Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, February 20, 2022

احمدآباد کورٹ کا فیصلہ اور مسلمان....



تحریر /ذاکر حسین / صدائے وقت 
================================== 
2008میں ہوئے احمدآباد بم دھماکہ معاملے میں احمد آباد کی خصوصی عدالت نے 38 مسلم نوجوانوں کو سزائے موت جبکہ 11 کو عمر قید کی سزادی سنائ ہے۔اس فیصلےکے بعد سے پورے ملک کے مسلمانوں میں جہاں غم کا ماحول ہے تو وہیں دوسری طرف کچھ لوگوں میں جشن کا ماحول پایا جارہا ہے،انہیں لگ رہا ہیکہ احمدآباد کی خصوصی عدالت نے اپنے اس فیصلے کے  ذریعہ انصاف کی راہ کو ہموار کیا ہے۔
سزایافتہ مسلم نوجوانوں میں چھ کا تعلق آعظم گڑھ سے ہے۔ان میں سے ایک ابوالبشر نامی نوجوان ہیں،ان کا ذکر راقم سطور اس لئے ضروری سمجھتا ہیکہ ان کی ماضی کی زندگی اور ان کی فیملی کے ماضی اورحال کے حالات سے حقیقت کا اندازہ ہو۔ابوالبشر کا تعلق آعظم گڑھ کے گائوں  بینا پارہ سے ہے۔ابوالبشر کے والد مرحوم ابو بکر گائوں کے ہی ایک مکتب میں استاد تھے،مکتب کے استاد کی تنخواہ کا انداذہ تو ہرکسی کو ہوگا۔ابوالبشر کو لیکر گائوں اور علاقے میں ایک مثبت رائے پائی جاتی ہے۔ابوالبشر کا نام کبھی کسی کرائم میں نہیں سناگیا اور شاید ہی ان کے خلاف علاقائ تھانوں میں کوئ کمپلین ہو۔سیدھا سادھا مڈل کلاس فیملی کا ایک عام انسان جو اپنی روزی روٹی اور بہترین مستقبل کیلئے جدوجہد کی راہوں میں سرگرداں رہتا ہو۔وہیں سزایافتہ آعظم گڑھ کا دوسرا نوجوان محمد سیف کا تعلق آعظم کےسنجرپور سے ہے۔وہی سنجرپور جو بٹلہ ہاؤس انکائونٹر کے بعد سرخیوں میں آیا۔سیف کا تعلق بھی ایک مڈل کلاس فیملی سے ہے۔ایک عام مسلمان کی طرح سیف بھی اپنی تعلیم اور مستقبل کی پلاننگ کو لیکر زندگی کی پٹری پر دوڑ رہا تھا۔کرکٹ کے شوقین اس نوجوان کے خلاف بھی بٹلہ ہائوس انکاؤنٹر سے قبل شاید ہی علاقے کے تھانوں میں کوئ کمپلین ہوئ ہو۔ایک شریف اور عام انسان سیف کو اگر کسی چیز سے دلچسپی تھی تو وہ کرکٹ تھا اور اس کا گواہ پورا علاقہ ہے۔بٹلہ ہائوس انکاؤنٹر میں عاطف امین اور ساجد کی موت ہوئ تھی تو سیف کے پیر میں گولی لگی تھی اور وہیں سے سیف کو گرفتار کیا گیا تھا۔تیرہ سال کے ٹرائل کے بعد عدالت کے اس فیصلے کو لیکر ایک بات قابلِ غور ہیکہ ایک طویل عرصہ بعد اگر عدالت کا فیصلہ ملزمین کے حق میں بھی آئے تو کیا وہ ملزمین کو انصاف ملنےجیسا ہوگا؟ عدالت کی سست رفتاری کی وجہ سے ملک کے بے شمار ملزمین بالخصوص مسلم ملزمین کو ایسے گناہوں کی بھی سزا کاٹنی پڑتی ہے جس کا ارتکاب اس نےخواب میں بھی نہ کیا ہو۔ہمارا سوال یہ ہیکہ اگر احمدآباد بم بلاسٹ کا فیصلہ آسکتا ہے تو بٹلہ ہائوس انکاؤنٹر کی جوڈیشیل انکوائری کیوں نہیں؟تیرہ سال گزرنے کے بعد بھی ملک کے انصاف پسند افراد اور مسلمانوں کا وہی سوال،بٹلہ ہائوس انکاؤنٹر کی جوڈیشیل انکوائری کیوں نہیں؟حالانکہ ملک کے مسلمانوں کے علاوہ دیگر طبقات کے انصاف پسند افراد بٹلہ ہائوس انکاؤنٹر کو Fakeمانتے ہیں اور ان کی جانب سے مسلسل اس پولیس آپریشن کی جوڈیشیل انکوائری کا مطالبہ ہوتا آرہاہے۔لیکن ابھی تک حکومت کی جانب سے بٹلہ ہاﺅس انکاﺅنٹر کی جوڈیشیل انکوائری کا کوئی واضح موقف پیش نہیں کیاجا سکا ہے،جس کی وجہ سے مسلمانوں اور انصاف پسند طبقوں میں غم ومایوسی کا احساس پایا جا رہاہے۔واضح رہے کہ 19 ستمبر2008میں دہلی کے جامعہ نگرمیں دہلی پولس نے اعظم گڑھ کے دو مسلم نوجوان عاطف امین اور محمد ساجد کو مبینہ تنظیم سیمی کا رکن بتا کر ہلاک کر دیاتھا۔