Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, June 2, 2022

یوپی کے یوگی___

کم از کم جینے اور زندگی گزارنے کی منصوبہ بندی تو ایسی کرلیں کہ نئی نسلوں کے ایمان کی حفاظت ہو سکے
از /  مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ. 
                        صدائے وقت 
=================================
یوپی کی یوگی حکومت مرکزکی مودی حکومت سے مسلم مخالف فیصلے لینے اور کرنے میں آگے بڑھنا چاہتی ہے، تاکہ وہ فرقہ پرست تنظیموں اور آر ایس ایس کی منظور نظر بن جائے، اور ریاست سے مرکز تک پہونچنے کا خواب حقیقت کا روپ دھارن کر سکے، اس کے لیے پہلا فرمان اپنے پہلے دور حکومت میں مدارس اسلامیہ کے لیے یوگی جی نے جاری کیا کہ مدارس والے اپنی معلومات ویب پورٹل پر اپ لوڈ کریں، مدارس کے ذمہ داران بھی اپنے طرز پر جینے کے عادی ہیں، اس لیے اپ لوڈ کرنے کی تاریخ میں توسیع کے با وجود اس کام کو کرکے نہیں دیا ۔
اتر پردیش میں حکومت سے منظور شدہ مدارس کی تعداد ۱۹۱۴۳ہے، حکومت سے امداد صرف پانچ سو ساٹھ مدارس کو ملتی ہے، ڈاٹا اپ لوڈ کرنے کا حکم منظور شدہ سبھی مدارس کے لیے تھا ، ۱۶۴۶۱ مدارس نے ہی اس حکم کو تسلیم کیا ، ۲۶۸۲ مدارس کی تفصیلات اپ لوڈ نہیں ہوئیں، جن میں عالیہ سطح کے ۸۳۶ غیر امدادیافتہ مدارس بھی شامل ہیں، جب کہ عالیہ سطح کے منظور شدہ مدارس کی تعداد وہاں ۴۵۳۶ ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ صرف ۳۷۰۰ نے ہی ان میں سے ڈاٹا آن لائن اپ لوڈ کیا ہے۔ خبر ہے کہ وزیر تعلیم نے ایک بار پھر ڈاٹا فراہم کرنے کی تاریخ میں توسیع کر دی ہے اور کہا ہے کہ مدارس کو سہولیات فراہم کرنے کے لیے حکومت کے پاس تفصیلات کا ہونا ضروری ہے ، اس کا مطلب ہے کہ حکومت کی نیت صاف ہے ، اللہ کرے ایسا ہی ہو۔ہمیں تو کچھ دال میں کالا ہی نظر آتا ہے ، اور اس کو تقویت اس فرمان سے ملتی ہے جس میں مدارس کو حب الوطنی کے ثبوت کے طور پر ۲۶؍ جنوری اور ۱۵؍ اگست کے پروگرام کی دیڈیو گرافی کرکے بھیجنے کو کہا گیا تھا۔اپنی نئی پاری میں یوگی جی نے نئے مدارس کو منظور ی دینے سے صاف انکار کر دیا ہے، اب کسی نئے مدرسہ کا الحاق نہیں ہوگا، اور نہ تنخواہ دی جائے گی۔
