Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Saturday, August 18, 2018

آنجہانی باجپئی اور آر ایس ایس۔

اٹل بہاری واجپئی :
’ہندو ہردیہ سمراٹ‘ مودی کے لئے راستہ ایسے تیار کیا
       ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریر/راجیش پریہ درشی
ترجمہ /افتخاررحمانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اٹل بہاری کیا تھے اور کیا نہیں تھے ؛لیکن کل اور آج جس طرح نیم ملائوں اور مفاد پرست مسلم سیاسی لیڈران نے اٹل بہاری کی موت پر اظہار غم اور رنج کا ’’عمل ‘‘دہرایا ہے ،حتیٰ کہ کئی نام نہاد مسلم عورتوں نے مرثیہ اور ماتم بھی کیا ہے ۔یہ ان کی خودفراموشی اور ناعاقبت اندیشی ہے۔ ممکن ہے کہ یہ ان کی غلط فہمی یا خودفراموشی ہو ؛ لیکن پردیہ درشی ڈیجیٹل ایڈیٹر بی بی سی نے اس غلط فہمی کو دور کرنے کی کوشش کی ہے ، آر ایس ایس نے جو مکھوٹااٹل بہاری واجپئی کے چہرے پر ڈال رکھا تھا اس کو بے نقاب کیا ہے۔ اپنے ناسمجھ اور ’’بھلکڑ‘‘ احباب کے لیے اس کا اردو ترجمہ پیش کررہا ہوں ۔ (افتخاررحمانی)۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
واجپئی کی سب سے بڑی خاصیت تھی ذاتی رویے میں کشادہ قلبی،اختلاف رائے رکھنے والوں کو ذاتی دشمن تسلیم نہ کرنا ، یہ ماننا ناسمجھی ہی ہوگی کہ اس کی وجہ صرف ان بہتر اخلاق تھا ۔ا ن کی شبیہ ایسی بنی یا بنائی گئی ،تاہم لوگ یہ بھی بھول گئے کہ وہ آخرکار ایک سیاسی لیڈر تھے۔سیاست میں شبیہ سے بڑھ کر کچھ نہیں، اسی شبیہ کو ’جن ستا‘ کے سابق ایڈیٹر اور نامور صحافی پربھاش جوشی ’’سنگھ (آر ایس ایس کا  مکھوٹا لکھتے تھے۔واجپئی زندگی بھر سنگھ کے پرچارک رہے، اتنی لمبی سیاسی زندگی میں وہ مسلسل آر ایس ایس کے نمائندے کی ہی طرح کام کرتے رہے۔ 2001 میں تارکین وطن سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے نیویارک میں کہا تھا کہ آج وزیر اعظم ہوں، کل نہیں رہوں گا لیکن آر ایس ایس کا رضاکار پہلے بھی تھا اور آئندہ بھی رہوں گا۔ان کی یہ بات بالکل سچی، صحیح اور پکی بھی ہے۔واجپئی آر ایس ایس کے بے دام پرچارک تھے انہیں آر ایس ایس نے جن سنگھ میں کام کرنے کے لئے بھیجا تھا، وہ مرارجی دیسائی کی حکومت میں وزیر خارجہ بنے جبکہ اڈوانی اطلاعا ت و نشریات کے وزیر 1977 میں جن سنگھ کا جنتا پارٹی میں انضمام ہو گیا تھا۔ آگے چل کر سماج وادی دھڑے کے لوگوں، خاص طور سے جارج فرنانڈیز نے یہ مسئلہ اٹھایا کہ دوہری رکنیت نہیں ہونی چاہئے، یعنی جو لوگ جنتا پارٹی میں ہیں انہیں آر ایس ایس کا رکن نہیں ہونے چاہئے۔ آر ایس ایس کے تئیںیہ واجپئی-اڈوانی کا اعتراف ہی تھا کہ انہوں نے حکومت چھوڑ دی لیکن آر ایس ایس چھوڑنے کو راضی نہیں ہوئے۔اسی کے بعد 1980 میں جن سنگھ نئے طور پر سامنے آیا۔پارٹی کا نام رکھا گیا بھارتیہ جنتا پارٹی۔بات مختصر یہ ہے کہ بی جے پی کی پیدائش سے پہلے سے واجپئی-اڈوانی آر ایس ایس کی ہدایت پر تال میل کے ساتھ سیاست کرتے رہے ہیں اور 2004 میں انڈیا شائننگ والے الیکشن ہارنے تک یہ جوڑی بنی رہی اور ہندوتوا کو پختہ بنانے میں مصروفِ عمل رہی ۔ یہ بات اہم ہے کیونکہ آر ایس ایس وہ تنظیم ہے جس کا اعلان مقصد بھارت کو ہندو راشٹر بنانا ہے، ہندو تسلط کے ماڈل میں جس کا یقین ہے، وہ ایسی تنظیم ہے جو کسی کے تئیں کسی طرح سے ذمہ دار نہیں ہے بلکہ جمہوری طریقے سے منتخب کیا گیا ملک کا وزیر اعظم اگر بی جے پی سے ہو تو وہ سرسنگھ چالک کے احکام پر عمل کرتا ہے۔ اٹل بہاری واجپئی کے قریبی دوستوں میں جسونت سنگھ بھی رہے ہیں۔ 1996میں وزیر اعظم بننے پر واجپئی نے جسونت سنگھ کو وزیر خزانہ بنایا تھا.   جب 1998 میں واجپئی اپنے وزراء کی فہرست تیار کر چکے تھے جسے صدرجمہوریہ کے پاس بھیجا جانا تھا کہ یکایک اس وقت کے سرسنگھ چالک کے سی سدرشن نے اچانک واجپئی سے ملاقات کی اور ان کے کہنے پر جسونت سنگھ کا نام فہرست سے ہٹا دیا گیا۔اپنی کابینہ کا انتخاب وزیر اعظم کا استحقاق ہوتا ہے لیکن اگر پی ایم کا تعلق یونین سے ہو تو زندگی بھر عہدے پر رہنے کے لئے منتخب کیا سرسنگھ چالک کے سامنے یہ استحقاق بے معنی ہو جاتا ہے، جسونت سنگھ کی جگہ یشونت سنہا کو وزیر خزانہ بنایا گیا کیونکہ آر ایس ایس جسونت سنگھ کو وزیر خزانہ کے طور پر دیکھنے کے لیے تیار نہیں تھا۔ مودی حکومت تو باقاعدہ منظم کرکے اپنی حکومت کی پروگریس رپورٹ یونین قیادت کو سونپ چکی ہے۔ اسی کی دہائی میں ایودھیا تحریک کے آغاز سے لے کر 2004 تک آر ایس ایس نے رام مندر، ہندوتو اور مخلوط حکومت سب کو ایک ساتھ لگانے کے لئے دو چہروں کی ضرورت محسوس کی۔اشتعال انگیزی، فرقہ پرستی، سماجی تقسیم کی ذمہ داری لال کرشن اڈوانی اداکر رہے تھے جبکہ این ڈی اے کو جوڑے رکھنے اور سکون سے حکومت قائم کرنے کی ذمہ داری واجپئی کی تھی۔دونوں کے درمیان اختلافات اور تصادم کی بات کو زیادہ تر سنجیدہ صحافیوں نے کبھی سنجیدگی سے نہیں لیا، یہ سنگھ کے کام کرنے کا طریقہ تھا۔سچ یہ ہے کہ اڈوانی اور واجپئی مل کر اس سمت میں کام کرتے رہے جسے سنگھ کی زبان میں ’’پرم لکھشیہ ‘‘ حتمی مقصدکہا جاتا ہے ۔یہ محض شبیہ بنائے جانے کا معاملہ ہے ۔جان بوجھ کر اس تاثراور پروپیگنڈے کو فروغ دیا گیا کہ واجپئی اعتدال پسند ہیں اور اڈوانی بنیاد پرست۔ وقت-ضرورت کے حساب سے دونوں اپنی اپنی ذمہ داری ادا کر رہے ہیں، ویسے دونوں میں کوئی خاص فرق تو نہیں ہو سکتا کیونکہ سنگھ میں نظریاتی تبدیلی کی خاص گنجائش نہیں ہے۔ٹھیک ویسے ہی جیسے مارکسزم میں اعتقاد (مذہب پر یقین )کے بغیر آپ کو کمیونسٹ پارٹی میں شمولیت نہیں مل سکتی ، اسی طرح ہندو نظریہ کا حامل ہوئے بغیر آر ایس ایس میں بھلا کوئی کیسے رہ سکتا ہے؟کئی ایسی واقعات ہیں جن سے آپ بخوبی سمجھ سکتے ہیں کہ واجپئی کی شبیہ چاہے جو ہو لیکن ہندوتوا کے معاملے میں وہ لوہ پروش(مردِ آہن) کہے جانے والے اڈوانی سے کم سخت گیر نہیں تھے۔اکثر لوگوں کو یاد ہوگا کہ 2002 میں جب گجرات میں فرقہ وارانہ فسادات ہوئے تو واجپئی وزیر اعظم تھے اور مودی ریاست کے وزیر اعلی۔واجپئی کی جانب سے کہا جانا والا جملہ مودی کو ’’راج دھرم نبھانا چاہئے اور اپنے شہریوں میں مذہب یا ذات کی بنیاد پر امتیازی سلوک نہیں کرنا چاہئے‘‘ والا جملہ کافی مشہور ہوا تھا۔