Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, February 6, 2022

نقوش آگہی..


از/ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ. 
==================================
 محمد وارث حسن کے اصلی اور وارث ریاضی کے قلمی نام سے اہل علم وادب کی دنیا میں مشہور اور معارف اعظم گڈھ کے حلقۂ قارئین میں خاص طور سے مقبول ومعروف شاعر، ادیب، ناقد اور محقق کا وطن سکٹا علاقہ دیوراج مغربی چمپارن ہے، ۲؍ اکتوبر ۱۹۴۹ء کو شیخ اسماعیل بن شیخ عنایت حسین کے گھر پر اس عالم گیتی میں آنکھیں کھولیں ۱۹۶۵ء میںد ار العلوم دیو بند سے فارغ ہو ئے ، بہار اسٹیٹ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ سے اردو فارسی میں فاضل اور بہار یونیورسٹی مظفر پور سے فارسی زبان وادب سے ایم اے کیا، فرسٹ ڈویزن حاصل کرنے والوں میں تین ہی ان سے آگے بڑھنے کی ہمت جُٹا پائے، زمانہ دراز تک دار العلوم بسوریا کے استاذ اور ذمہ دار رہے، حرف آرزو (۲۰۱۲) نقوش افکار (۲۰۱۶) اور نقوش آگہی (۲۰۲۱) میں منظر عام پر آئی، نقش آرزو زیر طبع ہے اور دیار حرم کا سفر نامہ ’’چند دن دیار حرم میں‘‘ اور مشاہیر کے خطوط ’’پیام شوق‘‘ کے نام سے زیر ترتیب ہیں، شاعری، نثر نگاری کے ساتھ اس عمر میں تحقیق کا کرب جھیلتے رہتے ہیں، ان کی عمر دیکھیے اور حوصلہ دیکھیے، ہم جیسے لوگوں کو تو یہ سب دیکھ کر کم عمری میں ہی پسینہ آنے لگتا ہے۔
’’ نقوش آگہی‘‘ مولانا وارث ریاضی کے مقالات ومکتوبات کا مجموعہ ہے، مقالات میں تحقیق کا عمل دیکھنے کی چیز ہے، بلکہ نئی نسل کو اس سے سبق لینے کی ضرورت ہے کہ تحقیق اس طرح کرتے ہیں، بہار میں قاضی عبد الودود کے بعد تحقیق کا عمل کمزور پڑا ہے، پی اچ ڈی کے نام پر جو تحقیق ہو رہی ہے وہ یا تو قینچی کا عمل ہے یا بقول گوپی چند نارنگ ، دفتیوں کے بیچ کچھ اوراق لکھے ہوئے ہوتے ہیں، ایسے میں وارث ریاضی کی تحقیق اس رسم کہن کو بچائے ہوئے ہے، جس میں جاں سوزی اور جاں کاہی کرکے چیونٹی کے منہہ سے دانہ دانہ جمع کیا جاتا تھا۔ 
تین سو بیس صفحات کی اس کتاب کا انتساب دار المصنفین شبلی اکیڈمی اعظم گڈھ کے ترجمان معارف کے نام ہے، جس نے مولانا وارث ریاضی کو پرورش لوح وقلم کے جذبہ والہانہ سے سرشار کیا، کتاب کا مقدمہ ڈاکٹر غطریف شہباز ندوی نے لکھا ہے، مولانا محمد عمیر الصدیق ندوی نے ’’اپنی بات‘‘ کہی ہے اور ’’عرض مصنف‘‘ میں وارث ریاضی صاحب نے ان آٹھ مقالوں کا تعارف اس طرح کرایا ہے کہ قاری اس کے مندرجات تک جلد از جلد پہونچنے کے لیے بیتاب ہوتے ہیں، یہ مقالات حضرت جگر مراد آبادی کی شاگردی کا مسئلہ حقیقت کے آئینے میں ، عمر ہا باید کے مرد پختہ کار آید چنیں  حضرت مولانا سید نظام الدین ؒکی شاعری ایک تجزیاتی مطالعہ ، بہار کی ایک قدیم دینی درسگاہ ، درست گفت محدث کہ قوم ازوطن است، استدراک، سرہند شریف کا ایک مبارک سفر ، کیسے ہوتے ہیں وہ خط جن کے جواب آتے ہیں ، موضوعات کا پتہ چلتا ہے، عمر ہا باید کے مرد پختہ کار آید چنیں ، درست گفت محدث، اور استدراک نظریہ قومیت پر مولانا حسین احمد مدنی اور علامہ اقبال کے دریان جو اختلاف تھا اس پر ہے بہار کی قدیم درسگاہ میں جامعہ اسلامیہ قرآنیہ سمرا مغربی چمپارن کی تاریخ پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
