Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, August 16, 2018

یوم آزادی و مدارس اسلامیہ۔

  مدارس اسلامیہ کو یوم آزادی و یوم جمہوریہ کو کیسے منایا جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
از ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اتر پردیش کی صوبائی حکومت نے گزشتہ سال ایک نوٹیفیکیشن جاری کیا تھا جس میں تمام مدارس اسلامیہ
  اور دینی اداروں کو ہدایت کی تھی کہ ہر اداروں میں یوم آزادی کا پروگرام منعقد کیا جاے جھنڈا لہرایا جائے اور اس کی ویڈیو گرافی کی جائے ۔۔حالانکہ مسلم اداروں اور مدرسو میں ہمیشہ قومی تیوہار پندرہ اگست اور چھبیس جنوری کو اہمیت دی گئی ثفاقتی پروگرام بھی ہوتے رہے ۔ہمیں کسی کو یقین دلانے کی ضرورت نہیں ہے کہ ہم بھی محب وطن ہیں ۔۔مسلمانوں اور ان کے اداروں کو شک کی نگاہ سے دیکھنا آر ایس ایس و ہندو تنظیموں کی عادت سی ہو گئی ہے ۔مگر اس نوٹیفکیشن کا ایک اثر اتنا ضرور ہوا کہ سوشل میڈیا پر مدرسوں اور مکتب کے بیشمار ویڈیو وائرل ہو رہے ہیں جس میں پرچم کشائی ۔قومی ترانہ وثقافتی پروگرام دیکھائی دے رہے ہیں ۔حالانکہ سرکاری نوٹیفکیشن کی سوچ منفی ہے مگر ہم اس سوچ کو مثبت انداز میں بدل کر قدم اٹھائیں تو میرے خیال سے ایک بہت اچھا نتیجہ سامنے آسکتا ہے ۔
آزادی کے بعد کانگریس کے زمانے سے ہی تاریخ میں تبدیلی کا کام شروع ہو گیا تھا ۔ہندو مجاہد آزادی کو ہی ہیرو بنا کر پیش کیا جاتا رہا ہے ۔جہاں گاندھی ۔نہرو سردار پٹیل۔سبھاش ۔وغیرہ نام کلیدی طور پر لیا جاتا ہے وہیں پر کبھی کبھار مولانا آزاد کو بھی شامل کرلیتے ہیں ۔شہیدوں میں ایک اشفاق اللہ خاں اور آزادی کے بعد عبدالحمید و برگیڈیئر عثمان کے علاوہ جیسے ان لوگو کو اور کوئی مسلم شہید فوجی کا نام یاد ہی نہیں رہتا ۔ہر سر کاری اداروں ۔پرائمری سے لیکر انٹر ڈگری کالجوں و یونیورسٹیز تک یہی حالات ہیں جنگ آزادی میں مسلمانوں کی قربانیوں کو سرکاری سطح پر یکسر نظر انداز کر دیا گیا ہے ۔ہمارے تعلیمی ادارے بھی رسمی طور پر پرچم کشائی اور کھیل کود تک ہی رہ جاتے ہیں ۔
اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارے تعلیمی ادارے ۔گاؤں کے مکاتب و دینی مدارس اس بات کا معمول بنا لیں کہ اب یوم آزادی و یوم جمہوریہ کے موقع پر نصف دن کا پروگرام رکھیں اور جنگ آزادی میں ہموطن ہندو مجاہد آزادی وشہید آزادی کے ساتھ مسلمانوں کا آزادی میں کیا رول رہا ہے وہ ہم اپنے طلباء کو بتائیں جس سے ہماری نئی جنریشن تقریباً نا بلد ہے ۔ہمیں ان کو بتانا ہوگا کی جھانسی کی رانی کے علاوہ بنگال کے نواب سراج الدولہ نے اور ٹیپوسلطان نے بھی انگریزوں کے چھکے چھڑا ے تھے ۔ہمیں بتانا ہوگا کہ جلیانوالہ باغ کانڈ۔میں صرف ہندو ہی نہیں مسلمانوں نے بھی جام شہادت نوش کیا تھا ۔ہمارے علماء کرام کا آزادی کی لڑائی میں کیا رول تھا ۔شاہ اسماعیل شہید ۔پرفیسر برکت الله ۔مولانا محمد علی جوہر و علی برادران ۔شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ۔۔مولانا شوکت علی ۔۔ڈاکٹر سیف اللہ کچلو۔ڈاکٹر مختار انصاری ۔حکیم اجمل خان ۔مولانا قاسم ناناوتی۔سید احمد رائے بریلوی ۔شیخ الہند ۔مولانا عبیداللہ سندھی اور نہ جانے کتنے علماء کرام نے آزادی ہند کے لئے قید وبند کی صعوبتیں اٹھائے یہاں تک کی جام شہاد ت کو نوش کیا ۔آزادی ہند کو لیکر انگریزوں کے خلاف کئی فتوے جاری ہوئے یہاں تک کی جہاد کا فتویٰ جاری ہوا ۔کئی تنظیموں کا وجود ہوا جس کے قائد صرف مسلمان یا علماء کرام تھے ۔ترک موالات ۔کآمل آزادی کا مطالبہ ۔تحریک نمک سآزی۔تحریک ریشمی رومال ۔ایسی بہت ساری باتیں ہیں جنہیں ہمار بچے و طلباء نہیں جانتے ۔ہمیں بتانے کی ضرورت ہے ۔ہمیں یہ بھی بتانا ہے کہ ہمارے دینی اداروں کا کیا رول رہا ہے دار العلوم دیوبند کی خدمات کو فراموش نہیں کیا جآسکتا۔
آزاد ہندوستان کی قانون سازی سے لیکر میزائل بنانے تک مسلمانوں کا کیا رول رہا ہے ۔یہ سب بتانے کی ضرورت ہے ۔جب ہم اپنے اسلاف کی قربانیوں کے متعلق جان کاری رکھیں گے تو ایک تو یہ کہ ہم اس تاریخ کو اپنے سینوں میں رکھیں گے جسے تعصب کی بنا پر مٹانے کی کوشش ہو رہی ہے دوسر جب ہم اپنی تاریخ کے متعلق جانکاری رکھیں گے تو ان لوگوں کو جواب ملےگا کہ ہندوستان کس کا ہے اس کو آزاد کس نے کرایا اور کس کو اپنی دیش بھکتی کا ثبوت دینا ہوگا ۔شکریہ ۔
                                  صدائے وقت۔