Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, July 3, 2022

مناسک حج وعمرہ مع چہل احادیث__


از/مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ، پھلواری شریف پٹنہ. 
                          صدائے وقت 
=================================
مناسک حج وعمرہ اور اس سے متعلق آیات واحادیث پر مشتمل کتابیں سینکڑوں کی تعداد میں موجود ہیں، ہر مصنف اور مؤلف نے اپنے اپنے انداز میں کتاب کے خد وخال بنانے اور اس کے مطابق کتاب میں رنگ بھرنے کا کام کیاہے،حج کے مسائل پر جو کتابیں اب تک تصنیف کی گئی ہیں، ان کی تفصیل بیان کروں تو بات لمبی ہوجائے گی ، احادیث وفقہ کی تمام کتابوں میں ’’کتاب الحج‘‘ موجود ہے، ہمارے دور میں جو چند کتابیں رہنمائی کے لئے موجود ہیں، اور مقبول ہیں ان میں مولانا قاری مولانا سعید احمد مظاہری کی ’’معلم الحجاج‘‘، مولانا مرغوب احمد لاجپوری کی ’’تحفۂ حجاج‘‘ ، مولانا رفعت قاسمی کی ’’مکمل ومدلل مسائل حج وعمرہ‘‘، مفتی شبیر احمد قاسمی کی ’’انوار مناسک‘‘، مفتی عبد الحئی قاسمی کی ’’رہبر حج‘‘، حاجی محمود عالم کی ’’رہنمائے حج وزیارت ‘‘اور راقم الحروف (محمد ثناء الہدیٰ قاسمی) کی کتاب ’’عمرہ حج وزیارت ، سفر محبت وعبادت‘‘ وغیرہ کو خاص اہمیت حاصل ہے۔
 اسی سلسۃ الذھب کی ایک کڑی ، مولانا پروفیسر آفتاب عالم صاحب قاسمی (ولادت یکم اپریل ۱۹۶۶ئ) بن طفیل احمد (م ۱۶؍ جولائی ۲۰۱۰ئ) بن ایوب علی بن عبد الغفار ساکن بیل پکونہ ضلع مظفر پور حال مقام مدنی نگر مہوا ویشالی کی تصنیف ’’مناسک حج وعمرہ مع چہل احادیث‘‘ ہے۔
مولانا آفتاب عالم صاحب دا رالعلوم دیو بند سے فارغ ہیں، حج وعمرہ کے مسائل پر ان کی نظر ہے، جزئیات کااستحضار ہے، فراغت کے بعد انہوں نے یونیورسٹی سے ایم اے ،فارسی واردو میں کیا ہے اور معاصرین میں ممتاز رہے، مختلف اوقات میں مکتب کی معلمی ، مدرسہ کی تدریس ونظامت اور کالج میں لکچرر ہونے کے ساتھ ساتھ انہوں نے مہوا میں تجارت شروع کیا اور ظروف کی خرید وفروخت کو اپنا یا، اللہ نے اس کام میں برکت دی اور اب ان کا شمار مہوا کے کامیاب تاجروں میں ہوتا ہے، ان دنوں وہ مدنی مسجد مہوا کے صدر بھی ہیں۔اس حوالہ سے بھی ان کی محنت قابل ستائش ہے۔
 مولانا موصوف نے اس کتاب میں قرآن واحادیث کے حوالہ سے حج وعمرہ کے طریقے اور دعاؤں کا ذخیرہ جمع کیا ہے اور بڑی حد تک حج وعمرہ اور اس کی ادائیگی کے طریقے کی جزئیات کا احاطہ کیا ہے، کتاب چار ابواب پر مشتمل ہے، جن کی تفصیلات کتاب کے شروع میں مؤلف کے قلم سے ہے اور کافی وشافی ہے۔