اس کے بعد سے حقوق علمبردار کی تنظیموں بالخصوص راشٹریہ علماءکونسل کی جانب سے اس پولس آپریشن کو لیکر مسلسل شک وشبہے کا اظہار کیا جا رہا ہے ۔انکاﺅنٹر میں ہلاک محمد ساجد کی انکاﺅنٹرکے وقت عمر تقریباً14,15کے آس پاس تھی۔ مرحوم ساجد کی عمر کو دیکھ کر اندازہ لگانا مشکل نہیں ہیکہ ساجد نے اتنی کم عمر میں ںدہشت گردی سے کتنا واسطہ رہاہوگا۔انکاﺅنٹر سے متعلق ایسے بہت سے سوال ہیں،جن کے جواب تلاش کرنے کی کوشش میں اس انکاﺅنٹر کو لیکر ذہن میں بہت سے سوال گردش کرنے لگتے ہیں۔ جیسے دہلی پولس کا کہنا تھا کہ جامعہ نگر کے L-18میں مقیم دہشت گرددروازہ کھولتے ہی پولس اہلکاروں پر گولیاں برسانے لگے ۔اب سوال یہ ہیکہ اگردروازہ کھولتے ہی فلیٹ کے اندر سے گولیاں چلائی گیں تو آپریشن کی رہنمائی کر رہے موہن چند شرما کے پیچھے کیوں گولی لگی؟خیال رہے کہ آئین ہندکی مروجہ کرمنل پروسیجر کوڈ(ضابطہ مجموعہ فوجداری)کی دفعہ 176کے مطابق کسی بھی پولس ٹکراﺅ کی مجسٹریٹ جانچ کروانا لازمی ہے۔ہم چاہتے ہیں کہ حکوت مسلمانوں اور انصاف کا احترام نہ صحیح آئین ہند کا احترام کرتے ہوئے اس پولس آپریشن کی جانچ کرواتے ہوئے انکاﺅنٹر سے جڑے شک وشبہات کو دور کرے۔انکاﺅنٹر میں ہلاک محمد ساجد کے بارے میں کہاجاتا ہیکہ وہ ایک نا بالغ لڑکا تھا اورانکاﺅنٹر سے قبل وہ اعظم گڑھ کے اپنے آبائی وطن سنجر پور میں رسوئی گیس بھرنے کی دوکان چلاتا تھا۔انکاﺅنٹر کے وقت ساجد کی عمر 13،14تھی ۔اب اس بات پرر غور کرنے کی ضروت ہیکہ ایک تیرہ،چودہ سال کے بچے کو بم بنانے کی اتنی مہارت کہاں سے حاصل ہوئی ہوگی؟بٹلہ ہاﺅس انکاﺅنٹر کے بعد پولس کی گرفت میں آئے آعظم گڑھ کے خالص پور کے شہزاد احمد کو دہلی کی نچلی عدالت ساکیت کورٹ نے عمر قید کی سزا سنا ئی ہے۔حالانکہ شہزاد احمد کے معاملے میں ایسے بہت سے شواہد ہیں،جو شہزاد احمد کی عمر قید کی سزا پر بہت سے سوال اٹھاتے ہیں۔جس دن ساکیت کورٹ میں شہزاد احمد کی مقدمے کی سماعت ہورہی تھی تو شہزاد احمد نے ساکیت کورٹ سے مانگ کرتے ہوئے کہا تھا کہ فاضل جج ایک بار L-18 کو دورہ کر کے وہاں کا جائز لے لیں کہ کیا اس عمارت کی اوپری منزل سے کوئی چلانگ لگا کر زندہ بچ سکتا ہے؟لیکن ساکیت کورٹ نے شہزادا حمد کی مانگ کو رد کرتے ہوئے اسے عمر قید کی سزا سنا دی تھی۔واضح رہے کہ جامعہ نگر میں واقع L-18چار منزلہ عمارت ہے اور جس فلیٹ سے سے کود کر بھاگنے کا الزام ہے وہ عمارت کی چوتھی منزل ہے ۔ اب غو کرنے والی بات ہے کہ اگر کوئی شخص چار منزلہ عمارت سے کودتا ہے تو وہ کیسے زندہ بچ سکتا ہے؟حکومت کو چاہئے کہ اس انکاﺅنٹر کی عدالتی تحقیقات کروائے،تاکہ اس انکاﺅنٹر کو لیکر ملک کے مسلمانوں اور انصاف پسند طبقوں میں جو شکوک و شبہات پائے جا رہے ہیں۔اس کا خاتمہ کیا جاسکے ۔ہم ملی و سیاسی تنظیموں اور قوم کے ایکایک فرد سے اپیل کرتے ہیں کہ سزایافتہ مسلم نوجوانوں کے معاملے کو اوپری عدالت میں لے جائیں اور اس غم اور تکلیف کی گھڑی میں ان  کے اہلِ خانہ کو بالکل بھی اکیلے پن کا احساس نہ ہونے دیا جائے۔ہم قوم کے لوگوں سے ایک اور اپیل کریں گے کہ قوم کے نوجوان قانون کی پڑھائی کے میدان میں بھی آگے آئیں اور عدالت ںمیں مضبوطی سے قوم کے حق کی لڑائ لڑیں۔ہمیں اس پر بھی نظر رکھنی ہیکہ اس طرح کے معاملے میں سپا بسپا،کانگریس وغیرہ خاموش کیوں رہتی ہیں؟

مضمون نگار الفلاح فرنٹ کے بانی اور صدر ہیں)

ای میل ۔hussainzakir650@gmail.com