد مزاجی، بے قابو زبان اور بد اخلاقی کی وجہ سے انسان اس سے دوری بنائے رکھنے میں عافیت سمجھتا ہے، تاکہ وہ عزت نفس کے ساتھ جی سکے، جو لوگ بد مزاجوں سے قربت رکھتے ہیں، وہ کبھی بھی ذلیل ہو سکتے ہیں اور ان میں بے غیرتی کے جراثیم تیزی سے پروان چڑھنے لگتے ہیں۔
 نفسیات کی زبان میں ایسے لوگوں کو’’ ٹیکسک رویہ ‘‘کا انسان کہا جاتا ہے، اس رویہ میں صرف بُرے تجربات ہی شامل نہیں ہوتے، کچھ ایسے معاملات بھی ہو تے ہیں، جنہیں آپ معمولی سمجھ کر گزر جاتے ہیں، لیکن وہ آپ کے دل کے نہاں خانوں میں جگہ بنا لیتے ہیں، تحت الشعور میں دبی یہ چنگاریاں مایوسی اور تناؤ کی شکل میں باہر آکر دوسروں کو رسوا کرنے کا کام کرتی ہیں، اس لیے ایسے لوگوں کی شناخت کرکے انہیں اپنی زندگی سے نکال دینے میں ہی عافیت ہے ۔ اگر آپ ایسے لوگوں کو اپنی زندگی کا حصہ بناتے رہے تو اس کا بُرا اثر آپ کی خود اعتمادی پر پڑتا ہے، اگر آپ کسی بات کو سچ سمجھتے ہیں تو اسے سچ کہنے کا حوصلہ جٹائیے،ہمیشہ خاموش رہ جانا مسئلہ کا حل نہیں ہوتا ، کئی بار اہم معاملات پر اپنی رائے رکھنی بھی ضروری ہوتی ہے۔
جیسا کہ معلوم ہے بد مزاجی ایک رویہ ہے، رویہ انسانی شخصیت کا بیان ہوتا ہے، برطانیہ کے سابق وزیر اعظم سرونسنٹ چرچل(۱۹۶۵-۱۹۷۴) کے مطابق رویہ ایک معمولی سی چیز ہے، لیکن انسانی شخصیت میں اس کی بڑی اہمیت ہے۔ رویہ کا انحصار بڑی حد تک انسان کے اپنے طرز فکر پر ہوتا ہے، اگر وہ تکبر اور ترفع کا شکار ہے، ’’انا‘‘ کا اسیر ہے تو اس کے بدمزاج ہونے کے امکانات زیادہ ہیں، ایسے لوگ اپنے رویہ پر قابو پانے میں ناکام ہوتے ہیں، وہ اگر زبان سے کچھ نہ بولیں تو ان کے چہرے بولنے لگتے ہیں، ان کی بد مزاجی کے آثار ان کے چہرے سے ظاہر ہونے لگتے ہیں، ایسے لوگوں پر جذباتی تاثر فوری طور پر غالب آجاتا ہے، ان کی شخصیت کی سب سے بڑی کمزوری ان کی انفعالیت ہوتی ہے، ایسا شخص اخلاق عادات کے اعتبار سے مضبوط نہیں ہوتا، اپنا فائدہ نظر آئے تو کچھ بھی کر گذرتا ہے، انفعالیت دربار خداوندی میں تو اچھی چیز ہے، لیکن بندوں کی بارگاہ میں یہ شخصیت کی کمزوری کو نمایاں کرتا ہے۔
 بد مزاجی ایک منفی رویہ ہے، اس رویہ کا عادی شخص دوسرے کے کاموں میں خامیاں نکالنے اور تنقید کرکے نفسیاتی تسکین حاصل کرتا ہے۔ بد مزاج آدمی کا رویہ دھمکی آمیز بھی ہو سکتا ہے، وہ آپ کو نقصان پہونچانے کے درپے بھی ہو سکتا ہے، اس کے باوجودیہ یاد رکھنا چاہیے کہ بد مزاجی فطرت نہیں ہے، جسے بدلا نہ جا سکے، یہ ایک چال چلن ہے، جسے مثبت رویہ اور صحیح سوچ کے ذریعہ بدلا جا سکتا ہے، اپنی سوچ کو مثبت اور غیر ضروری اندیشوں کے خول سے باہر لائیے، دوسروں کا اکرام واحترام کیجئے، ان کی باتوں کو غور سے سنئے اور جو درست ہوں ان کو اہمیت دیجیے اور اس پرعمل کیجئے، بد مزاجی ختم ہوجائے گی، لیکن اگر کوئی شخص ہٹلر اور مسولنی کی طرح ڈِکٹیٹر بن کر بد مزاجی ختم کر نا چاہے تو یہ ناممکن العمل ہے، اس کا علاج صرف رویوں میں تبدیلی ہے۔ رویے مثبت ہوں گے تو بد مزاجی ختم ہوگی، منفی ہوں گے تو تبدیلی کبھی نہیں آئے گی،رویوں کی تبدیلی کا یہ کام بد مزاج شخص خود بھی کر سکتا ہے اور خارجی دباؤ سے بھی بد مزاجی ختم ہو سکتی ہے، یہ خارجی دباؤ کئی قسم کے ہو سکتے ہیں، جن کا انتخاب حالات اور ماحول کے اعتبار سے کیا جا سکتا ہے، ان میں سے ایک یہ ہے کہ بد مزاج شخص کے اندر سے تکبر کو نکالنے کی کوشش کی جائے ، اللہ کی بڑائی کا استحضار اذان واقامت کے کلمات کا جواب بھی اللہ کی بڑائی کے تصور کو ذہن نشیں کرنے میں بہت معاون ہوتا ہے، بد مزاج شخص کے ذہن میں اگر یہ بات بٹھادی جائے کہ تم بڑے نہیں ہو، اللہ بڑا ہے اور واقعہ یہ ہے کہ عہدے مناصب کی بلندی پر پہونچنے کے باوجود تم سب محتاج ہو، بے نیاز ذات صرف اللہ کی ہے تو بد مزاجی دور ہوجائے گی، اور لوگ بد مزاج کی بد مزاجی سے محفوظ ہوجائیں گے۔
 انفرادی زندگی سے الگ ہو کر اگر ہم اجتماعی تنظیموں اور اداروں کی بات کریں اور اس پر کوئی بد مزاج شخص کا تسلط ہو تو اس کی بدمزاجی کے اثرات اجتماعی نظام پر پڑتے ہیں، اور اداروں کو نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے، شریعت نے اسی وجہ سے اجتماعی کاموں میں خصوصیت کے ساتھ مشورے پر زور دیا ہے، وَشَاوِرْ ھُم فِی الاَمْر، وَامُرْھُم شُوْرَی بَیْنَھُم‘‘ کا حکم اسی نقصان سے بچنے کے لیے ہے ، اس پر جس قدر مضبوطی سے عمل ہوگا فرد کی اصلاح بھی ہوگی اور اجتماعی تقاضوں پر بھی عمل کیا جا سکے گا۔
بد مزاج شخص کے دل میں سختی ہوتی ہے، اس کا دل اسی کے سامنے نرم ہوتا ہے جس سے اس کا کوئی مفاد وابستہ ہو یا اسے نقصان کا خطرہ ہو یعنی ’’جلب منفعت‘‘ اور’’ دفع مضرت‘‘ اس کی زندگی کا نصب العین ہوجاتا ہے، وہ اگر کسی کے سامنے سرنگوں ہوتا ہے تو نفع کا حصول مد نظر ہوتا ہے یا نقصان سے بچنا ، اس کے علاوہ وہ دوسروں کو اپنی بد مزاجی سے محروم کرتا رہتا ہے، ایسے بد مزاج شخص کا اکرام کوئی دل سے نہیں کرتا؛ بلکہ اس کی مضرت رسانی کے خوف اور ڈر سے کرتا ہے، اسی کو حدیث میں یُکْرَمُ الرجُلُ مَخَافۃَ شَرِّہِ سے تعبیر کیا گیا ہے اور جب معاملہ یہاں تک پہونچ جائے تو حدیث میں مسلسل اور متواتر مصائب کے نزول کی بات کہی گئی ہے، بالکل اسی طرح جس طرح دھاگہ ٹوٹ جانے سے تسبیح کے دانے مسلسل گرنے لگتے ہیں۔
بد مزاج لوگوں کے ساتھ خود بد مزاج بن جانا صحیح نہیں ہے، اس سے آپ کی سوچ منفی بنتی ہے اور یہ آپ کے لیے پریشانی کا باعث ہوا کرتی ہے، ان حالات میں قرآنی ہدایات ’’ادفع بالتی ھی احسن‘‘ یعنی خوش اسلوبی سے معاملات کو ٹالنے کی ہے، ایسے لوگوں کو معاف کر دینا یا انہیں محبت کے ذریعہ قریب کرنا بھی ایک حل ہے، بعض لوگوں کی رائے ہے کہ اگر آپ کے اندر قوت بر داشت ہے تو صبر بھی کر سکتے ہیں۔لیکن یہ بد مزاج شخص کے لیے دوا کا نہیں مرض بڑھانے کا سبب بن سکتا ہے۔
