Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Friday, March 18, 2022

شب برات کی حقیقت*


از/ محمد مرسلین اصلاحی / صدائے وقت 
==================================
عام طور پر شب برات مسلمانوں کا  ایک تہوار سمجھا جاتا ہے ۔ جس کی نہ تو تاریخی حیثیت ہے اور نہ ہی تشریعی ۔ اسلام اور اس کی تعلیمات سے اس کا کوئی واسطہ نہیں ہے شب برات دو لفظوں شب اور برات کا مرکب ہے ، جب کہ لفظ شب فارسی ہے اور برات عربی ۔ اور شب  کے لئے عربی زبان میں لیلہ کا استعمال ہوتا ہے ، اس لحاظ سے شب براۃ کی اصطلاح لیلۃ البراۃ ہونا چاہئے تھا لیکن یہ اصطلاح بالکل ایسی ہی ہے جیسے چراغ العلوم ۔ قران میں لیلۃ المبارکہ اور لیلۃ القدر آیا ہے جو اصلا شب قدر ہے نہ کہ شب برات ۔ عموما لوگوں نے براۃ سے نجات کا معنی اخذ کیا ہے جب کہ قرآن کریم کی ذیل کی پیش کردہ آیات بیزارگی کے معنی کی وضاحت کے لئے کافی ہیں ۔ اور معنی و مفہوم کے تعین کے لئے قرآن سے بہتر کوئی ماخذ نہیں ۔ براۃ عربی زبان میں مصدر ہے۔ اس سے صفت کا صیغہ بری بنا ہے ، جس کی جمع براء اور برئیون آتی ہے ۔ اسی سے مبرا اور تبرا وغیرہ الفاظ بنے ہیں ۔ اور یہ تمام الفاظ نفرت اور بیزارگی کے مفہوم میں آتے ہیں ۔ آیت کریمہ دیکھیں ۔ سورہ توبہ کہ پہلی آیت ہے جسے سورہ البراۃ بھی کہا جاتا ہے۔
براۃ من اللہ و رسولہ الی الذین عاھدتم من المشرکین (توبہ : 1)
ترجمہ :ان مشرکین سے اللہ اور رسول کی طرف سے اعلان برات ہے جن سے تم معاہدہ کئے تھے ۔ 
حضرت عبداللہ بن عباس سے روایت ہے کہ میں نے علی بن ابو طالب سے پوچھا کہ سورہ براۃ (توبہ ) میں بسم اللہ الرحمن الرحیم کیوں نہیں لکھا گیا ۔ علی نے فرمایا کہ بسم اللہ امان کے لئے ہے اور یہ سورہ امان کو ختم کرنے والی اور تلوار نکالنے کے لئے نازل کی گئی ہے ۔
 اسی طرح یہ آیت بھی ہے ۔
  واذا تبراء الذین اتبعوا من الذین  و راوا العذاب و تقطعت بھن الاسباب وقال الذین اتبعوا لو لَنَا كَرَّةً فَنَتَبَرَّأَ مِنْهُمْ كَمَا تَبَرَّءُوا مِنَّا ۗ كَذَلِكَ يُرِيهِمُ اللَّهُ أَعْمَالَهُمْ حَسَرَاتٍ ﴿١٦٧ البقرة﴾
ترجمہ : جب بیزاری کا اظہار کریں گے وہ لوگ جن کی پیروی کی جارہی ہے ۔ ان لوگوں سے جو پیروی کرتے ہیں ۔اور وہ عذاب سے دوچار ہو  گے اور ان کے تعلقات یکقلم ٹوٹ جائیں گے اور ان کے پیرو کہیں گے اے کاش ہمیں دنیا میں ایک بار اور جانا نصیب ہوتا کہ ہم بھی ان سے اسی طرح اظہار بیزارگی کرتے جس طرح انھوں نے ہم سے اظہار برات کیا ۔ 
بیزارگی کے مفہوم میں یہ آیت بھی دیکھیں ۔
فلما افلت قال یقوم انی بری مما تشرکون . (سورہ انعام 78 ) 
