Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, February 20, 2022

با کمال صحافی __کمال خان


از /مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
                     صدائے وقت 
=================================
عظیم اور با کمال صحافی، این ڈی ٹی وی کے سینئر رپورٹر اور اپنے انداز پیش کش سے دنیا بھر میں مقبول ومعروف کمال حیدر خان عرف کمال خان کا ۱۴؍ جنوری ۲۰۲۲ء روز جمعہ صبح سویرے حرکت قلب بند ہو جانے کی وجہ سے انتقال ہو گیا، انہوں نے صبح کوئی چار بجے کے آس پاس سینے میں درد کی شکایت کی اور اسپتال پہونچنے سے پہلے ہی دم توڑ دیا، ان کی نماز جنازہ مشہور شیعہ عالم مولانا کلب جواد نے پڑھائی اور لکھنؤ کے عیش باغ قبرستان میں تدفین عمل میں آئی، پس ماندگان میں اہلیہ روحی کمال اور ایک لڑکا امین کو چھوڑا۔
 کمال خان کی ولادت لکھنؤ میں 1959میں ہوئی ، انہوں نے تعلیم کے مختلف مراحل طے کرنے کے بعد لکھنؤ یونیورسٹی سے ایم اے کیا تھا، انہوں نے روسی زبان میں ماسکو یونیورسیٹی  سے پوسٹ گریجویٹ کی سند بھی حاصل کی تھی، ان کا قیام زمانہ دراز سے بٹلر پیلیس کالونی لکھنؤ میں تھا، وہ گذشتہ تین دہائیوں سے این ڈی ٹی وی سے منسلک تھے اور غیر جانب دارانہ رپورٹ ، تجزیے اور مخصوص انداز کی اپنی پیش کش کے لیے مشہور تھے، وہ اپنی رپورٹنگ کو دلچسپ بنانے کے لیے اردو شاعری کا سہارا لیتے اور ناظرین کا دل موہ لیتے، وہ رپورٹنگ سے پہلے اس سے متعلق کتابوں ، تبصرے اور تجزیوں کا بھر پور مطالعہ کرلیتے اور ہر موضوع پر اپنی معلومات کے خزانے لٹاتے، اس کے لیے انہیں بہت محنت کرنی پڑتی  تھی، اسی وجہ سے وہ اپنا وقت سیر وتفریح میں نہیں لگاتے تھے، کام اور کام سے فراغت کے بعد گھر میں بیوی بچوں کے ساتھ آرام کرنا یہ ان کے نظام الاوقات کا حصہ تھا، این ڈی ٹی وی میں ملازمت سے قبل انہوں نے کئی اخبار میں کام کیا، ایک زمانہ میں وہ ہندوستان ایرونا ٹیکس لمٹیڈ میں روسی زبان کے مترجم ہوا کرتے تھے، انہوں نے امرت بازار پتریکا ، نو بھارت ٹائمس اور اسٹار نیوز پر بھی کام کیا، کمال خان نے کبھی اپنے ضمیر کا سودا نہیں کیا، ان کے یہاں صحافت میں تعصب اور جانبداری دوسرے گناہوں کی طرح ایک بڑا گناہ تھا، اس لیے این ڈی ٹی وی میں آنے سے پہلے وہ مختلف اداروں کے لیے کام کیا، لیکن وہاں کے ماحول سے وہ مطمئن نہیں ہو سکے، بالآخر این ڈی ٹی وی آکر انہوں نے چین کی سانس لی اور آخری سانس بھی این ڈی ٹی سے منسلک رہتے ہوئے لی، اپنے مقصد سے وفاداری اسے کہتے ہیں، آخری دم تک وفادار ۔
