Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, August 16, 2018

ایک اسپتال ایسا بھی ؟


تحریر۔
سید سعادت اللہ حسینی
نائب امیر جماعت اسلامی ہند
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
جماعت کے ایک ریاستی سطح کے اجلاس میں شرکت کے لئے ، اس ہفتہ بنگلور کا سفر ہوا۔مرکز سے ڈاکٹر محمد رفعت صاحب بھی ساتھ تھے۔ عصر بعد وقفہ میں ، ڈاکٹر طہ متین صاحب کی خواہش پرایچ بی ایس ہاسپٹل  کو دیکھنے کا موقع ملا۔میرے علم میں یہ بات تو تھی کہ یہاں اس طرح کا ایک ہاسپٹل چند سالوں سے چلایا جارہا ہے، لیکن ابھی تک اسے دیکھنے کا موقع نہیں ملا تھا۔  ہسپتال کادورہ کرکے اور اس کی سرگرمیوں کو اؤجان کر بے پناہ مسرت ہوئی۔ یہ محض ایک رفاہی ہسپتال نہیں ہے بلکہ کئی پہلووں سے ایک منفرد اور لائق تقلید تجربہ ہے اور امت مسلمہ کی بہت سی مثبت خصوصیات اور اس کےا ندر موجود امکانات potentials  کا زندہ ثبوت ہے۔
یہی مقصود فطرت ہے، یہی رمز مسلمانی     اخوت کی جہاں گیری، محبت کی فراوانی

بنگلور کے گنجان مسلم علاوہ شیواجی نگر میں بیس سال پہلے انجمن خدام المسلمین نے وقف کی اراضی پر ، رفاہی کاموں کے مقصد سے،ایک عمارت تعمیر کی تھی۔ چند سال پہلے  انجمن نے یہ عمارت ہسپتال کے قیام کے لئے ، شمع ٹرسٹ کے حوالہ کی اور ٹرسٹ نے یہاں ایک معیاری 130 بیڈ ہاسپٹل, ایچ بی ایس ہاسپٹل کے نام سےقائم کیا۔ شمع ٹرسٹ کے ٹرسٹیوں میں حلقہ کرناٹک کے ارکان شوریٰ ڈاکٹر طہ متین، ڈاکٹر سعد بلگامی اور جناب سید تنویر احمد  شامل ہیں۔ ان تینوں کے علاوہ چار اور ٹرسٹی بھی ہیں۔ ڈاکٹر طٰہ متین صاحب جو، امریکن بورڈ کے سند یافتہ شہر کے ایک معروف فزیشین بھی ہیں اور انگریزی داں طبقہ میں قرآن فہمی کی تحریک کے سلسلہ میں  اپنی کوششوں کے لئے معروف خادم قرآن اور مقرر و مدرس اورجماعت کے حلقہ کرناٹک کے سکریٹری بھی ہیں ، وہ اس ہسپتال کے مینیجنگ ڈائرکٹر ہیں اور بڑی مستعدی اور جانفشانی کے ساتھ ، اس کے نظم و انتظام میں مصروف ہیں۔
ہسپتال میں جانے کے بعد ہمیں اس کی کارگردگی سے متعلق اعداد و شمار جان کر نہایت مسرت بخش حیرت ہوئی۔ پچیس ماہر ڈاکٹروں، ایک سو پچہتر دیگر اسٹاف ارکان،  اور پرائمری، سیکنڈری اور بعض ٹرٹری کیر سروسوں کے ساتھ یہ ایک  معیاری ہسپتال ہے۔ سالانہ پچہتر ہزار مریضوں کا علاج ہوتا ہے اور پانچ سو کے لگ بھگ آپریشن ہوتے ہیں۔دیگر اہم شعبوں، آئی سی یو ، ترقی یافتہ آپریشن تھیٹر وغیرہ کے علاوہ اس  ہسپتا ل کی اہم خصوصیت اس کا ڈائیلاسس سینٹر ہے۔  ماہانہ تین ہزار (سالانہ تقریبا پینتیس ہزار)سے زیادہ ڈائلاسس ہوتے ہیں۔ جو لوگ اس کا خرچ برداشت کرسکتے ہیں ان سے فی ڈائلاسس چھ سو روپیے لئے جاتے ہیں، جو بہت کم فیس ہےاور صرف ان اخراجات کا احاطہ کرتی ہے جو ڈائلاسس سے متعلق  راست دواوں وغیرہ  پر ہوتے ہیں۔ نصف سے زیادہ غریب مریض یہ  فیس بھی ادا نہیں کرپاتے ، ان کا بالکل مفت ڈائیلاسس کیا جاتا ہے۔
