Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Monday, August 13, 2018

الحاد و بے دینی۔

تحریر/ سید متین احمد
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
الحاد اور بے دینی کی ہوش ربا لہر کے مقابلے میں صرف عقلی اور علمی دلائل کافی نہیں ہیں. یہ ضروری تو ہیں لیکن کافی نہیں. علامہ اقبال اپنی پوری شاعری میں جو عشق کو عقل پر مقدم کرتے ہیں تو یہ ایک عظیم راز ہے جو اس امت کے فرزند سے اللہ نے جدید گمراہی کے سیلاب میں ادا کروایا ہے. یہ عظیم داناے راز مغرب میں بھی گیا تو اس سیلاب کے آگے سپر ڈالنے کے بجائے ایمان کا مزید درد لے کر وطن واپس آیا.
مولانا اشرف علی تھانوی رح حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رح کے بارے میں فرماتے تھے کہ ہماری مثال اس شخص کی ہے جس نے مٹھائیوں کے بہت سے نام یاد کر رکھے ہوں لیکن حاجی صاحب رح نے وہ سب کھا رکھی تھیں. یہ بڑی اہم بات ہے کہ جو بات دوسروں کے لیے قال تھا حاجی صاحب رح کے لیے حال تھا. وہ وقت علم والوں میں طلب صادق کا وقت تھا. اپنے ظاہری دماغی کمالات (جن کے برابر آج کے بڑے بڑے مدعیان عقلیت بھی نہیں ہیں. ) کے باوجود اپنے روحانی وجود کی تکمیل ناگزیر سمجھتے تھے. آج مدارس کے لوگ انگریزی اہل زبان جیسی لکھنے اور بولنے لگیں، کمپیوٹر کی بورڈ پر ان کی انگلیاں برق رفتاری سے چلنے لگیں، دلیل و حجت میں بڑے بڑے بزرجمہروں کو نیچا دکھا دیں، لیکن یہ سب کچھ ضروری ہونے کے باوجود ہرگز کافی نہیں. اپنے دل میں شہوت، حب جاہ، حب مال، موت و آخرت سے غفلت جیسے رذائل (جو محض کمزوری سے آگے بڑھ کر بیماری اور بیماری سے بڑھ کر لت کے درجے کو پہنچ چکے ہوں ) کے کنڈلی مارے سانپوں کا جب تک سر کچلا نہیں جاتا  انسان ظاہری علم کا حامل ہو کر بھی نفس و شیطان کا غلام ہو گا. خواہشات کا منہ زور گھوڑا  احکام کی پامالی میں اس طرح بہا کر لے جاتا ہے جیسے تنکا دوش آب کی نذر ہوتا ہے. جس قدر ایمان کی مضبوطی پیدا کی جائے گی علم شعور اور وجود کا جز بنتا جائے گا. اس سفر کی کوئی انتہا نہیں. ایک ایمان محمد عربی ص کا ہے، ایک دیگر انبیا کا، ایک صحابہ رض کا اور پھر درجہ بدرجہ فکر اور محنت اس میں نکھار لاتی ہے. دینی مدارس کا مسئلہ جدید علوم کا بھی یقینا ہے لیکن اس سے بڑھ کر شاید اس "آب نشاط انگیز " کا ہے جس کے سوتے اب خشک ہوتے جاتے ہیں.