Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Friday, April 29, 2022

*عیدالفطر کے بعد منعقد ہونے والی شادیوں کی تقریبات اور سماجی سرگرمیاں،*



 *بقلم:پروفیسر ڈاکٹر عبدالحليم قاسمی*
                      صدائے وقت 
================================
ماہ رمضان کی با برکت ساعات و لمحات کے اختتام کے بعد مسلم گھرانوں میں خاص طور پر شادی بیاہ کی تقریبات کا سیزن اور ماحول ہوا کرتا ہے۔
دور دراز علاقوں میں مقیم اعزہ و اقارب عیدالفطر کے موقع پر اپنے مادرِ وطن اپنوں اور اپنے خاندان والوں کے ساتھ عیدالفطر کی خوشیاں ایک ساتھ منانے کو ترجیح دیا کرتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ گھریلو تقریبات اور جشن کا یہ موقع عمومی طور پر لوگوں کی پہلی پسند ہوا کرتا ہے۔

 *تمہیدی کلمات* 
دنیاء انسانیت کا اولین پروان چڑھنے والا سب سے پہلا رشتہ میاں بیوی کا رشتہ ہی کہلایا،
خالقِ کائنات کا ابتداء دنیا سے بابا آدم اور دادی حوا علیہما السلام کی تخلیق و ترتیب دراصل رشتہ ازدواج اور اس کی اہمیت کو سمجھنے کے لیے کافی ہے۔
 تمام تر مروجہ رشتوں کی بنیاد اور ماخذ شادی بیاہ سے شروع ہونے والے میاں بیوی کے رشتوں پر ہی منحصر ہوا کرتے ہیں۔
 
 *نکاح و تعلیمات رسولﷺ*
دنیاء انسانیت کی بقاء،توالد و تناسل کا سلسلہ و دوام،افزائش نسل پر فخر امت کہلائے جانے، شادی و نکاح کی شرائط و قدرت پر قادر ہونے کے باوجود اعراض و انحراف کرنے پر نبیﷺ کے ارشادات اور وعیدیں، نصوص قطعیہ و قرآنی تعلیمات، احادیث نبویہ، دور صحابہ و دور خلافت کے احکامات، دارالقضاۃ کے فیصلے، نکاح، فسخ نکاح، طلاق، خلع، حلالہ کے مسائل و تصفیہ کے منظم و مرتب شرعی احکامات کی مکمل تدوین و رہنمائی نکاح اور طریقہ نکاح کی اہمیت و عظیم ترین عبادت کی طرف اشارہ ہے۔

*نکاح و شرعی نقطہ نظر اور انتخاب*
شادیوں کے سلسلے میں خاندانوں، شہروں، قبیلوں، علاقائی تہذیب و تمدن کے اختلافات سے خود ساختہ و مروجہ روایتی پیمانے و پیرامیٹرز اعداد و شمار میں قدرے مختلف اور اتنے زیادہ ہوا کرتے ہیں کہ ان کا احاطہ ایک مختصر سے مضمون میں کرنا بہت ہی مشکل امر ہے۔
نبی اکرم ﷺ نے ہمسفر و شریکِ حیات کی تلاش و جستجو کے سلسلے میں مجموعی طور پر انتخابِ نکاح کی اصل تین بنیادی وجوہ ارشاد فرمائی۔
( *1* ) سلسلہ حسب و نسب اور خاندانی شرافت و ثقافت کے علاوہ دینی و مذہبی ترجیحات کی بنیاد پر پیغام نکاح کو بھیجنا ،تاکہ مابعد نسلوں میں روحانی وراثت کی منتقلی ممکن ہو سکے۔
( *2* ) حسن و جمال اور خوبصورتی کی بنیاد پر رشتہ ازدواج کا انتخاب کرنا تاکہ مابعد زندگی خوشگوار گزر سکے۔
( *3* ) دولت و ثروت کی وجہ سے شریک حیات کو اس گمان اور دور اندیشی کی بنیاد پر منتخب کرنا کہ مابعدِ نکاح وراثت کی منتقلی پر زندگی میں مادّی آسانیوں کی فراہمی ممکن ہو سکے۔
حضور اکرم ﷺ کے تین اہم نکات پر مبنی ارشادات گرامی مجموعی طور پر شریعت محمدی اور انسانی مزاج و فطرت کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اجمالاً زندگی کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کرتی ہیں۔