کتاب کے اخیر میں ’’میرے شب وروز‘‘ کے عنوان سے مولانا کی آپ بیتی، اس میں انہوں نے اپنی زندگی کے واقعات ، مخلصین، محبین اور اپنے اہل خانہ کا تذکرہ داستانی انداز میں کیا ہے، یہ ’’لذیذ بود حکایت درازترگفتم‘‘ کے مصداق طویل ہو گیا ہے، اس مضمون میں جن لوگوں کا شکریہ ادا کیا  ہے ان کی تعداد ایک درجن سے کم نہیں ہے، من لم یشکر النساس لم یشکر اللہ کہ جو لوگوں کا شکریہ ادا نہیں کرتا وہ اللہ کا شکر گذار بھی نہیں ہو سکتا کی وجہ سے یہ ضروری بھی تھا۔
انتساب کے بعد اس  کتاب پر ’’حرف چند‘‘ راقم الحروف (محمد ثناء الہدیٰ قاسمی) ’’کلمات تحسین ‘‘  مولانا ڈاکٹر ابو الکلام قاسمی شمسی اور’’ نگاہ اولیں‘‘ مولانا محمد سراج الہدیٰ ندوی ازہری کا ہے، اس کے بعد مولانا نے’’ آئینۂ کتاب‘‘ کے عنوان سے تفصیلی طور پر اس کتاب کا خلاصہ قاری کے سامنے رکھ دیا ہے ، یہ طویل ہے، لیکن کتاب میں کیا کچھ ہے اس سے ابتدائی اور اجمالی واقفیت کے لیے اس کا مطالعہ ضروری ہے۔ اس باب کے اخیر میں مولانا نے داستانی انداز میں اپنی آپ بیتی شروع کر دی ہے اور بہت سارے لوگوںکا نام ذکر کرکے اس باب کو اختتام تک پہونچایا ہے، یقینا بہت سارے کام ’’بمد خوش کرنی‘‘ کرنے ہوتے ہیں،نہ کیجئے تو آدمی خود بھی دخیل ہو کے کر، کرا لیتا ہے، کبھی کبھی تو یہ دخیل ہونے والے لووگ اس قدر جری ہوتے ہیں کہ اپنی مدح وستائش کا پورا پورا پیراگراف بڑھادیتے ہیں، کبھی معاملہ اس سے آگے بڑھ جاتا ہے اور ٹائٹل تک پر تصرف سے باز نہیں آتے، صاحب کتاب کا قصور صرف اتنا ہوتا ہے کہ اس نے کسی صاحب پر اعتماد کرکے طباعت کا کام اس کے حوالہ کر دیا، یہ ایک اوچھی گھنونی حرکت ہے، اور صاحب کتاب کے اعتماد کو ٹھیس پہونچانے والی بات ہے، ناموں کی بھیڑ میں یہ تمیز کرنا بھی مشکل ہو جاتا ہے کہ اس طویل فہرست میں کون کون خارج سے داخل ہو گیا۔ اس غیر ضروری دخول کی وجہ سے بعض ناموں میں تکرار ہوجاتا ہے، حالاںکہ اس میں تکرار سے بچنا ضروری ہوتا ہے،سہرے او رمضامین میں ناموں کی لمبی فہرست سے قاری کوبوریت محسوس  ہوتی ہے، اگر وہ شروع میں ہی بور ہو گیا تو بغیر پڑھے کتاب رکھ دے گا۔جو یقینا بڑا نقصان ہے۔
 اس باب میں داستان کا دوسرا حصہ ’’زیارت حرمین اور دل کی باتیں ‘‘ ہیں، یہ مختصر ہے،اوراصلاً سفر نامۂ عمرہ ہے۔جس میں مولانا نے واردات قلبی کو الفاظ کا پیرہن بخشا ہے،یہ داستان دل پذیر ہے اور قارئین کے شوقِ حج وزیارت کو مہمیز کرنے والی ہے۔
