Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Monday, August 13, 2018

ہندو دہشت گردی۔

سناتن سنستھا : پھر سامنے آیا خوفناک چہرہ!۔
         . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .   
   تحریر/شکیل رشید(ممبئی)
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 

دھماکہ خیز مواد کا ذخیرہ بہت بڑا تھا!
دیسی بم تھے ، ڈیٹونیٹرتھے ، جیلیٹن کی چھڑیں تھیں ، سیفٹی فیوزوائر تھے ، بیٹریاں، وائر اورسوئچ وغیرہ تھے اور زہر کی بوتل بھی تھی!کئی بم بالکل ’استعمال ‘کے لیے ’تیار‘تھے!اتنی بڑی مقدار میں دھماکہ خیز موادکی برآمدگی اوربم سازی کے نسخے کاسیدھا سامطلب یہی ہے کہ تخریب سازی یادہشت گردی کے کسی بے حد خوفناک منصوبے پر عملدرآمد ہوناتھا۔اب پکڑے گئے ’سناتن سنستھا‘’ہندو جن جاگرن سمیتی‘اور’ہندوگئو ونش رکشھاسمیتی‘کے تین مشتبہ دہشت گرد،ویبھو راؤت، شرد کا لسکر اور سدھنواگوندھلکر برآمد کئے گئے دھماکہ خیز موادکا استعمال کہاں اورکس موقع پر کرناچاہتے تھے‘یہ بات فی الحال سامنے نہیں آسکی ہےلیکن پولس ذرائع بالخصوص مہاراشٹر انسداد دہشت گردی دستہ(اے ٹی ایس)کے ذرائع نے جو اطلاعات فراہم کی ہیں ان سے یہ اندازہ لگا یا جارہا ہے کہ متعدد ٹھکانے نشانے پر تھے‘خاص طور سے ممبئی، نالاسوپارہ ، پونے، ستارا اورشولاپور۔تخریبی کارروائی کب ہونی تھی‘ابھی اس سوال کا جواب بھی دھند میں لپٹا ہوا ہے پرکہا جا رہاہے کہ ممکنہ طو رپر 15؍اگست اورعید قرباں کے مواقع پر دھماکے کئے جانے تھے تاکہ دہشت پھیلے اورمختلف فرقوں کے درمیان نفرت کی خلیج مزید وسیع ہو جائے۔
اے ٹی ایس کی یہ کارروائی بلاشک وشبہ لائق ستائش ہے۔اوراے ٹی ایس مہاراشٹر کے سربراہ اتل چندرکلکرنی کاآج کے حالات میں ‘جب کہ ملک پر ہندوتوادی عناصرکی سخت گرفت ہے اورسنگھ پریوار کی چھترچھایا میں پروان چڑھنے والی کسی تنظیم کے کسی رکن کو گرفتار کرنا نا ممکن تونہیں پرانتہائی مشکل ہے،’سناتن سنستھا‘’ہندوجن جاگرن سمیتی‘اور’ہندوگئو ونش رکشھا سمیتی‘کے تین کارکنان کو گرفتار کرنا ایک یادگار اورلائق تحسین کارنامہ ہے۔انہوں نے اپنی اس کارروائی سے اے ٹی ایس کے شہید سربراہ ہیمنت کرکرے کی یادبھی تازہ کر دی ہے اورملک کو ایک ممکنہ دہشت گردانہ حملہ سے بھی بچالیاہے۔لیکن تحسین اورمرحبا کی صداؤں کے درمیان ایک اندیشہ بھی سراٹھارہاہے کہ کیا اِن گرفتاریوں کے بعدسنگھ پریوار کی چھترچھایا میں پروان چڑھنے والی انتہا پسند اوردہشت گرد تنظیموں کی چھان بین،تفتیش اورتحقیقات اپنے منطقی انجام کو پہنچ سکے گی؟جس طرح سے کرکرے کے ذریعے سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکرکی گرفتاری کے بعداے ٹی ایس کے خلاف زبانیں کھلنے لگی تھیں اسی طرح اب ویبھو راؤت کی گرفتاری کے بعدایک شوراورہنگامہ مچ گیاہے اوراے ٹی ایس پرایک’’ہندوکاریہ کرتا‘‘اور’’ہندوکاژ کے لیے سرگرم کارکن‘‘کو ہراساں کرنے،جھوٹے الزامات عائد کرنے اور’’ہندوتواوادی تنظیموں‘‘کو نشانے پرلینے کاالزام لگنے لگا ہے۔