Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Saturday, June 3, 2023

یوم پیدائش شمس العلماء حضرت علامہ مولانا شبلی نعمانی رحمۃ اللہ علیہ پر بطور خراج عقیدت ایک تحریر

بموقع یوم پیدائش شمس العلماء حضرت علامہ مولانا شبلی نعمانی رحمۃ اللہ علیہ پر  بطور خراج عقیدت  ایک تحریر ملاحظہ فرمائیں( اس کے ساتھ ہی آپ کا منتخب کلام بھی  ہے.
پوچھتے کیا ہو جو حال شبِ تنہائی تھا 
رُخصتِ صبر تھی  یا  ترکِ شکیبائی تھا 
نام       : محمد شبلی 
تخلص  : شبلی 

ولادت  : 03/ جون  1857ء آعظم گڑھ ہندوستان 
وفات   : 18/ نومبر  1914ء آعظم گڑھ   بھارت 

اعظم گڑھ، اتر پردیش /صدائے وقت / ماخوذ اردو سرائے /3 جون 2023 
========(==========================
محمّد شبلی نام تھا  شبلیؔ تخلص کرتے تھے موضوع بنڈول ضلع اعظم گڑھ میں 3؍جون 1857ء کو پیدا ہوئے بڑے بڑے فاضل استادوں سے تعلیم پائی کئی سال تک علی گڑھ کالج میں پروفیسر رہے ممالک اسلامیہ کی سیاحت کی اور اپنا سفرنامہ قلمبند کیا ندوۃ العلما کو قائم کیا ندوۃ المصنفین انہی کی یادگار میں قائم کیا گیا ہے جس نے اسلامی تاریخ اور ثقافت کے متعلق نہایت اہم اور نہایت قابل قدر کتابیں شائع کی ہیں ، 
حکومت برطانیہ نے انہیں ’’شمس العلماء‘‘ کے خطاب سے سرفراز کیا یہاں پر اس بات کا تذکرہ ضروری ہے 
کہ سرسید احمد خاں ، مولانا حالی ، مولانا شبلیؔ نعمانی اور شاعر مشرق علامہ اقبال جیسی ادبی شخصیتیں صدیوں میں ایک بار ہی پیدا ہوتی ہیں اور ادب میں اپنے ایسے انمٹ نقوش چھوڑ جاتی ہیں جنھیں کبھی بھلایا نہیں جاسکتا جنگ بلقان میں جب ترکوں پر مصیبت آپڑی تو مولانا کے اندر کا انقلابی شاعر جاگ اٹھا اور انہوں نے ایک مرصع نظم لکھی جو بے حد مشہور ہوئی اس نظم کے چند اشعار ملاحظہ کریں  👇 
"حکومت پر زوال آیا تو پھر نام و نشاں کب تک
چراغ تشنہ محفل سے اٹھے گا دھواں کب تک
یہ جوش انگیزی طوفان بیداد و بلانا کے
یہ لطف اندوزی ہنگامہ آہ و فغاں کب تک
یہ مانا تم کو تلواروں کی تیزی آزمانا ہے
ہماری گردنوں پر ہوگا اس کا امتحاں کب تک
کہاں تک لوگے ہم سے انتقام فتح ایوبی
دکھاؤگے ہمیں جنگ صلیبی کا سماں کب تک" 
علامہ شبلی کی شاعری کا دور اگردیکھا جائے تو صاف نظر آئےگا کہ یہ وہ دور ہےجس میں ہندوستان اندرونی  اور بیرونی طور پر آزمائش اور ابتلاء کے دور سے گزر رہا تھا اسی زمانہ میں آپ کی شاعری پر قومی اور سیاسی شاعری کی چھاپ زیادہ نظر آتی ہے مسلمانوں کے مسائل کے حل میں آپ نے اپنی زندگی وقف کر دی۔ اور آپ نے شاعری کے ذریعہ ان مسائل کی اہمیت کو عام لوگوں میں اجاگر کرنے میں اہم رول ادا کیا سیاسی اور سماجی مسائل کے حل میں دیکھا یہ جاتا ہے کہ جدید تعلیم یافتہ طبقہ پہلے سامنے آتا ہے لیکن طبقہ علماء جو قدیم نظام د رس سے موسوم کئے جاتے ہیں۔ اگر جائزہ لیا جائے اور حقیقت پسند انہ نظروں سے دیکھا جائے تو صاف نظر آئے گا کہ ہندوستان میں مسلمانوں کو استحکام دلانے اور ان کی حیثیت عرفی کو قائم رکھنے میں علماء کا طبقہ ہی پیش پیش ہے با لخصوص علامہ شبلی نعما نی کا نام ان لوگوں میں سرِ فہرست ہے جنہوں نے مسلمانوں کو فرقہ واریت کے دلدل سے باہر نکا لا اگر ہم علامہ شبلی کی شاعری کا تنقیدی جائزہ لیں تو نظر آئے گا کہ ان کی چند اصلاحی نظمیں اور اکثر قومی و سیاسی نظموں سے انکی شخصیت کے متعدد پہلو نظر آتے ہیں اور اسی سے ان کے ذہن و فکر کے کئی گوشے ابھر کر سامنے آتے ہیں  علامہ شبلی کی شاعری کے موضوعات میں جذباتیت نہیں نظر آتی، اگرچہ یہ موضوعات تقاضہ وقت اور سیاسی منظر نامہ کے حوالے سے ذکر کی گئی ہیں۔ 
(۱) بحوالہ تنقیدی اشارے۔ از آل احمد سرورص:۲۱۶