یہ ہمیشہ سچ بولو، اپنا کام محنت سے کرو، کسی کا دل مت دکھاؤ جیسی ہی بات تھی۔اس خوبصورت کلام کے علاوہ انہوں نے کچھ ٹھوس نہیں کیا، اور تو اور، گوا میں بی جے پی کی قومی مجلس عاملہ کی میٹنگ میں 12 اپریل کو واجپئی نے جو تقریر کی تھی وہ بتاتی ہے کہ مسلمانوں کے بارے میں اس مبینہ ’’لبرل‘‘ لیڈر کی سوچ کیا تھی۔انہوں نے گوا میں کی گئی تقریر میں کہا تھا کہ ’’مسلمان جہاں کہیں بھی ہیں، وہ دوسروں کے ساتھ شراکت پسند نہیں کرتے، وہ دوسروں سے میل جول نہیں چاہتے، اپنے خیالات کو پر امن طریقے سے تشہیر کرنے کی جگہ وہ اپنے مذہب کو پھیلانے دہشت گردی اور دھمکیوں کے ذریعہ کرتے ہیں‘‘۔ یہ بھی طے شدہ حکمت عملی کا ہی حصہ تھا کہ اڈوانی، اوما بھارتی اور مرلی منوہر جوشی بابری مسجد انہدام کی قیادت کریں گے اور واجپئی کو اس سے الگ رکھا جائے گا۔اس طرح یہ بھرم بنا رہے گا کہ وہ اعتدال پسند ہیں۔یہ بھی طے کیا گیا کہ وہ انہدام کے وقت وہاں نہیں ہوں گے، لیکن اس سے پہلے 5 دسمبر کو انہوں نے لکھنؤ میں جو تقریر کی اس آپ بی بی سی کی سائٹ پر سن سکتے ہیں۔اس خطاب میں واجپئی اڈوانی سے کم سخت گیر نہیں لگتے ،وہ ایودھیا میں کارسیوا کے دوران زمین ہموار کرنے کی بات کرتے سنے جا سکتے ہیں۔ ایسی ہی ایک پرانی مثال ہے آسام کے نلی جہاں شدید قتل عام ہوا، آج جبکہ پورے ملک میں این آرسی کا مسئلہ گرم ہے، آسام میں 1983 میں اٹل بہاری واجپئی نے ایک متنازعہ اور اشتعال انگیز تقریر کی تھی۔اس تقریر میں انہوں نے کیا کچھ کہا تھا اسے آپ بی بی سی کی سائٹ پر سن سکتے ہیں ۔اس تقریر سے بی جے پی نے پلہ جھاڑ لیا، لیکن 28 مارچ 1996 کو عدم اعتماد کی تجویز پر بحث کے دوران اس وقت کے وزیر داخلہ اندرجیت گپت نے پارلیمنٹ میں واجپئی کی تقاریر کے حصے پڑھ کر سنائے جن میں مبینہ بنگلہ دیشیوں کو برداشت نہ کرنے اور ان کے ساتھ تشدد رویے کی باتیں کہی تھیں۔ ہندوتو کے سیاسی سفر میں کئی دہائیوں کے سفر میں اٹل بہاری واجپئی کی کردار خصوصی رہا ہے ۔آہستہ آہستہ خاموشی سے ہندوتو کے لیے زمین تیار کرنا واجپئی کے بغیر مشکل تھا، وہ 1996 سے 2004 تک تین بار ملک کے وزیر اعظم بنے، وہ پہلے غیر کانگریسی لیڈر تھے جنہوں نے پانچ سال کی مدت مکمل کی۔ واجپئی پارٹی کی سا  لمیت سے سواملک کے کروڑوں لوگوں کی محبت حاصل کرنے والے لیڈر تو ہیں ہی،علاوہ ازیں لوگوں نے اپنی محبت اس’’ مبینہ ‘‘سیکولر، سادہ اور کسی  سے نفرت نہ رکھنے والے لیڈر کو وقف کردیا، اس لیڈر کی سیاسی ’’مہارت‘‘ کچھ ایسی تھی کہ دو سیٹوں والی پارٹی کو اس نے اڈوانی کے ساتھ مل کر کانگریس کامتبادل بنادیا ۔یہ وہ وقت تھا جب آر ایس ایس کو اقتدار کا سایہ ملا، اس نے اپنی جڑیں مضبوط کیں، مشتعل اڈوانی ایک طرف تھے تو دوسری طرف استحکام دینے اور اتحاد مذہب کا حوالہ دے کراشتعال انگیزیوں کو روک تھام کرنے والے واجپئی۔آج نریندر مودی، ساکشی مہاراج اور گری راج سنگھ جیسے لوگوں سے اڈوانی والا کام لے لیتے ہیں اور اب دو چہروں کی ضرورت نہیں رہ گئی ہے۔واجپئی وہ مکھوٹا تھے جس کی ضرورت اب سنگھ کو نہیں ہے لیکن جب تھی تب وہ بہت کام آئے ۔