Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, April 21, 2022

*ماضی میں دانستہ طور پر کی گئیں غلطیاں اور دور رس نتائج،*



 *بقلم:پروفیسر ڈاکٹر عبدالحليم قاسمی*
                      صدائے وقت 
=================================
قوموں کی زندگیوں کو کامیاب ترین بنانے کے لیے جائز دنیاوی تقاضوں کو خود اختیار کر دوسروں کو بھی اپنانے کے لیے آمادہ کرنا ہر کامیاب دور کی کامیابی کا راز رہا ہے،
جن قوموں نے جائز عہدی تقاضوں کی اندیکھی اور اپنی وراثت کی حفاظت میں تساہلی اور اپنے مشن کی تشہیر میں تفریق، غیر ضروری تاویل، درجہ بندی، حدبندی اور نا انصافی کی وہ قومیں کہیں نہ کہیں تاریخی حوالوں سے استحصال کا شکار ضرور ہوئیں،
 *امت محمدیہ اور مشن رسالت صلعم*
عہد رسالت کے بعد مقصد رسالت کی تشہیر، ترویج، تبلیغ و تعمیل کا ذمہ رہتی دنیاں تک امت محمدیہ کے کاندھوں پر آن پڑی،
 *امت محمدیہ کے تابندہ ستارے*
بانی امت محمدیہ نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کے تربیت و ٹریننگ یافتہ اصحاب رسول صلعم جن کے بارے میں حضور پاک کا ارشاد گرامی میرے صحابہ چمکتے ستاروں کے مانند ہیں ان میں سے جسکی بھی جس فیلڈ و میدان میں پیروی کر لوگے کامیابی قدموں میں آکر خوش آمدید کہے گی،
 *اصحاب رسول صلعم اور مختلف میدان عمل*
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا دنیاں دار الأسباب میں مختلف مشروع راستوں پر عمل پیرا ہو کر مختلف میدانوں میں عملی نمونہ پیش کر مختلف علاقوں میں رہائش پذیر ہو کر آخرت کو کیسے کیوں کر کامیاب و با مراد اور با مقصد بنایا جا سکتا ہے اس کی مثال رہتی دنیاں تک نہ صرف محال بلکہ ناممکن ہے،
زندگی کا کوئی شعبہ، کوئی فیلڈ، کوئی میدان عمل بلا تفریق دنیاں و آخرت ایسا نہیں جہاں  شریعت محمدی اور اصحاب رسول صلعم کی مکمل رہنمائی نہ ملتی ہو،
*کارہائے نمایاں اور اصحاب رسول صلعم*
ترقی پسند عہد خلافت سے شروع ہوئے ترقی پذیر ملکی سیاسی نظام، انسانیت کی ارتقاء،علوم و فنون، ٹریڈ و تجارت پر دسترس،غیر ملکی سفارتی و تبلیغی دورے، خالص ملکی سیاسی اور عدالتی عہدوں پر تعیناتی کے علاوہ دور حاضر کے بیشمار ملکی، سیاسی، عدالتی، انتظامی امور در اصل عہد صحابہ و دور خلافت اور مابعد خلافت سے ہی مستعار ہیں،
*عہد زریں اور تحقیقاتی کارنامے*
مختصر مضمون میں سارے پہلوؤں پر مفصل تبصرہ ممکن نہیں، البتہ تاریخ اسلام کا تفصیلی مطالعہ اس پر شاہد ہے کہ عہد زریں اور ابتدائی زمانے کے سارے دینی و عصری علوم اور ان کے موجد، بانی، فنکار،ماہرین کے علاوہ سبھی تحقیقاتی و ایجاداتی کام امت محمدیہ کے ابتدائی و ارتقائی دور ہی سے ماخوذ اور مرہون منت ہیں،
*کتمان و تفریق علم*
