Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Wednesday, May 4, 2022

*شوال کے 6 روزوں کی دل موہ لینے والی فضیلت و عظمت*



از : شفیع احمد عفی عنہ خادم التدريس جامعہ ابن عباس احمد آباد گجرات
                           صدائے وقت 
==================================
شوال قمری سال کا دسواں مہینہ ہے، اس کی پہلی تاریخ عید الفطر کے دن کو یوم الرحمۃ بھی کہاجاتاہے، اسلئے کہ اس دن رحمان کی طرف سے پورے عالم پر رحمت کی برسات ہوتی ہے، اور پوری ملت اسلامیہ اس دن خوشی ومسرت سے جھوم رہی ہوتی ہے،شریعت مطہرہ میں اس مہینہ میں چھ روزے رکھنے کی بڑی فضیلت آئی ہے، چنانچہ عید الفطر کا دن چھوڑ کر اس مہینہ میں چھ روزے رکھنا مستحب و مسنون ہے، (در مختار مع الشامی ص ٣٧٥) حدیث شریف میں آتا ہے، من صام رمضان ثم اتبعہ ستا من شوال کان کصیام الدھر،، (مسلم شریف /ص ٣٦٩) (أبو داؤود شریف ص ٣٣٠) 

ترجمہ، جس نے رمضان کے روزے رکھے ، اور اس کے بعد شوال کے چھ روزے رکھے، تو یہ ہمیشہ (پورے سال) کے روزے شمار ہونگے،،

گویا اسے پورے سال روزہ رکھنے کا ثواب ملیگا، اس حدیث کی وضاحت کرتے ہوئے شارح مسلم علامہ محی الدین نووی (رحمۃاللہ علیہ) فرماتے ہیں، قال العلماء وإنما کان کصیام الدھر لان الحسنۃ بعشر أمثالها فرمضان بعشرۃ اشھر والستۃ بشھرین الخ (مسلم شریف/ص ٣٦٩) 
ترجمہ؛ علماء فرماتے ہیں، یہ پورے سال روزہ رکھنے کی طرح ہے، 

وجہ اس کی یہ ہے کہ قرآنی وعدہ،، من جاء بالحسنۃ ،، کے مطابق ہر نیکی کا بدلہ کم از کم دس گنا ملتا ہے، تو ماہ مبارک کے روزے دس مہینے کے روزوں کے برابر ہوئے، اور شوال کے 6 روزے دوماہ کے روزوں کے برابر، اس طرح رمضان کے ساتھ شوال کے 6 روزے رکھنے والا پورے سال روزہ رکھنے والا شمار ہوگا،

 اس کی دوسری اور بڑی فضیلت یہ ہے کہ شوال کے ان چھ روزوں کا ثواب رمضان کے فرض روزوں کے برابر ملتا ہے، چنانچہ امام ترمذی ( رحمۃاللہ علیہ) نے حضرت عبد اللہ بن المبارک رحمۃاللہ علیہ کا قول نقل کیا ہے، قال، ویروی فی بعض الحدیث، ویلحق ھذا الصیام برمضان، ترمذی شریف / ١٥٩ 

ترجمہ، بعض روایت میں منقول ہے، کہ ان روزوں کو رمضان کے روزوں کے ساتھ ملحق کیا جاتا ہے، 
حضرت ملا علی قاری کی دو حدیثوں کے درمیان فرق بیان کرنے سے اسی کی تائید وتوثيق ہوتی ہے، ملاحظہ فرمائیں، 

ثم الفرق بین ھذا وبین الحديث السابق ان رمضان محسوب فی ھذا الحدیث بخلاف الأول، فتامل، مرقات المفاتيح ج ٤/ص ٥٤٤ ، پھر اس حدیث اور سابق حدیث کے درمیان فرق یہ ہے کہ اس حدیث میں رمضان محسوب ہوگا، بخلاف پہلی حدیث کے،،

 تفصیل اس کی یہ ہے کہ صاحب مشکوۃ نے اس حدیث شریف سے قبل ایک حدیث بیان کی ہے، کہ اللہ کے پاک رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہر مہینہ کے تین دن روزہ رکھتے تھے، اور قرآنی وعدہ کے مطابق ہر نیکی کا ثواب کم از کم دس گنا بڑھا دیا جاتا ہے، اس طرح تین کو دس سے ضرب دیں، تو تیس ہوتے ہیں، تو گویا ہر مہینہ کے تین دن کا روزہ پورے سال نفل روزے کے برابر ثواب ہوگا، 

اور اسی ضابطہ قرآنی کے مطابق رمضان سمیت شوال کے 6 روزے رکھنے سے پورے سال فرض روزہ رکھنے کے برابر ثواب ہوگا، اور ملا علی القاری کی آنے والی یہ عبارت،، اللھم إلا أن یقال کصیام الدھر فرضاً علی ماقالہ ابن حجر،. ( مرقات حوالہ بالا) اسی امر کی طرف اشارہ کرتی ہے، سبحان اللہ رمضان کے روزوں کی فضیلت کا کیا پوچھنا، اگر شوال کے ان روزوں کا ثواب وبدلہ رمضان کے بابرکت مہینہ کے روزوں کے برابر دیا جاتا ہے، تو ہمیں اس فضیلت کے حصول کیلئے دعا کرنی چاہیے، اور اس کیلئے کوشش وسعی بھی،

شوال کے چھ روزے رکھنے کا طریقہ یہ ہے کہ عید الفطر کا دن چھوڑ کر پورے مہینے میں کبھی بھی رکھا جاسکتا ہے، خواہ وقفہ وقفہ سے خواہ مسلسل، البتہ اگر کوئی ان روزوں کو نہیں رکھتا ہے، تو اس پر طعن و تشنیع کرنے کا کوئی جواز نہیں، اسلئے کہ یہ روزہ مستحب ہے، اگر کوئی بندۂ خدا رکھتا ہے، تو وہ مستحق ثواب ہوگا، اور اگر نہیں  رکھتا ہے، تو اس پر کوئی گناہ والزام نہیں،
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس فضیلت کے حصول کی توفیق مرحمت فرمائے