استاذ مصطفی سباعی  نے اپنی کتاب’  من روائع حضارتنا‘ (اردو ترجمہ:’اسلامی تہذیب کے چند درخشاں پہلو‘) میں اسلامی دور کے شفا خانوں کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ان ہسپتالوں میں نہ صرف زیر علاج مریضوں کو مفت علاج اور قیام و طعام کی سہولت میسر ہوتی بلکہ ، اگر مریض اکیلا کمانے والا ہوتا تو اس کے گھر والوں کی کفالت اور علاج کے بعد اس کے روزگار کا انتظام بھی ہسپتال کرتا۔
آج ایج بی ایس ہسپتال میں اسلامی تہذیب کےاس حسن کا دلنشین نظارہ سامنے آیا۔ ہمیں بتایا گیا کہ تمام مریضوں کو کھانا مفت فراہم کیا جاتا ہے۔ غریب مریض جو دور دراز کے علاقوں سے  آتے ہیں ، ان کو آنے جانے کا کرایہ بھی فراہم کیا جاتا ہے۔ جو مریض ضرورت مند ہوں ، ان کے گھروں کو راشن بھی فراہم کیا جاتا ہے۔غریبوں کو دوائیں مفت ملتی ہیں۔ جبکہ عام لوگوں کو بھی بھاری سبسڈی پر دوائیں میسر آتی ہیں۔مثلاً Erythropoietin 10000 units  کی قیمت ساڑھے تین ہزار روپیے ہے جو ہسپتال کی فارمیسی میں صرف ساڑھے تین سو روپے میں مل جاتی ہے۔ڈاکٹر متین صاحب نے ہیپاٹیسس سی انفیکشن کی دوا کا ذکر کیا ۔ یہ انفیکشن ڈائیلاسس کے مریضوں میں عام ہے اور اگر یہ دوا نہ ملے تو جان لیوا ہوجاتا ہے۔ اس دوا کی ایک خوراک کی اصل قیمت ایک ہزار ڈالر یعنی ستر ہزار روپیے ہے۔ تیس خوراکیں دینی پڑتی ہیں۔ ہسپتال میں یہ بیش قیمت علاج بھی اس سال تقریبا ۶۵ مریضوں کا  بالکل مفت ہوچکا ہے۔
ڈائیلاسس پر منحصر کئی مریضوں کو ہسپتا ل ہی میں روزگار بھی فراہم کردیا گیا ہے۔لفٹ مین سے لے کر استقبالیہ کاونٹر تک اور اکاونٹس اور ایڈمن سیکشن میں ، ہر جگہ ایسے مردو عورت  اسٹاف ممبرز ملے جو یہاں ڈائلاسس کے لئے آئے تھے ۔ اب یہاں ان کا باقاعدہ ڈائیلاسس بھی ہوتا ہے اور ہسپتال ہی میں ان کو روزگار بھی میسر ہے۔کئی عمر غریب  بچے ، نوجوان لڑکے لڑکیاں ، گردوں کی ناکامی کی اس حوصلہ شکن صورت حال سے دوچار ہیں۔ اس ہسپتال نے ان کے اندر زندگی کی نئی امنگ اور حوصلہ جگادیا ہے۔
ڈاکٹر طہ متین کے ساتھ ہم نے ہسپتا ل کے مختلف وارڈوں کا چکر لگایا۔ ڈائیلاسس کے بھی کئی وارڈ ہیں۔ ایک وارڈ عام مریضوں  کے لئے، ایک ان لوگوں کے لئے جو انفیکشن کا شکار ہیں، ایک ان لوگوں کے لئے جن کا انفیکشن کا علاج مکمل ہوگیا اور اب طبی نگرانی میں ہیں۔ وغیرہ۔ ڈائیلاسس کے علاوہ دیگر وارڈز اور آئی سی یو بھی ہیں۔مریضوںمیں، ہندو ، مسلم ، بوڑھے، جوان، بچے سب شامل تھے۔ نوجوان مریضوں کی بھی خاصی تعداد تھی۔ان کی نظروں میں ڈاکٹر متین  اور دیگر منتظمینِ ہسپتال کے لئے جو احسان مندی جھلک رہی تھی (جو یقینا ً دل کی گہرائیوں سے نکلنے والی دعاوں پر منتج ہوتی ہوگی)وہ بلاشبہ لاکھوں کی فیس پر بھاری ہے۔ غریب مریضوں کے علاوہ خوشحال مریض بھی زیر علاج ہیں جو اس بات کی علامت ہے کہ ہسپتال ایک معیاری ہسپتال ہے۔ آئی سی یو میں کرناٹک کے امیر شریعت اور معروف عالم دین مولانا  صغیر احمد  صاحب بھی زیر علاج تھے۔ ان سے بھی مختصر ملاقات ہوئی۔
