Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, June 5, 2022

عالمی باکسر چیمپئن نکھت زریں،نئی نسل کی مسلم خواتین کیلئے مشعل راہ: الحاج فضل الرحمان


نئی دہلی،5/جون(نمائندہ)/صدائے وقت. 
==================================
:پچھلے کچھ سالوں میں ہندوستانی مسلم خواتین اپنی شاندار صلاحیت کی بنیاد پرجسطرح سے آگے بڑھ کر ملک وقوم کا نام روشن کررہی ہیں،اسکی جتنی بھی ستائش کی جائے کم ہے، یقینی طور پر وہ ہماری بچیوں کیلئے مشعل راہ ہیں،اُنکی ہمیں بھرپور طریقے سے حوصلہ افزائی کر نی چاہئے ہے،تاکہ آنے والی بچیوں کے اند ربھی مزید شوق وذوق بڑھ سکے۔ان خیالات کااظہار معروف سماجی خدمتگار الحاج محمد فضل الرحمان قریشی نے پریس کو جاری اپنے بیا ن میں کیا۔انہوں نے کہاکہ حال ہی میں عالمی چیمپیئن باکسر25سالہ نکھت زرین پانچویں ہندوستانی خاتون مکے باز ہیں جنہوں نے استنبول، ترکی میں ورلڈ چیمپیئنز میں طلائی تمغہ جیتا،اس جیت کیساتھ نکھت زرین نے میری
 کوم،سریتادیوی،جینی آرایل اور لیکھا کے. سی جیسے لیجنڈز کیساتھ ہندوستانی تاریخ میں ایک خاص جگہ بنائی ہے۔ اپنی زندگی میں اُتار چڑھاؤ کے دوران نکھت نے سوامی وویکانند کے مشہور اقتباسات میں سے ایک سے تحریک حاصل کی، جسمیں کہاگیا تھا کہ اگر آپ اپنے آپکوکمزورسمجھتے ہیں، تو آپ کمزور ہوں گے، اگر آپ اپنے آپکو مضبوط سمجھتے ہیں، تو آپ طاقتورہوں گے۔الحاج فضل الرحمان نے مزید کہاکہ باکسنگ ایک جارحانہ کھیل ہے اور اپنی پہچان بنانا اس سے زیادہ مشکل ہے جتنا کوئی سوچ بھی سکتا ہے، زرین کی جیت نے انہیں میری کوم جیسے لوگوں کے سائے سے باہرکر دیا ہے، وہ اس جیت کو اولمپکس میں تاریخ ساز فتح کی جانب ایک قدم کے طورپردیکھتی ہیں جواب تک کسی ہندوستانی نے حاصل نہیں کیا ہے،لہذازرین کو کامیابی کافی جدوجہد کے بعدملی،جسمیں کندھے کی شدید چوٹ بھی شامل ہے جس نے انہیں ایک سال تک میدان سے دوررکھا،البتہ ڈانٹ ڈپٹ سے لیکر عالمی چیمپئن بننے تک نکھت زرین کی کہانی لچک، اعتماد اور اپنے ہونے کے بارے میں ہے، چاہے کوئی بھی پابندی کیوں نہ ہو،مگر انہوں نے جو کا میابی حاصل کی ہے،اس پر جتنا رشک کیا جائے اتنا کم ہے۔
 انہوں نے مزید کہاکہ 2019 کے اعداد وشمارکے مطابق اقلیتی برادری میں مسلم خواتین ہندوستان کی کل آبادی کا تقریباً 6.9 فیصد ہیں، اتنی مخصوص آبادی کے باوجود مسلم خواتین کو اکثر مظلوم اور انپڑھ کے طورپردیکھاجاتاہے،اس سے کوئی انکار بھی نہیں کر سکتاہے۔وہیں پردہ کی بندشوں کو توڑ کر یعنی مکے باز وں کی الگ ڈریس ہوتی ہے اور معاشرہ کی پابندیوں کوبالائے طاق رکھ کر جو مقام حیدرآباد کی اس بچی نے حاصل کیا ہے، اس بچی سے ہماری مستورات کو حوصلہ ملتا ہے کہ کڑی محنت، لگن وجستجو کے بعد سب کچھ حاصل کیاجا سکتا ہے اور دقیانوسی خیالات کوختم کر کے اپنی انفرادیت کو پہچاننے کیلئے خود کو تعلیم سے آراستہ کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے،تاکہ وہ بھی دوسرے سماج کی بچیوں کی طرح نئے زمانے کے ساتھ زندگی گزار سکیں.