Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Friday, April 29, 2022

پاکستان میں نئی حکومت___


مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ. 
                      صدائے وقت 
================================
پاکستان میں یہ پہلا موقع ہے کہ عدم اعتماد کی تحریک لاکر عمران خان کی حکومت بے دخل ہوئی ہے،گووہاں کی اب تک کی تاریخ یہی بتاتی ہے کہ کسی وزیر اعظم نے اپنی حکومت کے پانچ سال پورے نہیں کیے،البتہ اس بار ڈرامہ کچھ زیادہ ہی ہوا،عمران خان نے عدم اعتماد تحریک کاسامنا کرنے سے انکارکردیا،پارلیامنٹ کے ڈپٹی اسپیکرقاسم سوری اورملک کے صدر عارف علوی نے ان کاساتھ دیا،پارلیامنٹ تحلیل ہوگئی،عمران خان نے نئے انتخاب کا اعلان کیا،حزب مخالف سپریم کورٹ پہونچے،سپریم کورٹ کی پانچ رکنی بنچ نے جس کی سربراہی چیف جسٹس عمرعطابندیالی کررہے تھے قومی اسمبلی بحال کردی،اورعدم اعتماد کی تحریک پرووٹنگ کرنے کو کہا،پارلیامنٹ میں بحث چلی،عمران خان کی انصاف پارٹی کے ممبران نے بائیکاٹ کیا،اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکرکے استعفیٰ کے بعد نئے اسپیکر نے رات بارہ بجے ووٹنگ کرائی اورایک سو چوہتر(۴۷۱) ممبران کی معمولی اکثریت سے عمران خان کی حکومت گرگئی،معمولی اس لیے کہ اکثریت کے لیے ایک سو بہتر(۲۷۱) ووٹ چاہیے تھے صرف دو دووٹ زائد آئے،نواز شریف کے بھائی شہباز شریف حزب مخالف کی طرف سے وزیر اعظم کے امید وار بنے اورانہیں جمعیت علماء پاکستان،پوپلس پارٹی مریم شریف وغیرہ کی حمایت حاصل تھی،ایسے میں وہ پاکستان کے تئیسویں وزیر اعظم بلامقابلہ منتخب ہوئے،صدرمملکت حلف برداری کے لیے نہیں پہونچے،رسمی طور پر بیمار ہوگئے تومعمول سے ہٹ کرسینٹ کے چیئرمین نے حلف دلایا اوروہ اب پاکستان کے وزیر اعظم ہیں،عمران خان کی انصاف پارٹی کے سارے ارکان پارلیمان نے استعفیٰ دے دیا،اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سب کچھ بخیر نہیں ہے۔
عمران خان کے اس عمل سے پاکستان کی جمہوریت کمزور ہوئی ہے اورسامراجی طاقتوں کادبدبہ پاکستان پر بڑھاہے،عمران خان یہی تو کہہ رہے تھے کہ ہماری حکومت گرانے میں غیر ملکی طاقتوں کاہاتھ ہے،ان کا اشارہ امریکہ کی طرف تھا اوریہ کچھ غلط بھی نہیں ہے،علاقہ میں پاکستان امریکہ کا حلیف رہا ہے،اسے چین کوکنٹرول کرنے کے لیے پاکستان کی ضرورت ہمیشہ رہی ہے،ادھر چین سے دوستی بڑھانا پاکستان کی مجبوری بن گئی اورعمران خان نے امریکہ کی داداگیری کے اثرات کو پاکستان میں کم کرنے کا بیڑا اٹھایا،انہوں نے اسلاموفوبیا کے خلاف بھی آواز اٹھائی،پاکستان کی خارجہ پالیسی بہتر ہوئی اور اس کی وجہ سے ا س کے وقار میں اضافہ ہوا۔
دوسری طرف اندرونی پالیسی میں عمران خان کچھ زیادہ نہیں کرسکے،جوامیدیں عوام نے وابستہ کی تھیں،وہ اس پر پورے اتر سکے،ملک معاشی طور پر کمزور ہوتا چلاگیا؛اس لیے حزب مخالف کوموقع ملا اوروہ عدم اعتماد کی تحریک لانے میں کامیاب ہوگئے۔
ایسے میں عمران خان کوعدم اعتماد کی تحریک کاسامنا کرنا چاہئے تھا یااستعفا دے دینا چاہیے تھا،عمران خان نے ایساکچھ نہیں کیا،ایک نیاداؤ کھیلا جس سے ملک کی پارلیامنٹ کوکبھی سامنا نہیں کرنا پڑاتھا،ا س طرح عمران خان خودہی ذلیل ہوکر ایوان اقتدار سے باہر ہوئے،اگر وہ اکثریت کھودینے کی وجہ سے اقلیت میں آگئے تھے توانہیں استعفادے دینا چاہیے تھا،جیساکہ صرف ایک ووٹ کم ہونے پر اٹل بہاری باجپئی نے استعفادیدیاتھا،اگروہ ایساکرلیتے تو ملک میں جمہوریت کے تقاضوں کی تکمیل ہوتی اورمضبوطی آتی۔
اس پورے قضیہ میں پاکستانی فوج کا رویہ تاریخ کے برعکس رہاہے،ایسے موقع سے پاکستان میں فوج حکومت پر قابض ہوتی رہی ہے،پاکستان میں مارشل لاکی تاریخ طویل بھی ہے اورقدیم بھی،لیکن اس بار فوج نے اب تک اس سیاسی قضیہ سے خود کو الگ رکھا اورکوئی دخل اندازی نہیں کی،اس کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ فوج میں اس مسئلہ پر اختلاف رہا ہو،خود فوجی سربراہ باجواعمران خان کے قریب رہے ہیں اورانہوں نے ملاقات کرکے باربار اس قضیے کوحل کرنے کی کوشش کی۔لیکن اس واقعہ کے بعد ایسا بھی نہیں ہے کہ عمران خان کی حکومت میں دوبارہ واپسی نہیں ہوپائے،پاکستان میں نواز شریف اوربے نظیر بھٹو کی واپسی حکومت میں ہوچکی ہے،اگلے انتخاب میں عمران خان کے لیے موقع ہوسکتا ہے۔
پاکستان ہماراپڑوسی ملک ہے،وہاں کی سیاست کے نشیب وفراز پر ہماری نگاہ ضروری ہے،ہمارے وزیر اعظم نے شہباز شریف کو مبارکباددے دی ہے اوراچھے تعلقات کی امید ظاہر کی ہے،لیکن یہ بس رسمی جملہ ہے،شہباز شریف نے آتے ہی کشمیر مسئلہ کی بات کہی ہے اورکشمیر مسئلہ کے ساتھ دونوں ملکوں میں اچھے تعلقات کس طرح رہ سکتے ہیں؟ماضی میں دوجنگیں ہندوپاک اس مسئلہ پر لڑ چکاہے،اس لیے ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا،شہباز شریف تین بار پنجاب کے وزیراعلیٰ رہ چکے ہیں،ان کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ  سیاسی قائد سے زیادہ اچھے منتظم ہیں،اچھے منتظم کاتقاضہ ہے کہ وہ ہندوستان سے تعلقات استوار رکھیں،امریکہ اورچین سے دوستی میں اعتدال کوراہ دیں اورافغانستان میں طالبان کواپنے من کی حکومت کرنے دیں،کیوں کہ افغانستان میں پاکستان کی دخل اندازی سے خطہ میں ماحول سازگارنہیں رہ پائے گااورایسے میں ہندوستان کی تشویش بجا ہوگی۔