Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Friday, January 21, 2022

عورتوں کے خلاف جرائم...


از /مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
                        صدائے وقت 
=================================
 ہندوستان میں مرکزی حکومت کا ایک نعرہ بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ کا بھی ہے، ہندو مذہب میں تو عورتوں کو دیوی سمجھا جاتا ہے بلکہ جتنی مورتیوں کی پوجا ہوتی ہے ان میںاکثر وبیشتر خواتین کے روپ میں ہی ہوتی ہیں، اس کے باوجود، اس ملک میں عورتوں کے خلاف جرائم کا گراف دن بدن بڑھتا جا رہا ہے، بُلّی بائی اور سُلّی ڈیلس جیسے واقعات بھی جرائم کی فہرست میں آتے ہیں، اور جن پر قانونی داروگیر کا آغاز ہو چکا ہے ، لیکن بہت سارے واقعات ومعاملات میں انتہائی سست روی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے عورتوں کے خلاف مظالم اور جرائم کا سلسلہ دراز ہوتا جا رہا ہے۔
 نیشنل کرائم رکارڈس بیورو نے اس سلسلے کے جو اعداد وشمار فراہم کیے ہیں، اس کے مطابق ۲۰۱۱ء میں عورتوں کے خلاف جرائم کی ۲۲۸۶۵۰؍ رپورٹیں درج کرائی گئی ، ۲۰۱۲ء میں اس میں ۴ء ۶؍ فی صد کا اضافہ درج کیا گیا ۔ ۲۰۱۵ء میں ۳۰۰۰۰۰ ، ۲۰۲۰ء میں ۳۷۱۵۰۱، واقعات کا سرکاری سطح پر اندراج ہو سکا، حالانکہ ۲۰۲۰ء میں لاک ڈاؤن کی وجہ سے عورتوں کا باہر نکلنا بہت کم ہو گیا تھا۔
 ریاستی اعتبار سے خواتین کے خلاف جرائم کا تجزیہ کریں تو معلوم ہوگا کہ ملکی سطح پر مجموعی خواتین کی تعداد میں سے صرف ۵ئ۷؍ فی صد مغربی بنگال میں رہتی ہیں، لیکن مغربی بنگال میں خواتین کے خلاف جرائم ۷ء ۱۲ فی صد ہوئے، آندھرا پردیش میں عورتوں کی مجموعی تعداد ۳ء ۷ ؍ فیصد ہے، لیکن وہاں ۵ء ۱۱؍ فی صد عورتیں مجرموں کے ہتھے چڑھیں، اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ خواتین کے خلاف جرائم اتر پردیش میں ۴۹۳۸۵، مغربی بنگال میں ۳۶۴۳۹، راجستھان میں ۳۴۵۳۵، مہاراشٹر میں ۳۱۹۵۴ ، مدھیہ پر دیش میں ۲۵۶۴۰ ہوئے  اور خواتین کو اس کا کرب جھیلنا پڑا۔
 یہ اعداد وشمار حتمی اور آخری نہیں ہیں، ان سے کئی گنا زیادہ جرائم کا ارتکاب ہوا ہوگا ، لیکن وہ پولیس کے یہاں درج نہیں کرائے گئے، اس لیے رکارڈ میں نہیں آسکے، ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت نے بیٹی بچاؤ کا جو نعرہ دیا ہے، اس کے لیے ضروری اقدام کیے جائیں اور خواتین کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔ ورنہ جس طرح عورتوں کی عزت سے کھلواڑ کیا جا تا ہے، وہ اس ملک کی روایتی تہذیب کا جنازہ نکال کر رکھ دے گا، اور مغربی تہذیب سے قریب ہونے کی جو ہوا چل رہی ہے، اس میں سب کچھ خش وخاشاک کی طرح اڑ کر رہ جائے گا، عزت وآبرو بھی اور تہذیبی وثقافتی اقدار بھی۔