صحافت نے انہیں کیا کچھ دیا ، اس کی تفصیلات تو ہمارے پاس موجود نہیں ، لیکن اتنا ضرور ہوا کہ عزت، شہرت، مقبولیت، ان کی دیوڑھی پر آکر براجمان ہو گئی ، اور ان کی خدمات کے عوض انہیں متعدد انعامات اور اعزازات سے نوازا گیا، اس فہرست میں رام ناتھ گوینکا ایوارڈ اور صدر جمہوریہ نے ذریعہ گنیش شنکر ودیارتھی سمان بھی شامل ہے۔
 کمال خان چہرے مہرے کے اعتبار سے بھی انتہائی وجیہ اور خوبصورت تھے، ان کے چہرے پر رعب ، گفتگو میں نرمی ، کام کے تئیں لگن او رعزت نفس کی حفاظت ان کی زندگی کے لوازمات میں تھے، وہ صحافیوں کی بے عزتی اور ترش روی پر بڑے بڑے سیاسی قائدین سے بھڑجاتے تھے، اس لیے صحافی برادری میں ان کو ایک خاص مرتبہ حاصل تھا، ان کی زندگی سادہ تھی ، اپنی اہلیہ روچی کمار کی وجہ سے وہ سبزی خور ہو گیے تھے،و ہ صبح کی چہل قدمی کے بھی عادی تھے، لیکن اس کے باوجود وہ اچانک ہارٹ اٹیک میں مبتلا ہوئے چل بسے، صحت کو ٹھیک رکھنے کے جتنے طریقے اسباب کے درجے میں ہو سکتے ہیں وہ اسے برتا کرتے تھے، لیکن جب اللہ کا مقررہ وقت آجاتا ہے تو پھر کسی کی نہیں چلتی ، کمال خاں کی ساری احتیاطی تدابیر دھری رہ گئیں اور موت کا فرشتہ انہیں لے کر چلتا بنا۔
کمال خان کی ساری قدر ومنزلت ان کی صحافت کی وجہ سے ہے، ان کی زندگی کا یہ پہلو اس لائق ہے کہ اس کا ذکر کیا جانے، ان کے انتقال کے بعد جو تعزیتی بیانات آئے اس کی روشنی میں کمال خاں کی صحافی کی حیثیت سے ان کی خدمت وعظمت کو سمجھا جا سکتا ہے، ہر دیش جوشی کہتے کہ ’’سیاست، ثقافت اور معاشرت ہر موضوع پر کمال باتیں کرتے تو اپنا الگ نقش چھوڑ جاتے، ان کی قصہ گوئی کا انداز مسحور کن تھا اور ان میں خبروں کے سونگنے کی فطری صلاحیت تھی۔
 کئی موضوعات پر ان کی رپورٹنگ آج بھی ناظرین کے دل ودماغ میں محفوظ ہے، انہوں نے بابری مسجد ، تین طلاق پر جو رپورٹنگ کی وہ غیر جانبدارانہ صحافت کی ایک مثال ہے، لیکن ان کی وہ رپورٹنگ جو انہوں نے انتہائی خستہ حال پرائمری ایجوکیشن پر کیا تھا، آج بھی دماغ کو پریشان کرتی ہے، اس میں انہوں نے پرائمری اسکول کے اساتذہ کے انٹر ویو لیے ، سوالات پوچھے اساتذہ نے ان کے صحیح جواب نہیں دیا ، ان میں سے ایک سوال یہ بھی تھا کہ ثانیہ مرزا کون ہے؟ کئی استاذ کا جواب تھا مرزا غالب کی رشتہ دار، خوب ہنسی پڑی، لیکن دل رودیا، جب انہوں نے کہا کہ ہنس لیا، بہت مزہ آیا، جب جی بھر کر ہنس لیں تو ان لاکھوں بچوں کے لیے دو آنسو بھی بہا لیجئے گا، جنہیں ایسے اساتذہ پڑھا رہے ہیں اور واقعی پرائمری ایجوکیشن کی اس حالت زار پر آنکھیں خون کے آنسو بہانے لگیں۔
 ایسے تھے کمال خان، کمال ہی نہیں با کمال بھی ، ان کو سچی خراج عقیدت یہ ہے کہ صحافت میں ان کے طریقے اور روش کو اپنا یا جائے، ان کو سمجھنے سننے اور دیکھنے کے لیے سوشل میڈیا کے اس دور میں زیادہ پِتَّہ ماری کی بھی ضرورت نہیں ہے، یو ٹیوب پر سب موجود ہے۔