دلچسپ امریہ ہے کہ نالاسوپارا اورپونے سے کی گئی گرفتاریوں اوربھاری مقدار میں دھماکہ خیز موادکی برآمدگیوں کے بعدبھی گرفتارشدگان کو’’سناتن سنستھا کے ہمدرد اوربہی خواہ‘‘ہی تحریر کیا جارہاہے‘میڈیا انہیں اس طرح ‘جیسے کہ کسی مسلم انتہا پسند کی گرفتاری کے بعداسے ’’مسلم دہشت گرد‘‘کہہ کر پیش کیا جاتاہے،’’ہندو دہشت گرد‘‘کہہ کر پیش نہیں کیاہے۔
’سناتن سنستھا‘نے گرفتاری پر جس ردّعمل کا اظہار کیاہے وہ بھی دلچسپ ہے۔’’راؤت سناتن کا سادھک نہیں ہے پر وہ کٹّرہندو تنظیموں کو متحد کرنے کی مختلف ریلیوں میں عملی طور سے سرگرم رہا ہے۔باوجوداس کے کہ راؤت سناتن کاسادھک نہیں ہے ہم یہ مانتے ہیں کہ ہر وہ ہندو جو ہندوتوا اوردھرم کے کاژ کے لیے کام کرے سناتن کاہی ہے،اگراے ٹی ایس کے افسران پکّےہندوؤں کے یہاں آرڈی ایکس چھپاسکتے ہیں ،جیسا کہ مالیگاؤں کے معاملے میں کیاگیا ہے‘توویبھو راؤت کے ساتھ بھی ایسا کیوں نہیں کر سکتے؟ابھی کوئی بھی ثبوت نہیں ہے لہٰذا راؤت کو قصوروار قرا دینا اچھا نہیں ہوگا۔‘‘سناتن سنستھا کے وکیل ایڈوکیٹ سنجیوپنالیکرنے یہ اعلان بھی کردیا ہے کہ تینوں گرفتارشدگان کو ‘باوجوداس کے کہ وہ سناتن سنستھاکے نہیں ہیں‘سناتن سنستھا سے قانونی امداد فراہم کی جائے گی۔’ہندوجن جاگرن سمیتی‘نے بھی تینوں کے حق میں آواز اٹھائی ہے۔راؤت کی اہلیہ نے یہ الزام لگادیا ہے کہ اے ٹی ایس کے اہلکاران نے خود دھماکہ خیز موادرکھا ہے…. اورگئو رکشھکوں کی طر ف سے بھی یہ بات کہہ دی گئی ہے کہ’’راؤت ایک جری گئو رکشھک تھا۔‘‘
اے ٹی ایس پر ایک طرح کا دباؤبنانے کی کوشش شروع ہوگئی ہے۔ریاست میں فی الحال بی جے پی کی سرکارہے،اس سرکار کے جونیئر وزیر داخلہ دیپک کیسرکرنے یہ توکہاہے کہ’’چھان بین ہوگی‘‘مگرانہوں نے تینوں کے’سناتن سنستھا‘سے تعلق کو’فی الحال‘قبول کرنے سے انکار کردیا ہے ۔ان کاکہنا ہے کہ ’’ابھی چھان بین باقی ہے تفتیش کے بعدہی یہ پتہ چلے گا کہ ان کا تعلق کسی تنظیم سے ہے بھی یانہیں۔‘‘یاد آرہاہے کہ جب ممبئی میں دھماکے ہوتے تھے تواس وقت کے دوغیربھاجپائی وزراء چھگن بھجبل اورآرآرپاٹل کی زبانوں سے فوراً ہی کسی نہ کسی نام نہاد مسلم تنظیم کانام نکل جاتاتھا۔دیپک کیسرکر اس سے پوری طرح بچ رہے ہیں۔
