Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Wednesday, August 15, 2018

ایک سبق آموز تحریر

مولانا سید ابو الحسن علی ندوی رح نے سید سلیمان ندوی رح کے تذکرہ میں لکھا ہے کہ ندوہ میں ایک مرتبہ سٹرائک ہوئی جس کی قیادت علی احمد کیانی نام کا ایک طالب علم کر رہا تھا. مولانا کہتے ہیں کہ میں نے اپنے دس سالہ تدریسی دور میں اور اس کے بعد انتظام کے دور میں اس سے سے زیادہ ذہین، ذی استعداد اور سلیم الطبع طالب علم نہیں دیکھا.  عربی میں برجستہ تقریر کرتا تھا. ہزاروں اشعار زبانی یاد تھے. ان طلبہ کے ہنگاموں سے سید صاحب کے دل کو بڑی چوٹ لگی اور بہت دل شکستہ اور افسردہ ہوئے. انہیں دنوں علی احمد پر جنون کا دورہ پڑا اور حالت یہاں تک پہنچی کہ گھر والوں نے رسیوں سے باندھ دیا. ایک دن میں نے سید صاحب سے عرض کیا کہ میرا خیال ہے کہ علی احمد کی زبان سے آپ کے بارے میں کوئی لفظ نکل گیا، اس طوفان بدتمیزی میں بعید نہیں کہ اس پر جذباتیت غالب آ گئی ہو. حدیث میں آتا ہے کہ جس نے میرے ولی کو ایذا دی میرا اس کے خلاف اعلان جنگ ہے. سید صاحب نے جواب میں تواضع کے الفاظ فرمائے کہ میں کیا چیز ہوں. میں نے دوبارہ عرض کیا اور دعا کی درخواست کی. سید صاحب نے اس پر خاموشی اختیار کی. اب اس واقعہ کو سید صاحب کی کرامت کہیں یا کسی اور بات پر محمول کریں کہ عزیز موصوف بالکل اچھے ہو گئے.
‏. . . . . . .
مغربی دنیا میں اظہار رائے کی آزادی کی بات ایک اچھی قدر تھی لیکن یہ بات جب مرض کے درجے میں پہنچی تو انہیں پیغمبروں کے کارٹون بنانے میں بھی شرم نہیں آئی. ہماری روایت میں بزرگان دین اور مخلص للہ علما کے ادب و احترام کا پاس ہمیشہ ایک قابل تقلید قدر رہی ہے. فیس بک پر اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ اختلاف رائے کی آڑ میں کبھی ماضی کے فقہا و مفسرین، کبھی امام غزالی اور کبھی کوئی تختہ مشق بنتا ہے. کبھی حال کے مخلص داعی اور مدارس سے وابستہ شخصیات نشانہ بنتی ہیں اور یہ کچھ کسی علمی مسئلہ میں اختلاف سے زیادہ متکبرانہ اور خود پسندانہ انداز میں تحقیر و طنز کے رویے پر مبنی ہوتا ہے. یہ درست ہے کہ آج دین فروش لوگوں کی بھی کثرت ہے لیکن سب کو ایک لاٹھی سے ہانکنا قطعا غلط طرز ہے. اس طرز عمل کی نحوست دیکھتی آنکھوں نظر نہ بھی آئے جلد یا دیر سے ظاہر ضرور ہو کر رہتی ہے. اللہ کے ہاں قبولیت انسان کی دماغی تیزیوں پر موقوف نہیں بلکہ اوصاف عبدیت پر موقوف ہے اور اس شخصیت کی عبدیت مشکوک ہے اور مخلص للدین لوگوں کی دشمنی اور بغض دل میں پالے.
سید متین احمد