(۲) کاروان علی گڑھ از سید محمد ہاشم ص: ۱۰۳
جہاں تک شبلی کی شاعری اور اس کی ادبی وفنی قدر و قیمت کا سوال ہے تو ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ محمد حسین آزاد اور خوا جہ الطاف حسین حالی کے بعد اردو میں قومی شاعری کو حقیقی جذبات اور شور انگیز طرز ادا فارسی کی نغمگیت اور لطافت سے روشناس کرانے کا سہرا شبلی کے سر ہی جاتا ہے مذہبی اور اخلاقی شاعری کے سلسلے میں بھی ان کا مقام بڑا ہی بلند ہے اسلوب کی رنگینی بحر اور وزن کی ترنم آفرینی ردیف اور قافیے کی شگفتگی یہ سبھی ان کی شاعری کے نمایاں اوصاف ہیں جن کی بدولت ان کی شاعری شادابی اور جاذبیت سے لبریز ہوئی 
اگر ہم کلام شبلی کا تجزیہ کریں تو ہمیں اس میں جابجا شبلی کے کردار کی معصومیت، سچائی ، 
بے ریائی اور کھرے پن کے ثبوت ملتے ہیں مگر جلد ہی ان کے کلام میں ان کے کردار کا دوسرا رخ بھی سامنے آجاتا ہے جو کہ شبلی کے کمال فن کی دلیل ہے کہ انہوں نے پردۂ ادب کے لئے جس رول کا بھی انتخاب کیا اسے بخوبی نبھایا ہی نہیں بلکہ اسے بام عروج تک پہونچا دیا علامہ شبلی نعمانی صاحب نے جہاں ایک طرف ایک بلند پایہ عالم دین اور اسلامی غیریت اور حمیت کے علمبردار تھے وہاں وہ مزاجی اعتبار سے نہایت خوش اخلاق، خوش مذاق اور حسن و جمال کے دلدادہ تھے ان کی خوش مذاقی اور حسن و جمال کی دلدادہ د ہی غالباً کچھ دوسرے اسباب کے ساتھ ایک چنگاری بنی جو آگے چل کر بمبئی کی نرم و گداز اور رومان پرور فضاؤں میں اچانک دہک اٹھی تھی علامہ شبلی نے فارسی زبان میں جو شاعری پیش کی وہ بہت شائستہ، ذوق و شوق اور فارسی شعرا کے گہرے اور عمیق مطالعہ کی آئینہ دار اور (۱) تنقیدی اشارے۔ از آل احمد سرورص:۲۱۹,  ان کی شاعری کے کمالات گواہ ہیں کہ شاعری کے رموز و نکات، زبان کی شیرینی اور حلاوت شبلی کی غزلوں میں اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ ہویدا ہے خیالات کی ندرت زبان کی شوخی، بندش کی نفاست دل آویزی و دلربائی کو شبلی نے رشتہ اشعار میں پرو دیا ہے۔ شبلی نے فارسی زبان میں غزلوں کے علاوہ دیگر اصناف شاعری پر بھی طبع آزمائی کی ہے لیکن ان کی فارسی غزلیں لطافت و بلاغت میں بے مثال اور بلاشبہ فارسی ادب کا گراں بہا سرمایہ ہیں
 ان کے چند مشہور تصانیف کے نام کچھ اس طرح ہیں ’’شعرالعجم‘‘ (5 جلدوں میں) ، ’’موازنہ انیس و دبیر‘‘ ’’الفاروق‘‘ ’’المامون‘‘ ’’سیرت النعمانی‘‘ ’’الغزالی‘‘ ’’سوانح مولانا روم‘‘ ’’علم الکلام‘‘ ’’الکلام‘‘ ’’الجزیہ‘‘ ’’فلسفہ اسلام‘‘ ’’سفر نامہ روم و شام و مصر‘‘ ’’حیات خسرو‘‘ ’’سیرت النبیؐ‘‘ ’’دیوان شبلی‘‘ وغیرہ علامہ شبلیؔ اپنی ذات میں ایک مکمل ادبی انجمن تھے انہوں نے 57 برس کی عمر میں تن تنہا ہی ایسے کارنامے انجام دیئے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے ان کے ان ہی ادبی کارناموں سے متاثر ہو کر سلطان ترکی نے ان کی علمی و ادبی خدمات کے اعتراف میں انہیں ’’تمغہ مجیدی‘‘ کے پروقار اعزاز سے نوازا, شعرالعجم پانچ جلدوں میں فارسی شاعروں کی مبسوط تاریخ ہے الماموں، سیرۃ النعمان ،سوانح مولانا روم ،الغزالی ان کی مشہور تصانیف ہیں نظم شبلی ان کی نظموں کا مختصر سا مجموعہ ہے ، آپکی سب سے آخری تصنیف سیرۃ النبیﷺ  ہے جو ان کا شاہکار سمجھی جاتی ہے، آپکا 18؍نومبر 1914ء کو انتقال ہوا اور آپ آعظم گڑھ اتر پردیش ہندوستان میں محو خواب ہیں مگر مولانا شبلی علیہ رحمہ کی مشہور کتابیں اسلامی تمدن و تہذیب کے متعلق جس قدر بلند پایہ مضامین انہوں نے لکھے وہ رہتی دنیا تک مولانا کے نام کو زندہ رکھیں گے
 ترتیب و پیشکش 👈 سید نوید جعفری حیدرآباد دکن