یہ گرفتاریاں آسانی سے نہیں ہوئیں۔خاتون صحافی گوری لنکیش کے قتل کی چھان بین کے لیے قائم کیے گئے کرناٹک پولس کے خصوصی تحقیقاتی دستے(ایس ٹی ایس)نے مہاراشٹر پولس کو اشارہ دیاتھا کہ ریاست میں کسی بڑی تخریبی کارروائی کی منصوبہ سازی کاپتہ چلاہے۔واضح رہے کہ نریندردابھولکر،گووندپنسارے اورایم ایم کالبرگی کے قتل کی وارداتوں میں بھی اسی تنظیم پر شک کی سوئی ہے۔کرناٹک پولس کو گوری لنکیش قتل کے سلسلے میں گرفتارکیے گئے امول کالے سے اس بات کاپتہ چلا تھا۔ایس آئی ٹی نے گوری لنکیش قتل معاملے میں امول کالے سمیت مزید جن افراد کو گرفتارکیاہے ان کی ڈائریوں اورفون ریکارڈوں کے تجزیے سے متعدد ایسے نام سامنے آئے ہیں جو ہندوتوادی تنظیموں میں نئے نئے شامل ہوئےہیں اورجنہیں تخریبی کارروائیوں کے لیے استعمال کیا جاناہے۔مہاراشٹر پولس نے مذکورہ اطلاعات کے بعدمزیدچھان بین کی اورویبھو راؤت کے نام تک اس کی رسائی ہوئی۔اتل چندرکلکرنی کے مطابق راؤت کی نالاسوپارہ کی کوٹھی پرگذشتہ پانچ مہینے سے نظررکھی جارہی تھی۔اور جب اے ٹی ایس کو پختہ یقین ہوگیا کہ راؤت کاتعلق ’انتہا پسندی اوردہشت گردی‘میں ملوث ہندوتوادی تنظیموں سے ہے توجمعرات کی صبح اس’آپریشن‘پر عمل شروع کیاگیا جس کااختتام جمعہ کی شام میں ہوا۔اس دوران پونے،ستارا اوراورنگ آبادمیں بھی تلاشیاں لی گئیں۔پونے سے مزید ایک گرفتاری عمل میں آئی اور مزید ایک گرفتاری نالاسوپارہ سے بھی ہوئی۔اے ٹی ایس کے سامنے بہت سارے سوال آکھڑے ہوئے ہیں۔بم دھماکے کہاں کیے جانے تھے اورکب کیے جانے تھے؟اتنی بڑی مقدار میں دھماکہ خیزموادکہاں سے لایاگیا؟بم بنانے کی تربیت کس نے دی اورکہاں دی؟کیاایسے’موڈیول‘مزید ہیں جن کے پاس دھماکہ خیز موادموجودہوسکتا ہے جس کااستعمال وہ کسی خاص موقعے پر دہشت گردانہ سرگرمیوں کے لیے کر سکتے ہیں؟
ان گرفتاریوں سےکئی ایسی کڑیاں جو پہلے آپس میں ملتی نظرنہیں آتی تھیں،ملتی نظرآرہی ہیں۔مثلاًیہ کہ ’سناتن سنستھا‘اور’ہندوجن جاگرن سمیتی ‘کے ساتھ’ہندوگئو ونش رکشھاسمیتی‘یاباالفاظ دیگر’گئو رکشھکوں‘کابھی سازبازہے۔یعنی یہ سارے ایک ہی تھیلی کے چٹّے بٹّےہیں۔ویبھو راؤت اوراس کے ساتھیوں کی گرفتاریوں اوربھاری مقدار میں دھماکہ خیزمواد کی برآمدگی سے گوا بم دھماکے اورمالیگاؤں کے بم دھماکے یادآتے ہیں اور ’سناتن سنستھا‘اور’ابھینوبھارت‘کے درمیان تعلق بھی ابھر کر سامنے آتاہے۔واضح رہے کہ ۲۰۰۹ء کے گوا بم دھماکوں کی چھان بین کرتے ہوئے اس وقت کے گوا کے آئی جی پولس کے ڈی سنگھ نے کہاتھا کہ’ سناتن سنستھا‘تواس معاملے میں ملوث ہے ہی اس کے ساتھ’ابھینوبھارت‘کاملوث ہونابھی پایاگیاہے۔
’ابھینوبھارت ‘کی تاریخ سے کون واقف نہیں ہے!کرنل پروہت اورسادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکر کاتعلق اسی شدت پسند تنظیم سے ہے۔اس تنظیم پر صرف مالیگاؤں بم دھماکوں کاہی الزام نہیں ہے اس پر ملک کو’ہندوراشٹر‘میں تبدیل کرنے کے لیے انتہاپسندی،شدت پسندی بلکہ دہشت گردی کی راہ پر چلنے کاسنگین الزام ہے۔الزام ہے کہ یہ ملک کا’آئین‘بدل کر ایک’ہندوآئین‘لانے کی تیاری کر رہی تھی۔ہیمنت کرکرے نے اپنی تفتیش میں ’ابھینوبھارت‘کے چہرے کو پوری طرح سےاجاگرکردیاہے۔’