Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, May 1, 2022

بات مروجہ افطار پارٹیوں کی...


از /رشید سمیع سلفی/ صدائے وقت. 
==================================
رمضان جیسے جیسے اختتام کی طرف بڑھ رہا ہوتا ہے افطار پارٹیوں کا سلسلہ بھی زور پکڑنے لگتا ہے،افطار کے دسترخوان کو انواع واقسام کی نعمتوں سے سجانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی جاتی،سوشل میڈیا پر اپلوڈ کی گئی تصویریں آنکھوں کو خیرہ کردیتی ہیں،پرتکلف دعوتوں اور ضیافتوں کی شکل میں ان تقریبات کی عوام الناس میں بڑی دھوم ہے،افطار پارٹی بعض لوگوں کے سٹیٹس کا حصہ بھی ہوتی ہے جسکا اہتمام کرنا ان کے سماجی رسوخ کا تقاضا ہوتا ہے،ڈھونڈھ ڈھونڈھ کر کھانے پینے کی نوادرات بہم پہونچائی جاتی ہیں،چند لمحوں کیلئے لذت کام و دہن کا خوبصورت دور چلتا ہے،ماناکہ افطار کرانا عمل ثواب اور کارخیر ہے لیکن دین کے دیگر اعمال کی طرح اس کابھی ایک دائرہ اور دینی فلسفہ ہے جسکا خیال رکھنا از حد ضروری ہے،دین کاہر عمل شریعت اسلامیہ میں  ایک مخصوص طریقہ کار اور مقصد سے ہم آہنگ ہے،ہم کسی بھی شرعی عمل کو اپنی مصلحتوں اور مفادات  کے تابع نہی
 کرسکتے،افطار وروزہ کامعاملہ بھی اسی طرح ہے۔
 لیکن آج کی افطار پارٹیاں دینی پس منظر سے ہٹ کر سیاسی اور سماجی رکھ رکھاؤ اور ریا ونمود کے طور پر انجام دی جاتی ہیں،یہ امیروں کی ترجیحات میں شامل ہوتی ہے۔
روزے اور افطار کے نام پر کی جانے والی یہ دعوتیں نہ صرف دینی روح سے یکسر خالی ہوتی ہیں بلکہ دور دور تک دین سے ان کا کوئی تعلق بھی نظرنہیں آتا۔دعوت دینے والے بھی اپنے کسی مفاد یا دنیوی جذبے کے پیش نظر ایک لمبی پارٹی رکھتے ہیں اور بالخصوص انھیں لوگوں کو مدعو کیا جاتا ہے جن سے اپنا مفاد وابستہ ہوتا ہےیا پھرلوگوں کا منھ بند کرنے کیلئے کچھ غریبوں کو بھی مدعو کرلیا جاتا ہے۔
اگر گزشتہ ادوار کا جائزہ لیا جائے تو افطار پارٹی سیاسی گلیاروں سے ہی نکل کر ہمارے گھروں تک پہونچی ہے۔سیکولر روایات کو پروان چڑھانے اور اپنے ووٹ بینک کیلئے سیاسی طالع آزماؤں کو اسلام کی سنت افطار بڑا زرخیز نظر آتاہے،لہذا اسکے دینی پس منظر سے قطع نظر دوسری دعوتوں اور ضیافتوں کی طرح اسے بھی شروع کردیا گیااور پھر کیا تھا رفتہ رفتہ یہ سلسلہ چل پڑا اور اب ہر کوئی اپنے دنیادارانہ اور تاجرانہ مقاصد کیلئے اپنے سماجی اثرورسوخ کوبڑھانے کیلئے بڑی بڑی مسلم وغیرمسلم  شخصیتوں سے ملاقات کا موقع پیدا کرنے کیلئے نیز کچھ نہیں تو اپنا قد اونچا کرنے کیلئے افطار پارٹیوں کا اہتمام کرنے لگا ہے۔