💥💖 عظیم مورخ شمس العلماء علّامہ شبلیؔ نعمانیؒ کے107 ویں یوم وفات پر بطور خراج عقیدت انکا منتخب کلام قارآئین کرام کی خدمت میں پیش ہے 💥💖 👇

تیس دن کے لئے ترک مے و ساقی کر لوں
واعظِ سادہ کو روزوں میں تو راضی کر لوں

پھینک دینے کی کوئی چیز نہیں فضل و کمال
ورنہ حاسد تری خاطر سے میں یہ بھی کر لوں

اے نکیرین قیامت ہی پہ رکھو پرسش
میں ذرا عمرِ گذشتہ کی تلافی کر لوں

کچھ تو ہو چارۂ غم بات تو یک سُو ہو جائے
تم خفا ہو تو اجل ہی کو میں راضی کر لوں

اور پھر کس کو پسند آئے گا ویرانۂ دل
غم سے مانا بھی کہ اس گھر کو میں خالی کر لوں

جورِ گردوں سے جو مرنے کی بھی فرصت مل جائے
امتحانِ دمِ جاں پرورِ عیسیٰ کر لوں

دل ہی ملتا نہیں سفلوں سے وگرنہ شبلیؔ 
خوب گذرے فلکِ دوں سے جو یاری کر لوں
            💗  ▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬  💗
پوچھتے کیا ہو جو حال شبِ تنہائی تھا 
رُخصتِ صبر تھی یا ترکِ شکیبائی تھا 