 کتاب کا پہلا باب حج کے بیان میں ہے، اس میں مولانا نے قرآن کریم میں جتنی آیات میں حج کا لفظ آیا ہے اس کا احاطہ کیا ہے اور احادیث کی روشنی میں حج کی فضیلت بیان کی ہے، اس کے بعد فرائض وواجبات حج پر روشنی ڈالی ہے اور مختلف عمل کے کرتے وقت جو دعائیں احادیث میں آئی ہیں اس کا ذکر کیا ہے۔ عمرہ کا بیان مولانا نے دوسرے باب میں حج کے بعد رکھا ہے، ہندوستان کے جو عازمین ہوتے ہیں وہ تمتع کرتے ہیں اور تمتع میں پہلے عمرہ ہوتا ہے اس لیے عمرہ کا ذکر پہلے ہونا چاہیے تھا، اس سے ایک دوسرا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ احرام ، طواف، سعی اور حلق کے مسائل سے پہلے مرحلہ میں واقفیت بہم پہونچ جاتی ہے اور حج کے بیان میں مصنف ان امور کے ذکر کا حوالہ دے کر وقوف منی، عرفہ، مزدلفہ، رمیٔ جمرات اور طواف زیارت کے ذکر پر تفصیلی گفتگو کرپاتا ہے، باتوں کو رکھنے اور سمجھانے کے لیے یہ طریقہ شاٹ کٹ ہے، اس کی وجہ سے یہاں بھی تکرار کا امکان کم رہتا ہے۔
 اس کتاب کے مختلف حصے اور ابواب میں مولانا نے مقامات مقدسہ مکہ مکرمہ او ر مدینہ طیبہ کا ذکر کیا ہے، جس کے پڑھنے سے شوق دید ابھر آتا ہے، طواف کی مختلف قسموں اور بعض جنایات کے سلسلے میں بھی تفصیلی کلام کیا ہے۔
 مولانا نے اس کتاب کے آخر میں حج وعمرہ سے متعلق چالیس احادیث کو جمع کر دیا ہے، اعراب اور ترجمہ کرکے عام قاری کے لیے اسے نفع بخش بنا دیا ہے، کسی کو یاد کرنا ہو تو بآسانی کر سکتا ہے اور ترجمہ کے ذریعہ اس کے معنی ومطالب کو سمجھ سکتا ہے۔ یہ ایک مفید اضافہ ہے جو مولانا نے کیا ہے ، عموما حج وزیارت سے متعلق کتابوں میں متعلقہ احادیث کو جمع کرنے کا اہتمام نہیں کیا جا تا ، مولانا نے شروع کتاب میں ان آیات قرآنی کو جمع کر دیا ہے، جس میں حج کا ذکر ہے اور آخر میں احادیث کا ذکر کیا ہے اور وہ بھی چالیس کی تعداد میں، ان احادیث کو یاد کرکے وہ فضیلت حاصل کی جا سکتی ہے، جن کا ذکر مذکور ومنقول ہے، کہنا چاہیے کہ یہ کتاب کا ’’مسک الختام ‘‘ ہے۔ زبان صاف ستھری اور باتیں واضح انداز میں رکھی گئی ہیں، جس سے کم پڑھا لکھا بھی فائدہ اٹھا سکتا ہے۔
۲۰۸؍ صفحات کی یہ کتاب مفت دستیاب ہے، آپ اسے نور اردو لائبریری حسن پور گھنگھٹی ، بکساما، ویشالی، قاسمی منزل وارڈ نمبر ۲۳، مدنی نگر مہوا ویشالی اور امارت شرعیہ سے حاصل کر سکتے ہیں۔
 کتاب عازمین کے لیے مفید ہے، نہ بہت طویل ہے اور نہ بہت ہی مختصر، اس کی وجہ سے کتاب کا مطالعہ آسان اور اس پر عمل آسان تر ہے، اللہ کرے مولانا کی دوسری خدمات کی طرح یہ خدمت بھی قبول عام وتام پائے، مولانا کا سفر حج بھی شروع ہے، حج مبرور کی دعا پر اپنی بات ختم کرتا ہوں