ترجمہ : پھر جب وہ ڈوب گیا تو اس نے اپنی قوم سے کہا اے مری قوم کے لوگو میں ان چیزوں سے بری ہوں جن کو تم شریک ٹھہراتے ہو ۔ 
اس مفہوم میں ایک آیت اور دیکھیں ۔
انتم بریئون مما اعمل و انا بری مما تعملون ( سورہ یونس 41)
ترجمہ : تم میرے عمل سے بیزار ہو اور میں تمہارے عمل سے بیزار ہوں۔ 
اب آپ خود ہی طے کر سکتے ہیں کہ براۃ نجات کے معنی میں ہے یا بیزارگی ، نفرت اور برات کے معنی میں ہے ۔ ان ایات میں برات اور تبرا ہم معنی ہیں ۔ اور اسی رات روافض اپنے امام کی پیدائش کی خوشی مناتے ہیں اور اس میں صحابہء کرام سے نفرت و بیزاری کا اظہار کرتے ہیں ۔ ان کا خیال یہ ہے کہ اسی دن امام مہدی کا ظہور ہوگا اور وہ ظاہر ہو کر زمین پر مومنین کی حکومت قائم کریں گے اور نعوذ باللہ قبروں سے نکال کر حضرت عمر و ابوبکر رضی اللہ عنہمما کو پھانسی دیں گے ۔ اور تمام بد نیتوں ( مسلمانوں ) کو قتل کریں گے ۔ رافضیوں کے اس تہوار میں سنت و الجماعت کے لوگ بھی برابر کے شریک ہیں ۔ چناں چہ اس خیال کو حقیقت کا روپ دینے کے لئے متعدد روایتیں گھڑ لی گئیں ۔لیکن ان روایتوں کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ چوتھی صدی ہجری تک احادیث و تفسیر کی جتنی کتابیں تصنیف کی گئی ہیں ۔ان میں لیلۃ البراہ کی کوئی روایت نہیں ملتی بلکہ " اذاکانت لیلۃ النصف من شعبان" یا اس طرح کے الفاظ آئے ہیں ۔ البتہ صوفیاء کے یہاں اس کا ذکر ملتا ہے ۔ اس رات کا ذکر امام غزالی رح کی" احیاء العلوم " شیخ عبد القادر رح کی "غنیہ الطالبین " اور حضرت ابن جہضم کی" بہجۃ الاسرار " وغیرہ میں ملتا ہے ۔ اور یہ سب پانچویں صدی کے حضرات ہیں ۔ صوفیا کے بارے میں یہ بہت عام ہے کہ وہ اخذ روایت میں جرح و تعدیل سے کام نہیں لیتے ۔ ان میں اکثر روایتیں ضعیف اور موضوع ہیں جو ترغیب و ترھیب کے لئے آئی ہیں ۔ 
شب برات میں جن روایتوں کا سہارا لیا گیا ہے موضوع ہیں ، وہیں بعض تابعین رح ، صحابہ رض اور نبی ص کی طرف جھوٹ بھی منسوب کیا گیا ہے ۔ مثلا یہ روایت  : 
عکرمہ نے ابن عباس سے روایت کی ہے کہ اس آیت میں " فیہا یفرق کل امر حکیم " سے مراد نصف شعبان کی شب ہے جس میں اللہ تعالیٰ مردوں کے نام ظاہر کرتا ہے ۔ اس رات میں حاجیوں کے نام مٹائے جاتے ہیں ۔ پھر اس میں نہ زیادتی کی جاتی ہے اور نہ کمی ۔ 
عکرمہ نے عبد اللہ بن عباس کی طرف یہ قول منسوب کیا ہے کہ وہ " انا انزلناہ فی لیلۃ مبارکہ " میں لیلۃ مبارکۃ سے شعبان کی رات یعنی شب برات مراد لیتے ہیں ۔