ہزاروں سال کی تعلیمی ، ثقافتی،سیاسی، تعمیراتی اور تحقیقاتی کارناموں پر مشتمل عہد زریں کے تاریخی پہلوؤں پر بتدریج آہستہ آہستہ وقت گزرتے گزرتے بعد کے زمانوں میں پردہ پوشی کرنے ،شعبہ جات و مختلف میدانوں کے درمیان حدبندی اور خط فاصل قائم کرنے ،صحابہ کرام جیسے جید مبلغ ابتداء اسلام کے دور اول کے محافظ و مجاہد پاسبانِ نبوت کے عملی طور و طریقوں میں تفریق کرنے کی جرات کرنے، شرعی اصولوں کو دنیاوی تقاضوں کے ساتھ منطبق کرنے سے عوام کو نابلد رکھنے ، دین فطرت کو کبھی شعوری اور کبھی لاشعوری طور پر دین مقصد بنانے،افراط و تفریط کے مابین عدم توازن برقرار رکھنے کی وجہ سے آج تا دم تحریر صورتحال اتنی بدلتی چلی گئی کہ گویا دین قیم اور دین فطرت دنیاں میں بسنے والے مسلمانوں کے بجائے آسمانوں میں رہنے والے فرشتوں کے لیے نازل کیا گیا ہو،
*ذہنی خلفشار اور تصفیہ* معاشرتی،سماجی،اقتصادی،تعلیمی تفریق و حدبندی کو گزشتہ چند صدیوں سے ذہنوں میں ایسا پیوست کیا جاتا رہا کہ دین و دنیاں کے مابین فرق بیان کرنے کو ایک زمانہ تک باعث ثواب سمجھا جاتا رہا،جبکہ ہونا یہ چاہیے تھا کہ نص قطعی، أقوال رسول صلعم ، حیات و حکایات صحابہ، دور حاضر میں مروجہ سبھی درسگاہوں میں داخل نصاب دینی کتابوں کے ابواب میں معاشرتی،سماجی،سیاسی،عدالتی تجارتی،مالیاتی و مختلف تعلیمی پہلوؤں کا تذکرہ و معاشرے میں اہمیت کے علاوہ دنیاوی علوم و امور کو شریعت کے ساتھ منطبق کرتے ہوئے برتنے کی افادیت بیان کرتے ہوئے عوام کے ذہنوں کا تصفیہ اور ذمہ داری کے ساتھ وقت رہتے عملی ٹریننگ دی جاتی،
*تعلیمی درسگاہیں اور تفریق تعلیم*
شعبہ جات کی تقسیم کے اثر سے ہندوستانی تعلیمی درسگاہیں بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکیں، ہندوستانی تناظر میں ابتدائی و ارتقائی دور ذہنی کشمکش کا شکار اور تفریق علوم و فنون کی مخالفت پر کمر بستہ رہا،
جب زمانہ بتدریج تجدید کاری کی طرف گامزن ہوا اس وقت گرچہ قولاً مخالفت میں کچھ معمولی سی کمی دیکھنے میں آئی البتہ عملاً ابھی بھی معدودے چند خاص درسگاہوں کے کوئی خاص تشفی بخش فرق نظر نہیں آتا،
دراصل حقیقی صورتحال کا تعلق تجزیہ و مشاہدات سے ہوا کرتا ہے، لھذاٰ ہر صاحب نظر زمینی حقائق کا جائزہ لیکر رائے قائم کر سکتا ہے، 
*موجودہ درسگاہیں اور تعلیمی مشاہدات*
گزشتہ چند سالوں میں مذہبی درسگاہوں میں زیر تعلیم طلباء کے اندر دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ پرائیویٹ عصری فاصلاتی نظام تعلیم سے آراستہ ہونے کی  دلچسپیاں و خواہشات تلامذہ کے اندر دیکھنے کو ملیں،
اس سلسلے میں کچھ اسٹوڈنٹ نے ذاتی جستجو، مشورے اور معلومات بھی حاصل کیں،
جو ممکن ہو سکا رہنمائیاں بھی کی گئیں، نتیجتاً طلباء نے ہائی اسکول اور انٹر کے پرائیویٹ فاصلاتی نظام کے تحت فارم بھی اپلائی کئے،
جب امتحان کا وقت آیا،اسٹوڈنٹ نے چند دنوں کے لئے جہاں جن مقامات پر امتحانات کے مراکز قائم کئے گئے وہاں بہت خاموشی سے امتحانات دینے چلے بھی گئے، اچانک تعلیم گاہوں میں تعداد کی کمی کے باعث بعض منتظمین درسگاہ کو کہیں سے بھنگ لگ گئی، تفتیش کے بعد تلامذہ کے اخراج کو کار ثواب اور اجر عظیم سمجھتے ہوئے دانستہ سزا کے طور پر انجام دیا گیا،
