Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, July 30, 2023

آج کی شخصیت ماہر القادری کے یوم ولادت کے موقع پر ایک خصوصی تحریر

▪️ آج کی شخصیت ▪️
▪️مولانا ماہر القادری ▪️
 30 جولائی، 1907ء یومِ ولادت 
از /اظہر رضوی /صدائے وقت /30 جون 2023 
=================================
▪️مشہورِ زمانہ نعتیہ کلام کے خالق ۔
،،سلام اس پر کہ جس نے بے کسوں کی دستگیری کی
سلام اس پر کہ جس نے بادشاہی میں فقیری کی،،

▪️ماہر القادری کیسر کلاں ضلع بلندشہر، برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ آپ کا اصل نام منظور حسین تھا۔
▪️ انہوں نے عملی زندگی کا آغاز حیدر آباد دکن سے کیا، پھر بجنور چلے گئے۔ جہاں مدینہ بجنور اور غنچہ کے مدیر رہے۔ زندگی کا بڑا حصہ حیدرآباد دکن، دہلی، بمبئی میں گذرا اور پھر قیامِ پاکستان کے بعد مستقل قیام کراچی میں رہا، چند ماہ ملتان میں بھی گزارے، اس کے علاوہ سیر و سیاحت کا با رہا اتفاق ہوا۔
▪️ 1928ء میں ریاست حیدرآباد کے مختلف محکموں میں کام کرنے کا موقع ملا۔ قیام حیدرآباد کے دوران میں جب نواب بہادر یار جنگ کی تقاریر کا طوطی بولتا تھا، نواب بہادر یار جنگ نے قائد اعظم محمد علی جناح سے ان کا تعارف یوں کرایا میری تقریروں اور ان کی (ماہر القادری) کی نظموں نے مسلمانانِ دکن میں بیداری پیدا کی ہے۔
▪️1943ء میں حیدرآباد سے بمبئی منتقل ہو گئے۔
 بمبئی کی فلمی دنیا میں کچھ عرصہ گزارا۔ کئی فلموں کے گیت لکھے جو بڑے مقبول ہوئے۔ اپنے فلمی تعلق پر وہ کبھی نازاں نہ رہے۔ اس پر ان کا تبصرہ ان کے الفاظ میں سنیے۔
،، میرا چند دن فلمی دنیا سے بھی تعلق رہا۔ فلمی دنیا میں میرے لیے شہرت اور جلب منفعت کے بعض زرّیں مواقع حاصل تھے، مگر اللہ کا بڑا فضل ہوا کہ میں اس دلدل سے بہت جلد نکل آیا۔ اس چند روزہ فلمی تعلق پر آج تک متاسّف ہوں،،
▪️قیام پاکستان کے بعد انہوں نے کراچی میں مستقل سکونت اختیار کی اور علمی جریدے فاران کا اجرا کیا جو ان کی وفات کے کچھ عرصہ بعد تک جاری رہا۔
▪️مولانا ماہر القادری کے شعری مجموعوں میں 
🔸ظہورِ قدسی (نعتیہ مجموعہ)، 
🔸طلسمِ حیات، محسوساتِ ماہر،
🔸 نغماتِ ماہر،
 🔸نقشِ توحید،  اور 
 🔸جذباتِ ماہر،  شامل ہیں۔ 1954ء میں ماہر القادری نے حج کے مشاہدات و تاثرات پر 
🔸کاروان حجاز،  کے نام سے کتاب تحریر کی۔
🔸غزل
دل میں اب آواز کہاں ہے ٹوٹ گیا تو ساز کہاں ہے
آنکھ میں آنسو لب پہ خموشی دل کی بات اب راز کہاں ہے
سرو و صنوبر سب کو دیکھا ان کا سا اندا ز کہاں ہے
دل خوابیدہ، روح فسردہ وہ جوشِ آغاز کہاں ہے
پردہ بھی جلوہ بن جاتا ہے آنکھ تجلی ساز کہاں ہے
بت خانے کا عزم ہے ماہر کعبے کا در باز کہاں ہے
🔸غزل
چشمِ نم پر مسکرا کر چل دیئے آگ پانی میں لگا کر چل دیئے
ساری محفل لڑکھڑاتی رہ گئی مست آنکھوں سے پلا کر چل دیئے
میری امیدوں کی دنیا ہل گئی ناز سے دامن بچا کر چل دیئے
مختلف انداز سے دیکھا کئے سب کی نظریں آزما کر چل دیئے
گلستاں میں آپ آئے بھی تو کیا چند کلیوں کو ہنسا کر چل دیئے
وجد میں آ کر ہوائیں رہ گئیں زیرِ لب کچھ گنگنا کر چل دیئے
وہ فضا وہ چودھویں کی چاندنی حسن کی شبنم گرا کر چل دیئے
وہ تبسم وہ ادائیں وہ نگاہ سب کو دیوانہ بنا کر چل دیئے
کچھ خبر ان کی بھی ہے ماہر تمہیں آپ تو غزلیں سنا کر چل دیئے
🔸غزل
کچھ اس طرح نگاہ سے اظہار کر گئے جیسے وہ مجھ کو واقف اسرار کر گئے
اقرار کر دیا کبھی انکار کر گئے بے خود بنا دیا کبھی ہشیار کر گئے
کچھ اس ادا سے جلوۂ معنی کی شرح کی میرے خیال و فکر کو بے کار کر گئے
اللہ رے ان کی جلوۂ رنگیں کی فطرتیں سارے جہاں کو نقش بہ دیوار گئے
وعدہ کا ان کے ذکر ہی ماہر فضول ہے تم کیا کرو گے وہ اگر انکار کر گئے۔

 ▪️ ،،وفات،،
ماہر القادری 12 مئی، 1978ء کو جدہ کے ایک مشاعرہ کے دوران انتقال کر گئے اور مکہ مکرمہ میں جنت المعلیٰ کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہوئے۔
▪️ترتیب و پیشکش:  ،،اظہر رضوی،،