یہ روایت عکرمہ کے طریق سے ابن عباس سے روایت کی گئی ہے ۔ حالاں کہ یہ ابن عباس کا قول نہیں ہے بلکہ یہ عکرمہ کا اپنا قول ہے ۔ حضرت ابن عباس کے صاحب زادے فرماتے ہیں کہ عکرمہ میرے باپ پر جھوٹ بولتا ہے ۔ اور سعید ابن مسیب نے اپنی وفات کے وقت فرمایا کہ " یا وبرہ لاتکذب علی کما کذب عکرمہ علی ابن عباس "تم مجھ پر ویسا جھوٹ نہ باندھو جیسا کہ عکرمہ ابن عباس پر" ۔ امام مالک ، محمد بن سیرین ، حماد بن زید نے عکرمہ کو صریح الفاظ میں جھوٹا کہا ہے ۔
گویا روایت اپنی سند کے اعتبار سے نا قابل قبول ہے۔ امام ذہبی اسے نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں یہ الفاظ گمرہی سے معمور ہیں،  عکرمہ نے ابن عباس کی طرف جو قول منسوب کیا ہے درست نہیں ۔ 
شب برات کے استدلال میں جس روایت کو دلیل کے طور پر پیش کیا گیا ہے وہ ابن ماجہ اور ترمذی نے نقل کیا ہے ۔ لیکن امام ابن کثیر لکھتے ہیں کہ لیلۃ مبارکہ سے لیلۃ البراہ مراد لینا قرآن کی مخالفت کرنا ہے ۔ جہان تک ابن ماجہ کا تعلق ہے اس کی اکثر روایات کی صحت میں  زبردست اختلاف وارد ہے ۔ علامہ حجر عسقلانی رحمہ لکھتے ہیں ۔ "ففیہ احادیث کثیرۃ منکرہ" ۔ ابن جوزی نے اس کی چالیس روایتوں کو موضوع قرار دیا ہے ۔ اور ایک ہزار سے زائد کو منکر ۔ جس میں عکرمہ کی یہ روایت بھی ہے جسے پیش کیا جاتا ہے۔
اسی طرح یہ روایت بھی ہے جو عثمان بن مغیرہ سے مروی بتائی جاتی ہے کہ "رسول ص نے فرمایا شعبان سے شعبان تک موتوں کا فیصلہ ہوتا ہے ۔ حتی کہ ایک شخص نکاح کرتا ہے اور اولاد ہوتی ہے اور اس کا نام مردوں کی فہرست میں شامل کردیا جاتا ہے ۔ " 
جب کہ یہ روایت بذات خود قرآن مجید سے متصادم ہے ۔ حافظ ابن کثیر نے اسے نقل کرتے ہوئے لکھا ہے ۔ " ھذا حدیث مرسل و مثلہ لا یعارض بہ النصوص " (التفسیر ابن کثیر ج 4ص 137) 
اسی طرح وہ روایت جسے ابن ماجہ اور ترمذی نے نقل کیا ہے ۔ جس کا ترجمہ یہ ہے ۔
" حضرت عائشہ رض فرماتی ہیں کہ میں نے رسول ص کو موجود نہیں پایا اس لئے میں باہر نکل گئی ، دیکھا تو رسول ص بقیع ( قبرستان ) میں ہیں ۔ آپ نے مجھ سے فرمایا کہ کیا تم نے یہ اندیشہ کیا تھا کہ اللہ اور اس کے رسول تمہاری حق تلفی کریں گے ، میں نے عرض کیا ، اے اللہ کے رسول ۔ میں نے خیال کیا کہ آپ اپنی کسی اور بیوی کے یہاں تشریف لے گئے ہیں ۔ فرمایا اللہ تبارک و تعالیٰ نصف شعبان کی شب کو آسمان دنیا پر نزول فرماتا ہے اور قبیلہ ء کلب کی بکریوں کے بالوں کی تعداد سے بھی زیادہ تعداد میں لوگوں کی مغفرت فرماتا ہے ۔ "