*دور حاضر میں نکاح کو مشکل ترین بنانے والے عوامل*
نکاح درحقیقت سنت رسولﷺ کی پیروی کا ذریعہ، سماج کی تشکیل، بقاء بنی نوع انسانی، صلہ رحمی کا ضامن، انسدادِ بے راہ روی کا ذریعہ، عفت و عصمت اور پاکدامنی کا محافظ، خاندانوں کی آبادکاری کا ذریعہ ہے،
نکاح جیسی عظیم عبادت اور اہم ترین انسانی ضرورت کو اتنا مشکل بنا دیا گیا کہ اس کے برے اثرات کا بآسانی مشاہدہ پورے معاشرے میں ہر شخص کر سکتا ہے،
نکاح کو دشوار بنانے میں جہاں ایک طرف علاقائی روایت، رسم و رواج اور جہالت ذمہ دار ہے وہیں دوسری طرف اہل علم اور پاسبان نبوت کے علمبردار بھی کہیں نہ کہیں نکاح خواں کی حیثیت سے ذمہ دار ہیں، 
( *1* ) شادی بیاہ اور پورے طریقہ نکاح کو اصل بنیادی مقاصد سے قطع نظر شان و شوکت، جاہ جلال، واہ واہی، عارضی دکھلاوے اور مادیت پرستی سے جوڑنا۔
( *2* ) نکاح کی تقریبات کے انعقاد کو گھروں، خاندانوں و محلات سے نکال کر سرمایہ کاری پر مبنی میرج ہال میں منعقد کرنا۔ 
( *3* ) تقریب نکاح سے پہلے منگنی، پھر نکاح، پھر چوتھی، غرضیکہ ابتداء سے انتہاء تک سبھی پروگراموں کو مثالی، تقابلی، آئڈیل بنانے کی غیر ضروری کوشش کرنا۔
( *4* ) نکاح کی محفلوں کو وی آئی پی سیاسی شخصیات کی شمولیت سے ممتاز اور یادگار بنانے کی جدوجہد کرنا۔ 
( *5* ) نکاح خواں کی حیثیت سے مشہور عالم دین کی تلاش حتی کہ بعض اوقات دوسرے شہروں سے مدعو کر شرکت کو یقینی بنانا تاکہ محفل نکاح کو روحانی استمرار و دوام بخشا جا سکے۔
( *6* ) لڑکے والوں کو برتر اور لڑکی والوں کو کمتر سمجھنا۔
( *7* ) کبھی برملا تو کبھی چھپے لفظوں میں، کبھی خاموشی سے تو کبھی نکاحوں میں مستعمل عام لفظ کہ مجھے صرف لڑکی چاہیے اور کچھ نہیں کہتے کہتے سبھی کچھ لینے کے لیے تیار رہنا۔
( *8* ) نکاح جیسی عظیم عبادت و سنت رسولﷺ کو سرمایہ کاری سے جوڑ کر پرانے ریکارڈ کے پیش نظر کبھی کمی اور کبھی زیادتی کے ساتھ لفافوں اور نذرانوں کو نام لکھوا کر رجسٹر میں اندراج کروانا۔
( *9* ) کبھی سماج، کبھی گھر، کبھی نئے رشتہ داروں کے اخلاقی دباؤ کہ زمانہ کیا کہے گا جیسے  گمان کے ڈر سے کبھی حیثیت میں رہتے ہوئے اور کبھی حیثیت سے زیادہ لوگوں سے قرضہ لینے کی ہمت جٹاتے ہوئے شرمندگی بالائے طاق رکھکر نکاح جیسی عظیم سنت کی پامالی اور سماج میں بری مثال قائم کرنے میں تعاون پیش کرنا۔ 
( *10* ) سب سے بڑھ کر تمام تر کوششوں کو سرانجام دینے کے بعد کمی رہ جانے کی ندامت کا احساس اور شرکاء محفل سے معذرت خواہی کی عرضداشت۔