مکتوب بنام مشاہیر میں دس لوگوں کے نام خطوط ہیں، یہ خطوط مسرور حسین، پروفیسر جگن ناتھ آزاد، عطا عابدی، مولانا ضیاء الدین اصلاحی، ف، س اعجاز ، خلیق انجم، مولانا محمد عمیر الصیدق ندوی، پروفیسر ریاض الرحمن خان شیروانی، خورشید اکبر اور ابرار رحمانی کے نام ہیں، جو سب کے سب علم وفضل کے ماہ نجوم ہیں، یہ مکتوبات بھی علمی ، تحقیقی ہیں، ان میں وارفتگی قلب ونظر کا اظہار کم ہے تحقیق کی شمع اس طرح روشن کی گئی ہے کہ بہت ساری چیزیں جو تاریکی میں تھیں روشنی میں آگئی ہیں۔
 تیسرا باب ’’بغیر لفظ باب‘‘ کے رشحات نقد ونظر ہے، جو اصلا مصنف کی کتاب نقوش افکار پر لکھے گیے ، تبصروں کا مجموعہ ہے، یہ کل چودہ تبصرے ہیں، حوصلہ افزائی اور ذرہ نوازی کے لیے ایک نمبر پر اس حقیر کی تحریر کو جگہ دی گئی ہے جو نقیب میں شائع ہوئی تھی، البتہ مولانا وارث ریاضی صاحب اور پروف ریڈر راجو خان پر اللہ رب العزت کی محبت اس قدر غالب ہے کہ میرا نام فہرست  اور مضمون دونوں جگہ ثناء اللہ لکھ دیا گیا ہے، اللہ بڑا نام ہے، مگر مجھ جیسے گناہ گار کے نام کا وہ جز نہیں بن سکا، بڑے بھائی ماسٹرمحمد ضیاء الہدیٰ مرحوم سے قافیہ ملانے کے چکر میں والد صاحب نے میرا نام محمد ثناء الہدیٰ رکھ دیا، اور اسی نام سے بندہ لوگوں میںجانا جاتا ہے۔
میر ے علاوہ جن لوگوں کے تبصرے اس کتاب میں شامل ہیں، ان میں پروفیسر ریاض الرحمن خان شیروانی، نوشاد منظر، مولانا غطریف شہباز ندوی ، راجو خان، ڈاکٹر محمد طارق ایوبی ندوی، اسعد اللہ، مولانا عمیر الصدیق ندوی، شکیل رشید، پروفیسر فاروق صدیقی ، ڈاکٹر رضاء الرحمن عاکف، ثناء اللہ ثنا دوگھروی، ڈاکٹر مجیر احمد آزاد، ظفر حسین کے نام خاص طور سے قابل ذکر ہیں، ان حضرات نے نقوش افکار کے در وبست اور خوبیوں کا تفصیلی جائزہ پیش کیا ہے۔
 ڈاکٹر غطریف شہباز ندوی نے مقدمہ میں لکھا ہے کہ ’’یہ مجموعہ مقالات زبردست علمی تحقیقات وافادیت سے مملو ہے اور پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔تین سو بائیس صفحات پر مشتمل اس مجموعہ کی قیمت تین سو روپے ہے، دار المصنفین اعظم گڈھ ، بک امپوریم سبزی باغ ، اور خانقاہ مجیبیہ پھلواری شریف پٹںہ سے کتاب مل سکتی ہے، میں اس تبصرہ کو مولانا عمیر الصدیق ندوی کے ان دعائیہ کلمات پر ختم کرتا ہوں، مولانا نے لکھا ہے کہ
’’اس کتاب کے مضامین اور مکاتیب کو پڑھ کر دل سے یہی دعا نکلتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اردو ادب وشعر کی صلاح وفلاح اور علم کی مقصدیت اور اس کی اصل افادیت ونافعیت اور ادب کی بقاء ترقی واستحکام کے لیے وارث ریاضی صاحب کی حیات وخدمات میں برکات کی بارش کرتا رہے، زخموں کی مہر وماہ سے علم کے بام پر جشن چراغان وہ یوں ہی بناتے رہیں۔ ‘‘(آمین)