Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, December 25, 2022

*کٹہرے میں ہے سپریم کورٹ*



از /۔ شکیل رشید
( ایڈیٹر ، ممبئی اردو نیوز )
                     صدائے وقت 
==================================
ملک کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ نے بلقیس بانو کو خالی ہاتھ لوٹا دیا ۔ سوال یہ ہے کہ اب بلقیس بانو ’ انصاف ‘ کے لیے کس کا اور کون سا دروازہ کھٹکھٹائے ؟ لوگ بلقیس بانو کو جانتے ہی ہیں ،گجرات کی ایک مظلوم عورت ، جس کی 2002 کے فسادات کے دوران اجتماعی عصمت دری کی گئی تھی ۔ لیکن وہ اجتماعی عصمت دری کے عذاب سے صرف ایک بار نہیں گذری ، بار بار اسے اس افسوس ناک سانحہ کی یاد دلا کر اس عذاب سے گذارا گیا ہے ۔ سولہ افراد پر مشتمل یہ خاندان گجرات کے رندھیک پور سے ، اپنا گھر بار ، جان کے خوف سے چھوڑ کر بھاگا تھا، سب نے چھپّر واڑہ میں پناہ لی تھی ، جہاں 3،مارچ 2002کے روز کوئی 30 آدمیوں کے ہجوم نے ، جو لوہے کی سلاخوں ، تلواروں وغیرہ سے لیس تھا، انہیں گھیر لیا تھا ۔ ہجوم نے بلقیس بانو کا ریپ تو کیا ہی اُس کی عمردراز ماں اور مزید تین خواتین کا ریپ کیا ، ان سب کو قتل کیا اور تمام مرد سوائے ایک تین سال کے بچہ کے ، قتل کر دیے ۔ بلقیس بانو اس لیے بچ گئی کہ اسے یہ مجرم مردہ جان کر چھوڑ گیے تھے ۔ مجروں کے چہرے اجاگر ہونا تھے ، شاید اس لیے اس کی جان بچی رہی ۔ کُل 16 افراد میں سے صرف تین ہی بچ سکے باقی 13 لوگ ان ’ سنسکاریوں ‘ کے ہاتھوں قتل کر دیے گیے ، جن کی رہائی کے خلاف بلقیس بانو نے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا تھا ۔ ان کے ساتھ مزید ’ سنسکاری ‘ بھی تھے ، جو قانونی داؤ پیج میں پہلے ہی بری ہو چکے ہیں ۔ قانون کا معاملہ بھی دیکھ لیں کہ اس قدر گھناؤنے جرم کے باوجود ان مجرموں کو پھانسی کی سزا نہیں سنائی گئی ، جبکہ اس سے پہلے نربھیّا ریپ معاملہ کے مجرموں کو پھانسی کی سزا سنائی گئی تھی ۔ اُس وقت یہ سوال ، جسے سارے دیش کو اٹھانا تھا ، نٹالیا جارج نام کی ایک ایکٹوسٹ نے اٹھایا تھا کہ ’ کیا بلقیس بانو کی اجتماعی عصمت دری نربھیا سے کوئی کم غیر انسانی (یعنی ظالمانہ) تھی؟‘۔ سوال دریافت کرنے کی وجہ ، دونوں ہی معاملوں میں دو مختلف طرح کے عدالتی فیصلے تھے ۔ نربھیا معاملے میں عدالت نے مجرموں کو ، جن کی تعداد پانچ تھی پھانسی کی سزا سنائی تھی ، جبکہ بلقیس بانو کی اجتماعی عصمت دری کے معاملے میں مجرموں کو سزائے عمر قید دی تھی ۔ جب گجرات کی عدالت نے بلقیس بانو کے مجرموں کی سزا معاف کر کے انہیں جیل سے رہا کرنے کا فیصلہ سنایا ، اور بی جے پی کےایک لیڈر نے ، جنہیں لوگ راؤل جی کہتے ہیں ،عصمت دری کے اِن مجرموں کو ’ سنسکاری ‘ قرار دیا ، ان کا ہار پھول کیا ، منھ میٹھا کیا ، تو یہ سوال پھر اٹھا کہ بھلا دونوں فیصلوں میں فرق کیوں تھا ؟ اس سوال کا جواب سامنے ہے ، نربھیّا ، بلقیس بانو نہیں تھی اس لیے اس کے مجرموں کو پھانسی کی سزا ملی ، اور بلقیس بانو ، نربھیّا نہیں ہے ،اس لیے اس کے مجرموں کو سزائے عمر قید دی گئی ، شاید اس لیے کہ بعد میں انہیں آزاد کیا جاسکے ۔ سپریم کورٹ کی، جسٹس اجئے رستوگی اور جسٹس وکرم ناتھ کی بنچ کے سامنے بلقیس بانو نے درخواست کی تھی کہ اس کے مجرموں کو معاف کرکے رہا کرنے کے گجرات کی حکومت کے فیصلے پر نظر ثانی کی جائے ۔ اس بنچ میں ایک خاتون جسٹس بھی تھیں ، بیلا ترویدی ، جنہوں نے خود کو اس درخواست کی سماعت سے ، بغیر کوئی وجہ بتائے ، الگ کر لیا تھا ۔ اور سنیچر کے روز سپریم کورٹ نے ، مئی 2022 کے گجرات حکومت کے ذریعے گیارہ مجرموں کو معاف اور رہا کرنے کے فیصلے پر بلقیس بانو کی نظرثانی کی درخواست کو خارج کر دیا ۔ لیکن بلقیس بانو کی ایک دوسری درخواست ، جس میں رہائی کی بنیادوں کو چیلنج کیا گیا ہے، اس فیصلے سے فوری طور پر متاثر نہیں ہوئی ہے ۔ سپریم کورٹ کی مذکورہ بنچ کا کہنا ہے کہ جس ریاست میں واردات ہوئی ہو اسی ریاست میں نظرثانی کی کسی درخواست پر غور کیا جا سکتا ہے ۔ عدالتِ عظمیٰ کے مطابق 1992 میں رہائی سے متعلق جو پالیسی بنائی گئی تھی ، اس پالیسی کے مطابق گجرات کی حکومت مجرموں کو رہا کرنے کا فیصلہ کر سکتی ہے ۔ دو اہم سوال ہیں ، ایک تو یہ کہ دنیا جانتی ہے کہ بلقیس بانو کا مقدمہ ممبئی کی عدالت میں چلا ہے اور ممبئی کی عدالت ہی نے اُس کے مجرموں کو سزا سنائی ہے ، لہٰذا کیا سپریم کورٹ اس درخواست پر ، رہائی کی پالیسی کے مطابق ، گجرات حکومت کے ذریعہ مجرموں کو رہا کرنے کے فیصلے کو رد نہیں کر سکتی تھی ؟ دوسرا اہم سوال یہ ہے کہ بلقیس بانو کا معاملہ صرف اجتماعی عصمت دری کا معاملہ نہیں ہے ، اس کے خاندان کے تیرہ افراد کا قتل کیا گیا ، جس میں ایک تین مہینے کی بچی بھی شامل تھی ، مزید عورتوں کی عصمت دری کی گئی پھر انہیں قتل کر دیا گیا ، نیز یہ معاملہ فرقہ وارانہ فساد کا تھا ، مجرموں نے جو بھی جرم کیے جان بوجھ کر کیے ، ان کا مقصد ہی تھا کہ وہ عصت دری اور قتل کریں ، تو کیا ایسے مجرموں کو معاف کیے جانے کے ، کسی بھی حکومت کے فیصلے پر ، سپریم کورٹ یہ کہہ کر اپنا ہاتھ اٹھا لینے میں حق بجانب ہے کہ جہاں واردات ہوئی ہو وہیں کی عدالت میں نظرثانی کی درخواست دی جا سکتی ہے ؟ کیا کسی مظلوم کے لیے آخری سہارا سپریم کورٹ نہیں ہے ، یقیناً ہے ، لیکن جب سپریم کورٹ ہی اس مظلوم کو واپس لوٹا دے تو وہ کہاں جائے؟ سپریم کورٹ اس قدر بے بس نہیں ہے ، اس لیے سپریم کورٹ کو بلقیس بانو کی درخواست پر کوئی ایسا فیصلہ لینا چاہیے تھا جو قانون اور انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے والا ہوتا ۔ اس فیصلے کے بعد ملک کے انصاف پسند شہری ، اسی طرح خود کو دھوکہ کھایا ہوا محسوس کر رہے ہیں ،جس طرح بابری مسجد کی جگہ مندر کے لیے سونپنے کے سابق چیف جسٹس آف انڈیا گوگوئی کے فیصلے کے بعد محسوس کر رہے تھے ۔ سپریم کورٹ پر اب بھی لوگوں کو بھروسہ ہے ، اس بھروسے کو ٹوٹنے نہ دیں ۔