*نکاح کو آسان ترین بنانے والے عوامل*
نکاح کو عوامی و سماجی تقریب سمجھے جانے سے قطع نظر نصف ایمان (مَن تَزَوَّجَ فَقَداستکَمَل نصفَ الایمان) کی وضاحت اور عبادت میں شمولیت کر شرعی پہلوؤں کو اجاگر کیا جائے۔
خفیہ و اعلانیہ ہر قسم کے جہیز بنام ہدیہ دینے لینے، تقریبِ نکاح میں شرکت بنام صلہ رحمی سمجھنے، عدمِ شرکت کو باعثِ ناراضگی قرار دینے، وی آئی پی موومنٹ اور خصوصی نکاح خواہوں کی تلاش و جستجو پر غیر ضروری اصرار کرنے کے علاوہ کم اخراجات و کم مشقت پر مشتمل تقریبات کا انعقاد کر آسانیاں پیدا کرتے ہوئے اعظم النکاح برکۃ ایسر مؤنۃ حدیث رسولﷺ کا مصداق بننے بنانے پر عوامی و سماجی تشہیر و تبلیغ کرنا وغیرہ۔

*نکاح اور رفاہی سرمایہ داری*
مشاہدات پر مبنی تجزیہ اس بات پر شاہد ہے کہ شادی بیاہ کی تقریبات میں خیر خواہوں کی رفاہی امداد اور غیر ضروری مالی تعاون بعض اوقات صدقات واجبہ و نافلہ کے اشتراک سے خط افلاس سے متاثر خاندانوں کی شادیوں کی تقریبات میں بھی غیر معمولی رسومات میں اضافہ دیکھنے کو ملا ہے،
نکاح جیسے اہم سنت رسول ﷺ اور بقاء انسانیت کے حامل تقریبِ نکاح میں مشقت و دشواریوں کا سامنا، ابتلاء عام و خاص کہیں نہ کہیں مسلم معاشرے کے لئے غور و فکر اور سوچنے کا مقام ہے،

*تقریب نکاح اور سماجی مجبوریاں،*
سماج میں لوگوں کو کہتے ہوئے اکثر یہ سنا گیا کہ لڑکی کا مسئلہ ہے اگر لین دین نہیں کریں گے تو زندگی بھر ہماری لڑکی کو طعنے سننے پڑیں گے،
سوال یہ ہے کہ نکاح جیسی با برکت سنت، بے پناہ قرآنی و نبوی تعلیمات، اور ہمارے مسلم معاشرے کی یہ سوچ کہیں نہ کہیں باشعور ذمہ دار افراد کی ذمہ داریوں پر سوالیہ نشان ضرور لگاتی ہے،
"کلکم راعی وکلکم مسؤل عن رعیۃ" کے تحت ہر شخص کو وقت رہتے سماجی برائیوں کی بیخ کنی کرنی ہوگی، بصورت دیگر انفرادی عبادت و ریاضت کے متاثر و مشکوک ہونے کے امکانات ہیں۔

