Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Friday, April 1, 2022

ائمہ کرام اور عوام الناس*



 *بقلم:پروفیسر ڈاکٹر عبدالحليم قاسمی* 
                     صدائے وقت 
=================================
ائمہ کرام سے متعلق دور حاضر میں بسا اوقات روز بروز آئے دن کچھ نہ کچھ تحریریں و تقریریں سماعت سے ٹکراتی رہتی ہیں، 
ائمہ کرام کے اعزاز و اکرام کو لیکر کافی شکوہ شکایات عوام کے تئیں گلے شکوے ہوتے رہتے ہیں، 
بعض مفکرین کا ایسا خیال ہے کہ عوام اپنے اماموں کا خاطرخواہ  لحاظ نہیں کرتی،
ابھی گزشتہ دنوں دہلی وقف بورڈ کے ائمہ کرام نے اجتماعی طور پر احتجاج کیے، میڈیا میں خوب آتا رہا، چھ چھ ماہ سے قوم و ملت کے رہنما اماموں کو وقف بورڈ سے مشاہرے کی ادائیگی نہیں کی گئی،سبھی معمر با وضع قابل رحم امام قرضوں میں ڈوبے ہوئے میڈیا سے گوہار لگاتے ہوئے دیکھے گئے، ان بے یار و مددگار، ناتواں قابل رحم اماموں کی مدد کے لیے کسی بھی مسلم تنظیم نے آواز بلند نہیں کی، 
آج ایک بہت ہی معتبر و متبحر مسلک دیوبندیت کے حامی عالم دین کی تقریر سنی، حضرت نے رمضان کی آمد پر ائمہ کرام کی خصوصی نگہداشت اور ختم تراویح پر نذرانہ کی ادائیگی اور اماموں کو نوازنے کی تلقین کی، 
بہت اچھی بات ہے، ائمہ حضرات کی عزت، عظمت، عصمت ہم سبھی کے فرائض منصبی میں داخل ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ کب تک قوم کے مذہبی رہنماؤں کو عوام کا دست نگر اور چندہ کا محتاج بنا کر رکھا جائے گا،
 کچھ حقائق ایسے بھی ہوا کرتے ہیں کہ جن کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، 
اماموں کے وقار و فضائل اور عوام میں عظمت، قدر و منزلت اسی وقت محفوظ رکھی جا سکتی ہے جب ائمہ اپنے معاش کے اعتبار سے عوام کے دست نگر نہیں ہوں گے،
شرعاً امامت کا منصب دنیاں کے عظیم تر مناصب میں سب سے اعلیٰ اعزاز و مقام کا حامل ہے،
ہندوستانی تناظر میں امامت کو اس طرح ملازمت سے جوڑ دیا گیا کہ امامت کے ساتھ دوسرے مشاغل کا تصور ہی ذہن سے نکل گیا، ظاہر ہے ملازمت ایک ایسی فیلڈ ہے جہاں کہیں نہ کہیں حالات کے اعتبار سے ملازمین کا استحصال بھی ہوا کرتا ہے،
عوض اور معاوضہ کی صورت میں جوابدہی اور ٹوکا ٹاکی انسانی فطرت اور کمزوری بھی ہے،
لھذاٰ وہ کمیٹی جو پورے ماہ چندہ اکٹھا کر امام صاحب کو مشاہرہ دیتی ہے وہ کمیٹی بھی فطرت انسانی و کمزوری سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتی، 
نتیجتاً گاہے گاہے جوابدہی، ٹوکا ٹاکی، کمتری برتری، تبدیلی و تقرری کے حالات رونما ہوتے رہتے ہیں، جہاں پر یہ حالات نہیں ہوتے وہاں آج بھی شاہی مساجد کے اماموں کے وقار پر دنیاں رشک کرتی ہے،
مسائل صرف چھوٹے طبقات کے لیے ہوا کرتے ہیں،
ضرورت اس بات کی ہے کہ چھوٹے ائمہ کی معاشی، سماجی، معاشرتی ترقی کے لئے کام کیا جائے،متولیان و ذمہ داران مساجد کو اپنے ائمہ کرام کو خالی اوقات میں دوسری مناسب مصروفیات کی اجازت موقع و محل کے اعتبار سے ضرور دینی چاہیے تاکہ اپنی معاشرت کو مضبوط کر سکیں، بصورت دیگر مجبوری، تنگی حالات، بعض اوقات استحصال کے حالات کی وجہ سے  مسائل کا تصفیہ کسی بھی طرح ممکن نہیں،
شکریہ
 *مورخہ 26 مارچ بروز ہفتہ 2022*
 *abdulhaleemeumc@gmail.com* 
 *WatsApp 9307219807*