میں ان مخلصین ومخیرین کو مستثنی رکھتا ہوں جوغرباءومساکین کے لئے اپنی بساط بھر مخلصانہ طور پر افطار کا اہتمام کرتے ہیں،جہاں سادگی ہوتی ہے،خلوص ہوتا ہے،کیمرے اور ویڈیو کا گذر نہیں ہوتا ہے، میری مراد مروجہ نام نہاد افطار پارٹیوں سے ہے۔
افطار پارٹیاں اور ان تقریبات کے مدعوئین صرف مسلمان نہیں بلکہ کثیر تعداد میں غیر مسلم بھی ہوتے ہیں۔چنانچہ علاقے کے وہ چھوٹے بڑے مسلم وغیرمسلم نیتا بھی یہ دعوت کرتے رہتے ہیں جنکانہ دیں سے کوئی تعلق ہے اور نہ ہی غربا ومساکین کی کوئی فکر ہے۔آپ آگے بڑھ کے دیکھیں تو علاقے کی متعلقہ پولیس ڈپارٹمنٹ بھی افطار پارٹیاں رکھنے لگی ہے۔سننے میں تو یہ بھی آیا ہے کہ آرایس ایس بھی کسی کسی علاقے میں افطار پارٹی رکھتی ہے۔یہ دعوت جہاں بھی ہو جیسی بھی ہو اس مجلس کی زینت اچھے خاصے سیاسی  وسماجی اور دینی  شخصیات کو بنا یا جاتا ہے۔سچ کہوں تو افطار پارٹی اب ایک ایسا فیشن بن چکی ہے کہ ہر صاحب استطاعت دوسروں کی دیکھا دیکھی اسے اپنی بساط کی حدتک انجام دینے کے کوشش کرتا ہے کہ کہیں وہ دوسروں سے پیچھے نہ رہ جائیں ۔مسجدوں میں ٹرسٹیان بھی افطار پارٹیاں رکھا کرتے ہیں اور ایک زمانے سے یہ سلسلہ چلاآ رہا ہے جسکا لوگوں کو شدت سے انتظاربھی رہتا ہے۔خواہ اس کے لئے چندہ ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔ ہم ان افطار پارٹیوں کو یکسر خلاف شرع یا ناجائز تو نہیں کہہ سکتے۔البتہ افطار کے ساتھ پارٹی کا لفظ ہمیں اسکے شجرہ نسب کی طرف غمازی کردیتا ہے۔ یہاں بھی مسلمان دانستہ نادانستہ طور پرمغربی کلچر کا شکار ہوا ہے کیونکہ مختلف مناسبات سے چند لوگوں کو پارٹی کے نام پر جمع کرنا اور کھانے پینے اور دیگر چیزوں سے لطف اندوز ہونا اور انجوائے کرنا یہ مغرب کا کلچر ہے جسکا جادو ہمارے بھی سرچڑھ کر بول رہا ہے ۔سوچئے روزہ اور افطار کے مقدس ترین عمل میں یہ خارجی آمیزش نہیں تو اور کیا ہے؟

بے شک ایک شخص کو روزہ افطار کرانا ایک روزہ کا ثواب حاصل کرنے کے مترادف ہے ایسا حدیث رسول ہمیں بتاتی ہے۔لیکن ساتھ ہی ہمیں یہ بھی تعلیم دی گئی ہے کہ ریا ونمود عمل کو اکارت کردیتے ہیں۔لہذا افطار کو سیاسی یا دنیاوی مقصد کے تحت رچانا یا فیشن کے طور پر کرنا یافخرومباہات کی چیز بنانایہ سب ایک دینی عمل کی حقیقی تصویر کو مسخ کرنا ہے اور روزہ وافطار جیسی عبادت کا استحصال ہے جو کسی بھی طرح جائز نہیں ہوسکتا ۔آج امت کا المیہ یہی ہے کہ دیں کی عبادتوں کو لوگ اپنی خواہشات کے تابع کرنے لگے ہیں،  دین کی تعلیمات کو سنت وسلف کے طریقے پر انجام دینے کے بجائے اپنے مفادات کے بھینٹ چڑھانے لگے ہیں۔خاکسار کا خیال ہے کہ افطار کا اہتمام صرف اللہ کی خوشنودی کے لئے کیا جانا چاہیے اور خصوصاً اس معاملے میں دنیاوی فائدے کے بجائے اُخروی اجر کو فوقیت دینی چاہیے۔ مزید یہ کہ دیگر کاروباری ملاقاتوں اور سیاسی اغراض ومقاصد کواگر اس معاملے سے الگ رکھا جائے تو زیادہ بہتر ہے۔ بہر کیف نیّتوں کا حال تو اللہ ہی جانتا ہے سو ہر شخص کو چاہیے کہ وہ اس معاملے میں خود احتسابی سے کام لے کہ اچھائی اور برائی کی تمیز اُسے ودیعت کر دی گئی ہے ۔ یوں بھی انسان ذاتی حیثیت میں ہی اللہ کو جواب دہ ہوگا۔