Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Tuesday, August 7, 2018

باب سید سے باب قاسم تک۔


                 ( نازش ہما قاسمی)

*دارالعلوم دیوبند اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی دونوں ہی ہندوستان کے بڑے ادارے ہیں، جن حضرات نے ان دونوں اداروں کی بنیاد رکھی یہ انکے اخلاص کا نتیجہ ہیں، بلاشبہ بانی دارالعلوم حضرت مولانا محمد قاسم نانوتی اور بانی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سر سید احمد خان عظیم انسان تھے۔ مولانا مملوک علی علیہ الرحمہ کے دونوں شاگرد نے ہندوستانی مسلمانوں پر احسان عظیم کیا ہے۔ ایک نے دارالعلوم کی بنیاد رکھ کر ہندوستان میں اسلام کی نشاۃ ثانیہ کی ہے تو دوسرے نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی تعمیر کرکے مسلمانوں کو عصری علوم سے جوڑا ہے۔ ابتدائی مرحلے میں دونوں حضرات پر  طعن وتشنیع  کے تیر برسائے گئے، دونوں کے حوارین نے ایک دوسرے کو غلط قرار دینے کی بہت کوشش کی؛ لیکن رفتہ رفتہ دونوں کے قائم کردہ اداروں نے ہندوستانی مسلمانوں کی حقیقی رہنمائی کی۔ میں ۱۰؍جولائی کی رات کو جب علی گڑھ میں قائم مسلم یونیورسٹی کے باب سر سید پر پہنچا تو عقیدت واحترام سے نظر یں اس مرد درویش کو ڈھونڈنے لگیں کہ کیا یہی وہ ادارہ ہے جسے مرد آہن سرسید احمد خاں مرحوم نے قائم کیا تھا۔ وہاں میرے دوست جو کہ علیگ تھے انہوں نے مجھے ہاتھوں ہاتھ لیا اور ایک قاسمی ہونےکے باوجود بھی میری عزت وتوقیر کی اور رات کے تین بجے تک مجھے یونیورسٹی میں گھمایا اور سرسید مرحوم کے کارناموں سے واقف کرایا ۔ میں نے کبھی بھی علیگ اور قاسمی میں فرق نہیں کیا، ہمیشہ دونوں کو ایک سکے کے دورخ قرار دیتا ہوں ۔ جب علی گڑھ قائم ہوا تھا تو لوگوں نے کہا تھا کہ یہاں سے انگریزیوں کو سلامی دینے والے پیدا ہوں گے۔۔ابتدائی دور میں ایسا رہا ہوگا؛ لیکن اب وہاں کے پڑھنے والوں کو لوگ سلامی دے رہے ہیں؛ کیو ںکہ وہاں کےپڑھنے والے آئی پی ایس، آئی اے ایس اور دیگر عہدوں پر براجمان ہو رہے ہیں۔ میں نے وہاں کی علمی  شخصیتوں سے بھی ملاقات کی، راشد شاذ علیہ الرحمۃ سے بھی تفصیلی گفتگو ہوئی ۔ ان کے ذریعے جو "برج کورس"  قائم کیاگیا ہے جس میں مدارس اسلامیہ کے طلبہ کے لیے رہنما کورس موجود ہے، جس سے وہ عصری علوم حاصل کرسکتے ہیں؛ لیکن راشد شاذ علیہ الرحمہ کے افکار ونظریات علمائے دیوبند اور جمہور علماء سے متصادم ہیں، وہاں پڑھنے والے طلبہ وطالبات جو دینی علوم حاصل کرکے جاتے ہیں راشد شاذ کے نظریات کو اپنا کر اپنے دینی علوم کا بیڑہ غرق کررہے ہیں اگر وہ ان کے نظریات کو سننے کے بعد اس پر عمل کرنے کے بجائے اپنی تعلیم پر توجہ دیں اور پورے انہماک سے علی گڑھ کی روایت کے مطابق خود کو تعلیم کے سانچے میں ڈھال لیں تو شاید وہ  نہ بگڑیں۔ اپنے حلیے نہ بگاڑیں۔ بنات شمیم ڈانس کرنے پر مجبور نہ ہوں۔ بنت حوا بے پردگی کو نہ اپنائیں ۔وہاں کے طالب علموں کے لیے ضروری ہے کہ راشد شاذ جو ایک قابل انسان ہیں ان کی عزت وتکریم کریں؛ لیکن ان کے نظریات سے ہرگز متفق نہ ہوں۔ علی گڑھ میں میرا قیام دو دن تھا ان دو دنوں میں ہمارے میزبان ولی اللہ علیگ، دانش عرفان، عادل خان وغیرہم نے یونیورسٹی کا ایک تہائی حصہ بذریعہ بائیک گھمایا اس کے بعد ۱۳؍جولائی کو  مادر علمی دارالعلوم دیوبند کاسفر تھا، صبح سویرے ہی بذریعہ بس میں علی گڑھ کی محبتوں کو الوداع کہہ کر علی گڑھ بس اسٹاپ سے دیوبند کے لیے رخت سفر باندھا اوربہت تاخیر سے دیوبند پہنچا، دیوبند اس وقت پہنچا جب سورج اپنی تمازت بکھیرنے کے بعد نڈھال ہوچکا تھا اور غروب ہونے کے قریب تھا۔ باب انور سے داخل ہوتے ہوئے دارالعلوم وقف میں داخل ہوا اور پھر تھوڑی دیر کے بعد چمنستان قاسم جو کہ میرا مادر علمی بھی ہے وہاں گیا اور باب قاسم سے ایشیا کی عظیم علمی درسگاہ میں داخل ہوا جہاں ماضی میں دوران طالب علمی گزارے ہوئے شب وروز یکے بعد دیگر میری نظروں کے سامنے آگئے۔ وہی رونق، وہی چہچہاہٹ ، طالبان علوم نبویہ کاہجوم، مدنی گیٹ پر اعلان پڑھتے ہوئے طلبا، مسجد رشید سے مغرب کی نماز کے بعد نکلتے ہوئے طلبہ کے ہجوم نے  ایک بار پھر طالب علم بنادیا۔نودرے میں پہنچ کر ایسا محسوس ہوا کہ  امتحان قریب ہے اور میں بھی وقت ضائع کئے بغیر کتاب لیکر پڑھنے بیٹھ جاؤں، بڑی مشکل سے جذبات پر قابو پایا اور احاطہء مولسری کے نل سے پانی پی کر تجدید قاسمیت کرکے واپس آرام گاہ آگیا، احاطہء دارالعلوم دیوبند میں جو قلبی سکون ملا اسے حیطہء تحریر میں لانا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے. دوران طالب علمی میری خواہش تھی کہ میں فراغت کے بعد علی گڑھ کا سفر حصولِ علومِ عصریہ کے لیے  کروں؛ لیکن گھریلو حالات اور معاشی پریشانیوں نے اس کی اجازت نہیں دی۔ ہم مدارس میں پڑھنے والے بخوبی جانتے ہیں کہ علوم دینیہ جہاں ضروری ہے وہاں علوم عصریہ پر دسترس بھی حاصل کرنا بہترین معاش کے لیے لازم ہے ۔ یہی وجہ ہےکہ جدید فارغین  علی گڑھ، جامعہ ملیہ سمیت ملک کی دیگر یونیورسٹیوں کا رخ کررہے ہیں جو خوش آئند بات ہے۔ مسلمانوں کے ذہنوں سے اب یہ نکلتا جارہا ہے کہ مولوی وہ عہد رفتہ کی شخصیتیں جو مدرسے کی چہار دیواری میں محصور رہا کرتے تھے دنیا ومافیہا سے بے خبر نہیں رہ گیا؛ بلکہ اب ان کے ذہن میں مولوی وہ جو مدرسے کی چہار دیواری کے علاوہ یونیورسٹی کے دروازے تک پہنچتے ہیں اور وہاں سے تعلیم حاصل کرکے بیک وقت قاسمی، ڈاکٹر وپروفیسر ، آئی پی ایس و آئی اے ایس ہیں جو ملک کے دیگر شعبوں میں اونچے عہدوں پر براجمان ہیں اور قوم وملت کی خدمت کررہے ہیں۔ جدید تعلیم وقت کی ضرورت ہے  اور اسی کے پیش نظر مدارس اسلامیہ کے طلبا کا رجحان اس جانب بڑھا ہے اور وہ دونوں علوم پر دسترس حاصل کررہے ہیں؛ لیکن ایک بات دیکھنے میں آئی ہے کہ جوامام قاسم علیہ الرحمہ نے کہاتھا کہ ہم ایسی قوم بنا رہے ہیں جو شکل وصورت سے تو ہندوستانی ہوں گے لیکن شعائر سے اسلامی؛ لیکن وہ اسلامی تشخص دارالعلوم سے فراغت کے بعد یونیورسٹی میں داخل ہوتے وقت قائم نہیں رہتا۔ داڑھی جو کہ سنت نبوی ہے اس کا مذاق بنادیاجاتا ہے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ یونیورسٹی کے طلبا داڑھی رکھ رہے ہیں؛ لیکن مدرسے سے یونیورسٹی میں جانے والے اکثر طلبہ داڑھی سے محروم ہورہے ہیں- یونیورسٹی کی لڑکیاں تو پردہ کررہی ہیں لیکن جامعات سے جانے والی لڑکیاں بے پردگی کو اپنا رہی ہیں- ایسا نہ کریں، اپنے تشخص کو برقرار رکھیں یہی آپ کی خاصیت ہے اور آپ کے ادارے اور مذہب کی بھی شناخت ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صداۓوقت