سناتن سنستھا‘اور’ابھینوبھارت‘میں تعلق کتنا گہرا ہوسکتا ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ بالکل کرنل پروہت کی راہ پر چلتے ہوئے سناتن سنستھا نے بھی اپنے تخریبی ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے ملٹری(فوج)کے کچھ حلقوں میں روابط قائم کیے ہیں۔ماضی قریب میں بحریہ کے ایک سابق افسرکے ساتھ سناتن کے تعلق کے کئی پریشان کن انکشافات سامنے آئے تھے مثلاً یہ کہ’’بھارت کی بحری افواج کے سابق افسرسیئن مائیکل کلارک ،جوریٹائرڈکمانڈررچرڈکلارک کابیٹا ہے گوا میں تین سال سے سناتن سنستھا کاممبرہے،پولس ریکارڈکے مطابق وہ عوامی سطح پر انتہا پسند بھگوا تنظیموں بجرنگ دل،وشواہندوپریشداورآرایس ایس وغیرہ کے ساتھ کم از کم دومواقع پر گوا میں اسٹیج پرآیاہے‘ان عوامی جلسوں میں حکومت اوراقلیتوں کے خلاف اشتعال انگیز جوش کا مظاہرہ کیاگیاتھا لیکن پولس نے سیئن کے ویزا کی کئی باریہ کہہ کر توسیع کی کہ اس کے ریکارڈ میں کوئی مخالف بات نہیں ہے،واضح رہے کہ سیئن آسٹریلیا کاشہری ہے۔‘‘
گوا دھماکہ کے سلسلے میں جو معلومات سامنے آئی تھیں وہ تشویش ناک تھیں‘ملزمین جو اچانک دھماکے سے چل بسے تھے‘جائے واردات پر’مسلم علامات‘چھوڑناچاہتے تھے۔ان کے پاس جو اشیاء تھیں ان میں دہلی کے ’خان مارکیٹ‘کی ایک شاپنگ بیگ تھی‘ایک عطر کی شیشی تھی جسے مسلمان خوب استعمال کرتے ہیں اورباسمتی چاول کی ایک خالی بوری تھی جس پر تمام الفاظ اردو زبان میں لکھے ہوئے تھے۔اب نالاسوپارا اورپونے سے جو گرفتاریاں ہوئی ہیں اگرانہیں گوا معاملے کے پس منظر میں دیکھا جائے تویہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جودھماکے کیے جانے تھے کیاوہاں بھی’مسلم علامات‘چھوڑنے کی منصوبہ بندی تھی؟کیا مسلمانوں اورہندوؤں کے درمیان فسادات کی تیاری تھی؟کیا’سناتن سنستھا‘ کے ساتھ’ابھینوبھارت‘پھر سے پہلے ہی کی طرح سرگرم ہے اوردونوں مل کر مالیگاؤں جیسا ہی کوئی کھیل کھیلناچاہتے ہیں؟یہ وہ سوال ہیں جن کے جواب ملنے کی اب اُمید ہے۔لیکن اس سے پہلے یہ ضروری ہے کہ’سناتن سنستھا‘ پر پابندی عائد کی جائے۔حیرت انگیز اورافسوسناک امر یہ ہے کہ اس تنظیم کے خلاف متعدد ثبوتوں کے باوجودحکومتیں کوئی اقدام کرنے سے بچتی رہی ہیں۔’سناتن سنستھا‘ پر پابندی کی ہیمنت کرکرے نے 2008ء میں سفارش کی تھی مگرحکومت مہاراشٹر نے اسے بغیرکسی غورکے مستردکردیاتھا‘ 2011ء میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ اس بار حکومت مہاراشٹر پابندی لگادے گی پراب تک وہ’آزاد‘ہے۔اب جب کہ بھاری مقدار میں دھماکہ خیز موادکے ساتھ ’سناتن سنستھا‘ ’ہندو جن جاگرن سمیتی‘اور’ہندوگئو ونش رکشھاسمیتی‘کے کارکنان گرفتارہوئے ہیں اوریہ بات سامنے آرہی ہے کہ ان کاممکنہ منصوبہ 15؍اگست کو …..یاعیدقرباں پر….بم دھماکے کرناتھا‘توکیا حکومت پابندی عائد کرنے کی ہمت کرے گی؟