جبکہ بعض تلامذہ نے والدین میں سے کسی ایک کو وفات پا جانے اور دوسرے چھوٹ کا سہارا لے کر داخلہ کی واپسی کروانے میں کامیاب بھی ہو گئے وہیں کچھ تلامذہ تعلیمی سلسلہ منقطع کر تفریق علم کا شکار بھی ہوئے، 
جبکہ زیادہ تر تعلیم گاہوں کے تلامذہ ڈر اور خوف کی وجہ سے اس قسم کے اقدامات شروع ہی سے نہیں کرتے،
تلامذہ کی ایک جماعت آج بھی دونوں قسم کی دینی و عصری تعلیم کے ایک ساتھ اجتماع کو ناجائز نہ سہی غیر مناسب اور غیر مستحب ضرور سمجھتی ہے، 
سچائی یہ ہے کہ ہر طرح کی ذہن سازی کے اچھے برے اثرات بہرحال نسلوں و زمانوں پر مرتب ہوا کرتے ہیں، 
سوال یہ ہے اگر چند دنوں کے ناغہ سے بغیر کسی مذہبی عقیدے، مالی، سماجی نقصان کے طلباءِ دین علوم عصریہ ہائی اسکول یا انٹر ساتھ ساتھ کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو اس میں مخالفت کیوں اور حرج و نقصان کیا ہے،
اس قسم کے بیشمار واقعات کا چشم دید گواہ رہا ہوں جہاں دانستہ طور پر طلباء کو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا تو کجا بلکہ ارادتاً دور رکھتے ہوئے بعض اوقات غیر معمولی سرزنش کا شکار بھی بنایا گیا ہے اور تا ہنوز عمل جاری ہے، 
اگر بدگمانی اور لوگوں کی غیر معتبر ملامت اور لوگوں کی ذہنی خلفشار کا خدشہ نہ ہوتا تو یقیناً ایسی مخالفت پر آمادہ رفاہی اداروں کی نشاندہی اور فہرست پورے شواہدات کے ساتھ قارئین کے سامنے ضرور پیش کرتا،
مقصد خدا نخواستہ تنقیص و تنقید یا تخریب کاری باالکل نہیں بلکہ صورتحال سے فقط آگہی اور ان لوگوں کو بطور خاص باور کرانا مقصد ہے جو یہ کہتے ہیں کہ اہل علم کبھی بھی تفریقِ تعلیم اور عصری تقاضوں کے مخالف نہیں رہے، 
جبکہ مشاہداتی تجزیہ اور زمینی حقائق آج بھی سچائی بیان کر رہے ہیں، 
*دانستہ غلطیاں اور نتائج*
ہمارے بڑوں نے ماضی میں اگر تھوڑی سی ہمت کر لی ہوتی اور رسک لے لیا ہوتا تو آج بغیر کسی دینی، مذہبی، عقیدہ کی خرابی، مالی نقصان،غیر ضروری فکروں اور ضیعان وقت کے عصری فاصلاتی نظام تعلیم سے مستفید ہوکر بیشمار رفاہی قومی اداروں کے مذہبی اسکالرز ہونے کے ساتھ ساتھ ہائی اسکول و انٹر و دیگر سرٹیفکیٹ کورسز بھی ایک ساتھ مکمل کرنے والوں کی ایک بڑی تعداد میدان عمل میں اب تک اتر چکی ہوتی،
 *تشویشناک صورتحال*
تشویشناک صورتحال یہ ہے کہ غلط فہمیوں اور غلط پالیسیوں کا شکار صرف عام تلامذہ اور سرپرست ہوا کرتے ہیں جبکہ خواص الحمد اللہ زمانہ قدیم سے اپنے ذاتی معاملات میں عصری تقاضوں و ضرورتوں سے نہ صرف ہم آہنگ بلکہ مکمل تازہ ترین صورتحال سے اپڈیٹ انفرادی طور پر ہر طرح کی تجدید کاری میں مصروف عمل اور کاربند ہیں،
مسائل، اندیشوں، خدشات کو بعض حلقوں میں صرف عوام کے لئے خطرہ سمجھا گیا ہے،آج بھی مسلمانوں کی مرکزی مذہبی قیادت عملی طور پر سنجیدہ نہیں، غیر سنجیدگی کی بڑی دلیل یہ ہے کہ آج بھی کسی مرکزی و مذہبی قیادت کی طرف سے کوئی تحریری و تقریری گائیڈ لائن تعلیمی سلسلوں میں نہ ماضی میں جاری ہوئیں اور نہ ہی حال میں کوئی تعلیمی پالیسی نگاہوں کے سامنے سے گزری قطع نظر صرف ایک غیر تعلیمی اور غیر تدریسی تنظیم کے جس نے گزشتہ دنوں کچھ اشتہاری اور کچھ عملی محدود اقدامات ضرور  کئے ہیں،