ماہر نفسیات نے اس بات کی صراحت کی ہے کہ بد مزاجی کی بڑی وجہ دوسروں پر غالب آنے کی بے جا ہوس ہوتی ہے ، بد مزاج آدمی اپنی زور دار آواز اور بُرا بھلا کہہ کر دوسروں کو مغلوب کرنا چاہتا ہے، عام طور پر سا منے والا چوں کہ بد مزاج نہیں ہوتا؛اس لیے وہ خاموش رہ جاتا ہے، جس سے بد مزاج انسان کاحوصلہ بڑھتا ہے، وہ اپنی منوانے پر مصر ہوتا ہے۔ آپ ایسے لوگوں کی بات مانتے مانتے اپنی شخصیت کھو دیتے ہیں،ا ٓپ کی فکر اور سوچ بھی کہیں گم ہوجاتی ہے، اور آپ کا شمار ان لوگوں میں ہونے لگتا ہے؛ جس کی کوئی اپنی فکر نہیں ہوتی ۔آپ کی خاموشی کو لوگ آپ کی بزدلی سے بھی تعبیر کر سکتے ہیں۔
اپنی شخصیت کی حفاظت کے لیے دباؤ کے اس ماحول سے نکلنا بھی ضروری ہے، ورنہ آپ دوسروں کی دیکھا دیکھی اور دباؤ میں بہت سارے غلط ، صحیح فیصلے لینے اور قبول کرنے پر مجبور ہوجائیں گے، ایسے موقع سے ضروری ہے کہ آپ جذبات میں نہ آئیں، پر سکون رہیں، کبھی کبھی ہنسی مذاق میں ٹال سکتے ہوں تو ٹال دیجئے، اپنی بات کھل کر رکھیے اور اپنے طرز عمل سے بتادیجئے کہ عزت نفس میرے پاس بھی ہے اور مجھے اس کی حفاظت کرنی اچھی طرح آتی ہے ۔
 بد مزاجی بد اخلاقی کا ایک حصہ ہے، اور بد اخلاقی شریعت میں انتہائی مذموم ہے۔ بدمزاجی کبھی تو خود پرستی کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے اور کبھی دوسروں کو حقیر سمجھنے کی وجہ سے، ایک اور وجہ اپنے مقصد اور منصوبوں میں ناکامی ہوا کرتی ہے، آپ نے اپنا ایک ہدف بنا رکھا ہے، اس ہدف تک پہونچنے میں اگر آپ ناکام ہوجاتے ہیں، یا اس میں تاخیر ہو رہی ہے تو آپ کے اندر بد مزاجی پیدا ہوجاتی ہے، بد مزاج آدمی کے پاس سر تو ہوتا ہے لیکن اس میں غور وفکر کرنے والا دماغ کمزور پڑ جاتا ہے، ایسے میں بد مزاج آدمی اندر ہی اندر جلتا رہتا ہے، سلگتا رہتا ہے، اس جلنے اور سلگنے کا نقصان دوسروں کو تو پہونچتا ہی ہے خود اس کی اپنی ذات کوبھی پہونچ جاتا ہے،ماچس کی تیلی کو آپ نے دیکھا ہے اس کے پاس سر ہوتا ہے، دماغ نہیں ہوتا اس لیے ذراسی رگڑ سے جل اٹھتا ہے اور اپنے جسم کو خاکستر کر دیتا ہے، بد مزاج آدمی کا دیر سویر یہی حال ہوتا ہے۔
 بدمزاجی اپنے ساتھ بہت سارے منفی رویوں کو بھی ساتھ لاتی ہے، بد مزاجی کی وجہ سے حسد ، جلن ، بغض وعداوت، چغل خوری وغیرہ انسانی زندگی میں گھر کر لیتے ہیں، یہ رویہ انسانی رشتوں کے لیے زہر قاتل ہوتا ہے۔ اس کا علاج اپنے رویے میں تبدیلی ہے، جب تک رویوں میں تبدیلی نہیں آئے گی ، بدمزاجی ختم نہیں ہوگی۔