جہاں تک ابن ماجہ کا تعلق ہے ابن حجر عسقلانی رح نے اسے تیسرے درجہ کی کتاب قرار دیا ہے ۔ اب زرعہ فرماتے ہیں کہ ابن ماجہ کی جو احادیث قابل استدلال نہیں ہیں ان کی تعداد ایک ہزار ہیں ۔ ( توضیح الافکار لعلامہ ابن اسماعیل العنانی ص 233) عبد الحق محدث دہلوی رح نے اسے صحاح ستہ سے خارج قرار دیا ہے ۔ 
جہاں تک ترمذی کا تعلق ہے  انھوں یہ روایت نقل کرنے کے ساتھ یہ نوٹ بھی چڑھا دیا ہے ۔ جس کاترجمہ یہ ہے ۔
"ابو عیسی نے کہا حضرت عائشہ کی حدیث ہم اسی سند سے جانتے ہیں جس کے راوی حجاج ہیں اور میں نے محمد ( امام بخاری ) کو سنا ہے کہ وہ اس حدیث کو ضعیف قرار دیتے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں یحی بن کثیر نے عروہ سے نہیں سنا ہے ۔ نیز محمد کہتے ہیں حجاج نے ابن کثیر سے نہیں سنا ہے ۔ " چناں چہ یہ حدیث دو جگہ منقطع ہے ۔  
رہی بات حضرت عائشہ رض کا تنہا قبرستان جانا اور آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ سوال کرنا کہ کیا تمہیں اندیشہ لاحق ہوگیا کہ اللہ اور اس کے رسول تمہاری حق تلفی کریں گے ۔ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کی نسبت رسول ص کی طرف کرنا آپ ص کی شخصیت کو مجروح کرنا ہے ۔ اور حضرت عائشہ رض کا یہ گمان کہ آپ کسی بیوی کی طرف گئے ہوں گے تو انہیں جنت البقیع کی طرف جا نے کی کیا ضرورت تھی ۔ کیا نعوذ باللہ حضرت عائشہ رض کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے تئیں اعتماد نہیں تھا ۔ دوسرے اس رات کو اگر اللہ تعالی قبیلہ ء بنی کلب کی بکریوں کے بال کی تعداد کے برابر اپنے بندوں کی مغفرت فرماتا ہے تب تو سارے انسان بلا کسی حساب کتاب کے جنت میں چلے جائیں گے جب کہ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ قبیلہء کلب کے پاس ہزاروں کی تعداد میں بکریاں ہوتی تھیں ۔ یہ کتنی مضحکہ خیز بات ہے ۔ اور اگر یہ رات اتنی فضیلت والی تھی تو آپ ص نے اپنے اصحاب کو اس کی فضیلت سے کیوں بے خبر رکھتے ۔ حتی کہ حضرت عائشہ رض بھی لا علم تھیں کہ قبرستان پہنچ جانے پر انہیں پتہ چلتا ہے ۔ 
اس سلسلے میں قرآن مجید کی سورہ دخان کی جس آیت کو دلیل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے ۔ وہ یہ ہے ۔ 
انا انزلناہ فی لیلۃ مبارکہ انا کنا منذرین فیھا یفرق کل امر حکیم امرا من عندنا انا کنا مرسلین رحمۃ من ربک انہ ھو السمیع العلیم ۔ (سورہ دخان 1تا5 )
تر جمہ " بلا شبہ ہم نے اس کو ایک با برکت رات میں اتارا ۔ بلا شبہ ہم ڈرانے والے تھے ۔ ۔ اس میں تقسیم کیا جاتا ہے ہر حکمت والا کام خاص ہمارے حکم سے ۔ بے شک ہم بھیجنے والے تھے یہ تمہارے رب کی خاص رحمت ہے ۔ بلا شبہ وہ سننے والا اور جاننے والا ہے ۔ " 