 مدارس والوں کو پریشان کرنے کے لیے یوگی حکومت نے ایک دوسرا فرمان یہ جاری کیا ہے کہ مدارس اسلامیہ میں بھی دوسرے مذاہب کے تہواروں کے موقع سے چھٹی دی جائے گی، اس کے لیے مدارس کی معمولات والی تعطیلات میں کٹوتی کرکے نئے سال کے لیے فرصت کی فہرست سازی کی گئی ہے،  اور ۹۲ سے گھٹا کر ۸۶ کر دیا گیا ہے، اس کی وجہ سے رمضان ، عید، بقرعید کی چھٹیاں کم ہو گئی ہیں اور درگا پوجا، دیوالی، ہولی پر مدارس بند رکھنے کا فرمان جاری کیا گیا ہے، ایسا کسی دوسری ریاست میں نہیں ہے، یوگی حکومت کی مسلم مخالفت کا یہی حال رہا تو ممکن ہے آسام کی طرح جمعہ کی چھٹی منسوخ کرکے اتوار کو تعطیل کا دن نہ قرار دے دیا جائے، حالاں کہ اتوار بھی ہندو تو کے لیے کوئی ’’شبھ‘‘ دن تو ہے نہیں، اس فرمان پر مدارس والوں نے احتجاج درج کرایا تو اعلان آیا ہے کہ چھٹیاں کم نہیں کی گئی ہیں، بڑھا دی گئی ہیں، لیکن اس بڑھانے کے نتیجے میں تعلیم وتدریس کے ایام مزید کم ہوجائیں گے ، اور طلبہ کا سخت تعلیمی نقصان ہوگا، جو پہلے ہی اساتذہ کے غیر تدریسی کاموں میں مشغول ہو نے کی وجہ سے نصابی تعلیم کی تکمیل میں رکاوٹ کا سبب رہا ہے۔ 
تیسرا فرمان عدالت کے حکم کی روشنی میں مذہبی مقامات پر لاؤڈ اسپیکرسے متعلق آیا ہزاروں مسجدوں سے لاؤڈ اسپیکر کے ذریعہ آواز کی ترسیل کے چونگے اتار لیے گیے ہے اس فرمان کا اثر دوسرے مذاہب پر تو ہونے سے رہا ، وہ مثل مشہور ہے کہ ’’سیاں بھئے کوتوال اب ڈرکاہے کا‘‘ ان کے لیے تو یہی معاملہ ہوگا، رہ گیے مسلمان تو اس حکم کا اطلاق اس سختی سے مسلمانوں پر ہوگا، کہ مسجد کے منارے مائیک سے خالی ہو جائیں گے اورمحلہ کے لوگ اذان کی آواز سننے کے لیے ترس جائیں گے، دوسری اقلیتوں کو بھی فوری طور پر اس کام کے لیے تگ ودو شروع کرنی چاہیے، تاکہ بعد میں ان کے لیے مسائل نہ کھڑے ہوں، یہ توقع کرنا کہ یوگی جی کا یہ فرمان آخری ہے، بیوقوفوں کی دنیا میں رہنے کے مترادف ہوگا،کیوں کہ خود ان کی اپنی ذہنیت فرقہ واریت کے جراثیم سے تیار ہوئی ہے، دوسرے وہ اپنے آقا کو خوش کرنے کے لیے کوئی بھی حکم دے سکتے ہیں اور چوں کہ وہ بھاری اکثریت سے یوپی کی گدی پر براجمان ہوئے ہیں، اس لیے ان کا فرمان نافذ العمل بھی ہوگا۔اب اتر پردیش کی صور ت حال یہ ہے کہ سڑکوں پر جمعہ اور عیدین کی نمازوں پر بھی پابندی لگی ہوتی ہے ۔
ضرورت مسلمانوں کو تحمل برداشت کے ساتھ حالات سے مقابلہ کرنے کی ہے، وہاں کے علماء اور تنظیم کے ذمہ داروں کو بہت سوچ سمجھ کر منصوبہ بندی کرنی چاہیے، تاکہ مسلمانوں میں جو مایوسی پائی جا رہی ہے اس کو دور کیا جا سکے، اور اس بات کی کوشش کی جائے کہ مسلمانوں کے لیے وہاں عرصۂ حیات تنگ نہ ہو، مسلمانوں نے انتخاب کے موقع سے منصوبہ بندی نہیں کی، اس کی سزا وہ بھگت رہے ہیں، کم از کم جینے اور زندگی گزارنے کی منصوبہ بندی تو ایسی کرلیں کہ نئی نسلوں کے ایمان کی حفاظت ہو سکے، اور وہ پورے مذہبی اقدار کے ساتھ زندگی گذارنے کے لائق رہ سکیں۔