Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Tuesday, June 21, 2022

اعظم گڑھ پارلیمانی ضمنی الیکشن...... ایک جائزہ

اسمبلی الیکشن کے دوران مسلم لیڈروں سے سماجوادی کی دوری، مسلم ٹوپی سے پرہیز، کہیں کانگریس کی طرح سماجوادی بھی سافٹ ہندوتوا کیطرف تو نہیں گامزن ہے..
از /ڈاکٹر شرف الدین اعظمی /صدائے وقت 
===============================
السلام وعلیکم.... تین روز سے اپنے کچھ دوستوں کیساتھ اعظم گڑھ پارلیمانی حلقہ کا دورہ جاری تھا. اس درمیان مبارکپور، مینھ نگر ،گوپال پور اور صدر اعظم گڑھ اسمبلی حلقہ کے مختلف علاقوں و گاؤں میں جانا ہوا.. کئی ایک چھوٹے بڑے مختلف سیاسی پارٹیوں کے نیتا ؤں سے بھی ملاقات رہی.. اندازہ یہ ہوا کہ اعظم گڑھ پارلیمانی ضمنی الیکشن میں لڑائی تکونی ہے.
مسلمانوں کی اکثریت نے تقریباً اپنا موڈ گڈو جمالی کے لیے ووٹ کرنے کو بنا لیا ہے.. اس کیوجہ پر بات کی جائے بہت طویل بات ہوگی.. مختصر یہ کہ سماجوادی کے امیدوار اور بی جے پی کے امیدوار باہری ہیں جبکہ گڈو جمالی یعنی بی ایس پی کے امیدوار مقامی ہیں. شہر اعظم گڑھ میں رہتے ہیں. مبارکپور سے دو بار ایم ایل اے رہ چکے ہیں... شبلی پی جی کالج کے منیجر رہ چکے ہیں.. ہمہ وقت عوام کے لیے تیار رہتے ہیں.. بطور خاص لاک ڈاؤن کے دوران ان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں.. آکسیجن کی قلت کے دوران انھوں نے جو کچھ کیا اس سے پورا ضلع مستفید ہوا..
سماجوادی کے امیدوار دھرمیندر یادو کا تعلق ملائم سنگھ یادو کی خاندان سے ہے.. ممبر پارلیمنٹ رہ چکے ہیں مگر اس بار اپنے علاقہ مین پوری سے ایم ایل اے کی سیٹ نہیں جیت سکے،، ملائم سنگھ و اکھیلیش یادو کے بعد اب دھرمیندر یادو کو اعظم گڑھ سے لڑنے بھیجا گیا ہے.. دھرمیندر یادو کا سب سے بڑا منفی پوائنٹ یہی ہے کہ وہ مین پوری سے ہیں حالانکہ اعظم گڑھ کے کئی ایک مقامی لیڈر ان سے اونچے سیاسی قد و قامت کے ہیں جنھیں سماجوادی پارٹی اپنا امیدوار بنا سکتی تھی مگر ایسا نہیں ہوا... واضح ہو کہ ضلع اعظم گڑھ میں دس اسمبلی سیٹ ہیں اور سبھی پر سماجوادی کا قبضہ ہے... سبھی ایم ایل اے اور دیگر اضلاع کے سماجوادی کے لیڈر، ایم ایل اے سب اعظم گڑھ میں ڈیرا جمائے ہوئے ہیں.. اس کے علاوہ مسلم نیتا عباس انصاری، عبداللہ اعظم جیسے نوجوان بھی پرچار میں لگے ہیں اور ایک طرح کا سیاسی گلیمر بنانے کی کوشش ہے... ابو عاصم اعظمی و اعظم خان بھی اعظم گڑھ کا دورہ کر چکے ہیں..سبھی لوگوں کی نگاہ مسلم ووٹرس پر ہے. اس کے باوجود بھی مسلمان سماجوادی پارٹی سے ایک سوال اٹھا رہا ہے کہ مسلمانو کا ووٹ لینے والی پارٹی مسلم مسائلِ پر خاموش کیوں رہتی ہے.. مسلمانوں کے ساتھ اتنی نا انصافیوں کے بعد بھی خاموشی کا کیا مطلب؟
اسمبلی الیکشن کے دوران مسلم لیڈروں سے سماجوادی کی دوری، مسلم ٹوپی سے پرہیز، کہیں کانگریس کی طرح سماجوادی بھی سافٹ ہندوتوا کیطرف تو نہیں گامزن ہے..
سماجوادی پارٹی کے لیے ایک دوسرا منفی پہلو یہ بھی ہے کہ بی جے پی کا امیدوار دینیش یادو عرف نرہوا بھی یادو برادری سے ہے... بھوجپوری فلموں میں ادا کار ہے.. بھوجپوری فلموں کے بہت سے فنکار علاقے میں پرچار کر رہے ہیں. وہ بھی سیاسی و فلمی دونوں طرح کے گلیمر کیساتھ ہیں. بی جے پی کے روایتی ووٹوں کے علاوہ وہ بھی یادو ووٹوں پر سیندھ ماری کی کوشش کر رہے ہیں جس کا اثر پڑنا لازمی ہے. گزشتہ پارلیمانی الیکشن میں نرہوا اکھیلیش یادو کے مقابلہ میں بھی الیکشن لڑچکے ہیں.. اکھیلیش یادو کے قد کے حساب سے جیت کے فرق کو بہت اچھا نہیں کہا جا سکتا.
اس الیکشن کی ہار جیت سے بی جے پی کو کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا مگر سماجوادی و بی ایس پی کا مستقبل داؤ پر ضرور ہے... اعظم گڑھ کا یہ الیکشن 2024 کے جنرل پارلیمانی الیکشن کا پوروانچل میں سمت طے کرے گا.
گھومتے پھرتے، خاک چھانتے ہویے میری ٹیم اس نتیجہ پر پہنچی کہ مسلمانوں کو متحد ہوکر بی ایس پی امیدوار گڈو جمالی کے حق میں خاموشی کے ساتھ ووٹنگ کر دینا چاہیے.
ایک مثبت اور قابل تعریف بات یہ رہی کہ راشٹریہ علماء کونسل اور پیس پارٹی آف انڈیا نے بھی گڈو جمالی کو اپنی حمایت کا اعلان کر دیا ہے... دیگر چھوٹی مسلم قیادت والی پارٹیوں کو بھی اس قدم کی تقلید کرنی چاہیے. 

نوٹ؛؛ تبصرہ نگار نیوز پورٹل صدائے وقت کے چیف ایڈیٹر ہیں.