یہ سورہ دخان کی ابتدائی آیات ہیں اور سورہ دخان مکی ہے ۔اور مکہ معظمہ میں بقیع نامی کوئی قبرستان کہاں ہے ۔ یہ قبرستان تو مدینہ میں ہے ۔ اگر شب برات والی یہ آیت مکہ ہی میں نازل ہوگئی تھی تو اس کی اطلاع مدینہ میں کیوں دی گئی ۔ ان آیات سے چار امور کا پتہ چلتا ہے ۔ 
1۔اس رات میں قرآن کا نزول ہوا ۔ 2۔اس رات میں تمام احکامات کے فیصلے کئے جاتے ہیں ۔ 3. اس رات میں نزول رحمت ہوتا ہے ۔ 4۔ یہ مبارک رات ہے ۔
 جس کی پوری وضاحت سورہ القدر میں ملتی ہے ۔ 
انا انزلناہ فی لیلہ القدر وما ادراک ما لیلۃ القدر ، لیلۃ القدر خیر من الف شھر تنزل الملائکۃ و الروح فیھا باذن ربھم من کل امر ، سلام ھی حتی مطلع الفجر۔
ترجمہ ۔ "ہم نے اسے شب قدر میں نازل کیا اور تم کیا جانو شب قدر کیا ہے ۔ شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے ۔ اس میں فرشتے اور روح اترتے ہیں ۔ ہر امر میں اپنے رب کی اجازت کے ساتھ ، وہ سراپا سلامتی ہے ۔ یہ صبح کے نمودار ہونے تک ۔ "
اس سورہ میں جو امور بیان ہوئے ہیں سورہ دخان کی تائید و تبیین کرتے ہیں ۔ اس میں جو مبارک رات ہے وہی اس میں شب قدر ہے ۔ لیکن ان آیات سے بھی شب قدر کا تعین نہیں ہوتا کہ وہ کس ماہ میں ہوتی ہے لیکن سن 2 ھجری میں جب روزے کی فرضیت کا حکم آیا  تو واضح ہوگیا ۔ 
شھر رمضان الذی انزل فیہ القرآن ۔ 
ترجمہ "وہ رمضان کا مہینہ ہے جس میں قرآن نازل ہوا ."
آپ دیکھیں کہ  اگر لیلہ مبارکہ سے مراد شب برات ہے تو یہ اس بات کا انکار ہے کہ قرآن کا نزول رمضان میں ہوا ۔ 
چناں چہ یہ واضح ہو گیا کہ وہ رمضان کی مبارک رات ہے ، جسے لیلۃ مبارکہ اور لیلہ القدر کہا گیا ہے ۔اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد بھی ہے جو عروہ بن زبیر سے مروی ہے کہ نبی ص نے فرمایا تم تلاش کرو شب قدر کو رمضان کی آخری دس راتوں میں ۔
اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا : 
من قام رمضان ایمانا و احتسابا غفر لہ ماتقدم من ذنبہ 
ترجمہ "جس نے ایمان رکھتے ہوئے ثواب کی غرض سے رمضان میں قیام کیا اس کے گزشتہ گناہ معاف کر دئے جاتے ہیں ۔ " 
چناں چہ شب قدر کے ان فضائل کو شب برات کے ساتھ  گڈ مڈ کر دیا گیا جو  روافض کی پانچویں صدی کی ایجاد کردہ بدعت ہے۔ جس کی کوئی تاریخی اور شرعی حیثیت نہیں ہے ۔ جیسا کہ آپ ص نے فرمایا ۔ کل بدعۃ ضلالۃ و کل ضلالۃ فی النار ۔ ہر بدعت گمرہی ہے اور ہر گمرہی کا ٹھکانہ جہنم ہے ۔ ہواللہ اعلم 

احکام ترے حق ہیں  مگر  اپنے مفسر 
تاویل سےقرآں کو بنا سکتےہیں پاژند 
 *محمد مرسلین اصلاحی*