اگر کسی صاحب نظر کے علم میں کسی مرکزی تعلیمی ادارہ کے قائد کی طرف سے کوئی عوامی تعلیمی پالیسی، تحریر یا تقریری کلپ اور گائیڈ لائن ہو تو نیچے دئیے گئے نمبر پر ارسال فرما کر میرے علم میں اضافہ فرمائیں، ذاتی طور پر ممنون رہوں گا، 
سنجیدگی و متانت اور موجودہ صورتحال اس بات کی متقاضی ہے کہ مسلک دیوبند کے مرکزی ادارہ اور مرکزی قیادت کی جانب سے واضح تحریری اور تقریری گائیڈ لائن پورے ملک کے مسلم نوجوانانِ قوم اور ملحقہ درسگاہوں کے لیے مہم کے طور پر جاری ہونا چاہیے،
غیر تعلیمی تنظیموں کی عملی مداخلت سے سیکڑوں گنا کہیں زیادہ مرکزی ادارہ کی صرف ایک عدد لیٹر ہیڈ پر جاری تحریر اور گائیڈ لائن پوری ہندوستانی امت مسلمہ کے لیے انشاءاللہ تریاق کا کام کرے گی،
عقل سلیم بھی اس بات کی متقاضی ہے کہ جب دیگر ملی مسائل اور حالاتِ حاضرہ پر تقریریں، مشورے، ہدایات جاری کی جا سکتی ہیں تو تعلیمی پالیسیوں پر کیوں نہیں،
 *زبوں حالی کے اسباب اور سد باب*
وقتی طور پر زمانہ و ادوار کے اختلاف سے مسائل، مشکلات، اسباب مختلف ہو سکتے ہیں البتہ مجموعی طور پر قوموں کی زبوں حالی اور گراوٹ کی اصل اور بنیادی وجہ ہر دور میں تعلیمی پسماندگی اور اخلاقی تنزلی ہی ہوا کرتی ہے،
( *1* ) ہندوستانی مروجہ طریقہ تعلیم کے عصری و جديد تعلیمی شیشن کا آغاز ہوچکا ہے جبکہ بعض تعلیمی درسگاہوں میں عنقریب ہونے والا ہے،پپلک اسکولز میں داخلہ لینے والے طلباء و طالبات کی بنیادی دینی تعلیم و ذہن سازی کے پارٹ ٹائم اقدامات حسب سہولت و گنجائش وقت کی اہم ترین ضرورت ہے،
( *2* ) رمضان المبارک کے بعد متصلاً دینی تعلیم گاہوں کا شیشن بھی پورے ملک میں ایک ساتھ شروع ہونے جا رہا ہے، لھذٰا ابتدائی دور میں ہی درست اور واضح سمت اور ڈائریکشن کا تعین کرتے ہوئے ہدایات جاری کی جائیں، تاکہ قوم و ملت کی رفاہی اور امدادی سرمایہ کاری کو کامیاب ترین بناتے ہوئے بروقت لائحہ عمل اور عملدرآمدگی کو ممکن بنایا جا سکے،
( *3* )ہر اسٹریم اور فیلڈ کے مسلم  طلباء و طالبات کی ذہن سازی اور شریعت اسلامی کے تعارفی و بجا آوری کے ابتدائی ترغیبی، تحریکی اور تشویقی بیانیہ(Motivational Lecture) پروگرام منعقد کرتے ہوئے ماہرین فن اور ایکسپرٹ کے ذریعہ لکچر کرائے جائیں تاکہ تلامذہ میں جذبات و احساسات کو بیدار کر چھپے ہوئے ٹیلینٹ اور لیاقت کو ابھارا جا سکے،
( *4* )علوم و فنون اور تعلیمی سلسلوں میں حد فاصل رابطوں کی دوری(Communication Gap) بدگمانیوں،غلط فہمیوں کو دور کیا جائے، 
اس طور پر آئندہ مستقبل میں شاندار معاشرے کی تشکیل نہ صرف ممکن بلکہ انتہائی منظم اور مستحکم ہونے کے پورے امکانات ہیں،چند سالوں کی کوششوں کے بعد مکمل بدلی ہوئی تصویر انشاءاللہ نظر آئے گی، 
شکریہ
 *مورخہ 21 اپریل بروز جمعرات  2022*
 *abdulhaleemeumc@gmail.com* 
 *WatsApp 9307219807*