شب فرقت میں دل غمزدہ بھی پاس نہ تھا 
وہ بھی کیا رات تھی کیا عالم تنہائی تھا 

میں تھا یا دیدۂ خوننابہ فشانی شبِ ہجر 
ان کو واں مشغلۂ انجمن آرائی تھا 

پارہ ہائے دلِ خونیں کی طلب تھی پیہم 
شب جو آنکھوں میں مری ذوقِ خود آرائی تھا 

رحم تو ایک طرف پایہ شناسی دیکھو 
قیس کو کہتے ہیں مجنون تھا صحرائی تھا 

آنکھیں قاتل سہی پر زندہ جو کرنا ہوتا 
لب پہ اے جان تو اعجازِ مسیحائی تھا 

خون رو رو دیے بس دو ہی قدم میں چھالے 
یاں وہی حوصلۂ بادیہ پیمائی تھا 

دشمنِ جاں تھے ادھر ہجر میں درد و غم و رنج 
اور ادھر ایک اکیلا ترا شیدائی تھا 

انگلیاں اٹھتی تھیں مژگاں کی اسی رُخِ پیہم 
جس طرف بزم میں وہ کافر ترسائی تھا 

کون اس راہ سے گزرا ہے کہ ہر نقشِ قدم 
چشمِ عاشق کی طرح اس کا تماشائی تھا 

خوب وقت آئے نکیرین جزا دے گا خدا 
لحد تیرہ میں بھی کیا عالمِ تنہائی تھا 

ہم نے بھی حضرت شبلیؔ کی زیارت کی تھی
یوں تو ظاہر میں مقدس تھا پہ شیدائی تھا
                          ━━━━━━━━━━━━━━━
یار کو رغبتِ اغیار نہ ہونے پائے 
گُلِ تر کو ہوسِ خار نہ ہونے پائے 

اس میں در پردہ سمجھتے ہیں وہ اپنا ہی گلہ 
شکوۂ چرخ بھی زنہار نہ ہونے پائے 

فتنۂ حشر جو آنا تو دبے پاؤں ذرا 
بخت خفتہ مرا بیدار نہ ہونے پائے 

ہائے دل کھول کے کچھ کہہ نہ سکے سوز دروں 
آبلے ہم سخن خار نہ ہونے پائے 

باغ کی سیر کو جاتے تو ہو پر یاد رہے 
سبزہ بیگانہ ہے دو چار نہ ہونے پائے 

جمع کر لیجئے غمزوں کو مگر خوبئ بزم 
بس وہیں تک ہے کہ بازار نہ ہونے پائے 

آپ جاتے تو ہیں اس بزم میں لیکن شبلیؔ
حالِ دل دیکھیے اظہار نہ ہونے پائے

                        ●•●┄─┅━━━★✰★━━━┅─●•●
 میں روح عالم امکاں میں شرح عظمت یزداں 
ازل ہے میری بیداری ابد خواب گراں میرا 

عجب کیا ہے جو نوخیزوں نے سب سے پہلے جانیں دیں 
کہ یہ بچے ہیں ان کو جلد سو جانے کی عادت ہے 

 تسخیر چمن پر نازاں ہیں تزئین چمن تو کر نہ سکے 
تصنیف فسانہ کرتے ہیں کیوں آپ مجھے بہلانے کو 

جمع کر لیجئے غیروں کو مگر خوبئ بزم 
بس وہیں تک ہے کہ بازار نہ ہونے پائے

 فراز دار پہ بھی میں نے تیرے گیت گائے ہیں 
بتا اے زندگی تو لے گی کب تک امتحاں میرا 

 یہ نظم آئیں یہ طرز بندش سخنوری ہے فسوں گری ہے 
کہ ریختہ میں بھی تیرے شبلیؔ مزہ ہےطرز علی حزیںؔ کا