Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Saturday, August 18, 2018

سیلفی اور حج۔

سیلفی کے جنون سے حج کا تقدس پامال
. . . . . .  . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
سہیل انجم
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
اسلام میں تصویر کشی و تصویر سازی حرام ہے۔ علما نے بدرجہ مجبوری اس کو جائز قرار دیا ہے۔ یعنی پاسپورٹ اور دیگر ضروری دستاویزات کے لیے تصویر کھنچوائی جا سکتی ہے۔ لیکن اس کو مکمل طور پر جائز اور حلال کر لینا اور ہر مناسب و نامناسب موقع پر تصویر کشی کرنا اب ہماری زندگی کا ناگزیر حصہ بن چکا ہے۔ اگر ہم کسی موقع کی کوئی تصویر لینے میں ناکام رہتے ہیں تو یوں لگتا ہے کہ کچھ ادھورا ادھورا سا ہے، کچھ کمی کمی سی ہے۔ اس کا دائرہ بھی اب کافی وسیع ہو چکا ہے اور اس میں کئی نئے پہلو جڑ چکے ہیں۔ اب یہ معاملہ صرف فوٹو کھنچوانے تک محدود نہیں رہ گیا بلکہ اس سے بھی آگے سیلفی، ویڈیو گرافی اور ویڈیو کالنگ تک پہنچ گیا ہے۔ اس شوقِ نامراد کی زلفِ گرہ گیر کے شکار بلا لحاظ ملت و فرقہ، بلا تخصیص عمر و جنس اور بلا امتیاز ملک و علاقہ اور رنگ و نسل تمام بنی نوع انسان بن چکے ہیں۔ اب ہمارے یعنی مسلمانوں کے مقدس مذہبی امور و ارکان بھی اس سے اچھوتے نہیں ہیں۔ یہاں تک کہ حج جیسا دین کا اہم اور مبارک رکن بھی اس کی آلائشوں میں لت پت کر دیا گیا ہے۔ حرمین جیسے مقامات مقدسہ اور دیگر مشاعر مبارکہ بھی اس کی زد میں آگئے ہیں۔ اس کا بدترین مشاہدہ اگر کسی کو کرنا ہو تو اسے چاہیے کہ وہ حرمین کا مبارک سفر کرے اور پھر ان مقامات پر مسلمانوں کی بد احتیاطیاں دیکھے اور ماتم کرے۔ اسمارٹ فون نے اس شوقِ ناہنجار کو وبائی مرض میں تبدیل کر دیا ہے۔ جسے دیکھیے وہ اس مرض میں مبتلا ہے اور اس شوق کی تکمیل کی خاطر کسی بھی بد احتیاطی بلکہ بداخلاقی کو گوارہ کرنے کے لیے تیار ہے۔

ہم نے مسجد نبوی میں اسمارٹ فون کی منحوس کرامات دیکھی تھیں اور کف افسوس مل کر رہ گئے تھے۔ اس بارے میں ہم نے ایک مضمون میں اپنے مشاہدات کو قلمبند بھی کیا تھا اور اس پر روشنی ڈالی تھی کہ کس طرح بہت سے معتمرین و عازمین سیلفی، ویڈیو گرافی اور ویڈیو کالنگ کے ذریعے مسجد نبوی اور یہاں تک کہ قبر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے تقدس کو پامال کرتے ہیں۔ ایسے کئی افراد دیکھے جو اللہ کے رسول کو سلام پیش کرنے جا رہے ہیں اور ویڈیو کالنگ کے ذریعے اپنے اہل خانہ سے گفتگو کر رہے ہیں۔ یہاں تک کہ ان کے گھر کی خواتین روضہ رسول کے سامنے موبائیل فون کی اسکرین پر بے پردہ نظر آرہی ہیں اور دوسرے لوگوں کی نگاہیں ان پر پڑ رہی ہیں۔ ایسے افراد کے لبوں پر درود و سلام کے بجائے لایعنی فقرے ہوتے ہیں اور وہ اس پر فخر کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ انھوں نے اپنے اسمارٹ فون سے اپنے بیوی بچوں کو بھی قبر مبارک کی زیارت کرا دی ہے۔ کسی نے اپنے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ فون اسمارٹ نہیں ہوتا انسان اسمارٹ ہوتا ہے۔ یہ بات جزوی طور پر درست معلوم ہوئی۔ لیکن یہ بھی اندازہ ہوا کہ ہر آدمی اسمارٹ نہیں ہوتا۔ اسمارٹ تو وہ شخص ثابت ہوا جس نے اسمارٹ فون بنایا۔ باقی تو بیوقوف بن گئے۔البتہ اسمارٹ بن جانے کی خوش فہمی میں مبتلا ہیں۔

ہم نے مسجد نبوی میں جو کچھ دیکھا تھا وہ اس جدید ترین ”بدعت“ کا ایک ہلکا سا نمونہ تھا۔ جامع اور تفصیلی مشاہدہ تو حرم مکی میں ہوا۔ یہاں اِس اِس انداز میں اسمارٹ فون کو استعمال کیا جاتا ہے کہ حیرت ہوتی ہے۔ ہم نے ایسے کئی لوگوں کو دیکھا جنھوں نے طواف کے دوران پورے شوط میں موبائل کیمرہ آن کیے رکھا اور ان کی نگاہیں مسلسل اسکرین پر ٹکی رہیں۔
صدائے وقت۔