*موجودہ دور کی شادیاں اور اس کے مضر اثرات*
دور حاضر میں مسلم سماج اور خاندانوں کی مشقت اور مالی اخراجات سے لبریز مشکل ترین شادیاں اور اس کے مضر اثرات شدید فکر  اور فوری توجہ کی متقاضی ہیں،
ملک کی قانونی و شرعی عدالتوں میں شادیوں کے نزاعی واقعات کی کثرت،
نوجوان لڑکوں و لڑکیوں کی بے راہ روی،
بعض خواتین کا اپنے بوڑھے والدین کی فکروں کی تاب نہ لا کر خودکشی کے واقعات،
پڑھی لکھی بچیوں کا رشتوں میں مشکلات و دشواریوں کے باعث ارتدادی اقدامات،
پورے ملک میں موضوع بحث بلکہ ہندوستان کی سب سے بڑی پنچایت پارلیمنٹ میں نکاح و طلاق کے مسائل پر گزشتہ دنوں بحثیں،
مادیت پرستی کی بنیاد پر ہونے والے نکاحوں کی شرح ناکامی،
غرضیکہ تمام تر سماجی برائیوں کی جڑ نکاح کو مشکل ترین اور بیجا مشقت سے چھٹکارا دلاتے ہوئے آسان بنانا ہے۔
*نکاح اور تبلیغ دین*
نکاح کو عوامی و سماجی طور پر آسان سے آسان تر عملی نمونہ اور مثالی بنا کر پیش کرنے سے ہندوستانی برادران وطن کو نہ صرف متاثر کیا جا سکتا ہے بلکہ یہی مسلم معاشرے کے مثالی اور آسان نکاح اپنے لئے ذریعہ نجات اور برادران وطن کے لئے داخل اسلام ہونے کا ذریعہ بھی بن سکتے ہیں،
برادران وطن اس سماجی برائی سے کہیں زیادہ پریشان سکون و عافیت کے متلاشی ہیں، مسلم معاشرہ کی اس سمت تھوڑی سی فکر دنیا والوں کے لیے مشعل راہ بن سکتی ہے، 
تبلیغ دین انفرادی شخصیت سازی سے کہیں زیادہ سماجی اور اجتماعی اصلاحات کی متقاضی ہوا کرتی ہے۔
*سد باب، سفارشات*
نکاح جیسے عظیم ترین رشتہ کی قدر دانی، سنت رسولﷺ کی پاسداری، سماجی برائیوں کا قلع قمع وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔
( *1* ) نکاح میں تمام تر غیر ضروری اخراجات و انتظامات، انواع و اقسام کی خورد و نوش، تزئین کاری کو سراہنے کے بجائے شرعی تعلیمات کے پیش نظر کم از کم نہ روکنے اور نہ ٹوکنے کی صورت میں دل سے برا اور معیوب ضرور سمجھا جائے۔
( *2* ) نکاح خوانی کی تقریبات کو ممکنات کی حد تک مسجدوں میں منعقد کیا جائے۔
( *3* ) لوگوں کو بیدار کر باشعور عوام کی عزت کو للکارتے ہوئے قوم کی دوشیزاؤں کی خودکشی اور بڑھتے ہوئے ارتداد کے واقعات کو نکاح کی دشواریوں کا نتیجہ بتاتے ہوئے عزت نفس مجروح ہونے کا حوالہ دیا جائے۔
( *4* ) شرعی نقصان اور گناہ کے علاوہ سماجی طور پر فوری نقصانات، ذلت و رسوائی اور خود اپنے ذریعہ پیدا کی گئیں غلطیوں و مصیبتوں کی نشاندہی کر عوامی طور پر توجہ مرکوز کرنے کی مہم تیز کی جائے۔
( *5* ) شریعت کے اصول کہ جب مباح عمل سے عمومی برائیوں کا ارتکاب اور غلط روایت قائم ہونے لگے اور سماج و معاشرے میں غلط اثرات مرتب ہونے لگیں تو ایسی صورتحال میں عمل مباح کے ارتکاب کے بجائے ترک مباح کو ترجیح دیا جانا بہتر ہے یہاں تک کہ حالات معمول پر آجائیں۔
( *6* ) ملک ہندوستان کی کوئی بھی ایک دعوتی تنظیم اور اس کے ممبران و پیروکار  صرف بذات خود اپنے اور اپنے سے منسلک افراد کی ذمہ داری لے لیں تو یقین مانیں سماج میں پنپنے والی نکاح سے متعلق تمام تر برائیوں کا نہ صرف تدارک بلکہ  بوڑھے والدین کی فکروں کا خاتمہ، نوجوان بچیوں کی خودکشی اور ارتداد کے واقعات پر روک تھام پورے طور پر انشاءاللہ ممکن ہو سکے گی۔
شکریہ
مورخہ 26-4-2022 بروز منگل
 *abdulhaleemeumc@gmail.com*
 *WatsApp 9307219807*