ہسپتال یہ ساری خدمات بلاتفریق مذہب و ملت تمام غریب مریضوں کو فراہم کررہا ہے۔اطراف و اکناف کے علاوہ، آندھرا پردیش، تمل ناڈو بلکہ بہار و بنگال جیسی دوردراز ریاستوں سے بھی مریض یہاں علاج کے لئے آرہے ہیں۔
یہ سب تفصیلات سننے کے بعد فطری طور پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اتنی ساری مفت یا رعایتی خدمات کے لئے درکار خطیر سرمایہ کہاں سے آتا ہے؟ اس کے جواب نے ہم کو نہایت خوشگوار حیرت سے دوچار کردیا ۔ بنگلور کے مسلمان ، مل جل کر نہایت خوش اسلوبی کے ساتھ درکار رقوم فراہم کررہے ہیں۔ شہر کی بڑی بڑی مسجدیں، جن میں دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث ، تمام مکاتب فکر کی  مسجدیں شامل ہیں، وہ  مریضوں کے لئے متعین رقوم فراہم کرتی ہیں۔ نوجوانوں کے ادارے، تاجروں کی انجمنیں، آئی ٹی پروفیشنلز کے غیر رسمی گروپ ، خانہ دار خواتین کے گروپ، ہاوسنگ سوسائٹیاں، یہ سب بھی بڑھ چڑھ کر اس کارِ خیر میں حصہ لیتے ہیں ۔ صاحب ثروت مسلمان اپنے خاندان کے ساتھ ہسپتا ل کے دورے کرتے ہیں اور مریضوں کی بہت سی ضرورتوں کی تکمیل کردیتے ہیں۔ ڈاکٹر متین صاحب نے بتایا کہ مریضوں کی ضرورت کے لئے فنڈ حاصل کرنے کی خاطر کسی کو بھی کوئی خاص کوشش نہیں کرنی پڑتی۔۔ ہاسپٹل کی نہ ویب سائٹ ہے نہ کوئی فولڈر، ڈونیشن کے لئے ایک فون کال بھی نہیں کی جاتی بلکہ ڈونرز کو شکریہ کا خط بھی نہیں لکھاجاتا۔ لوگ خود کام کو  دیکھ کر اور ایک دوسرے سے (ماوتھ پبلسٹی) سن کرباقاعدہ، اپائنٹمنٹ لے کر آتے ہیں۔ انتظار کرکے ملاقات کرتے ہیں اور اسپانسر کرکے لوٹتے ہیں۔ امیر حلقہ نے بتایا کہ ایک ایسا غریب آدمی بھی ہے جو سائیکل پر پھیری لگاکر تجارت کاکام کرتا ہے۔ وہ ہر ماہ ایک مریض کا ڈائیلاسس کا خرچ یعنی چھ سو روپے ، پابندی سے ادا کرتا ہے۔
یہ سب منتظمین ، پروموٹرز اور اسٹاف کے خلوص کا نتیجہ ہے۔ ڈاکٹر ظفر الحق ، ڈائیلاسس کے شعبہ کے انچارج ہیں۔ ریٹائرمنٹ کے بعد معمولی اعزازیہ پر، رات دن مریضوں کی خدمت میں مصروف ہیں۔ ان پر نظر پڑتے ہی مریضوں کی آنکھیں چمک اٹھتی ہیں۔ متین صاحب نے بتایا کہ ہسپتال کے سارے اسٹاف میں وہ یہی جذبہ اور اسپرٹ پیدا کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔
ایچ بی ایس ہاسپٹل، اسلام کی انسان نوازی اور مسلمانوں کے جذبہ خیر کی عملی شہادت ہے اور اُس برکت کا بھی زندہ نمونہ ہے جو اللہ تعالی ان   کا موں میں عطا فرماتا ہے جو مسلمان ، مسلک  اور فرقہ کے تفرقات سے بالاتر ہوکر ، اتحاد و اتفاق کے ساتھ انجام دیتے ہیں۔ یہ اس بات کی بھی دلیل ہے کہ اگر اعلی تعلیم اور پیشہ وارانہ صلاحیتوں سے آراستہ مخلص افراد ، بے لوث خدمات کے لئے آگے بڑھتے ہیں تو وسائل کبھی رکاوٹ نہیں بنتے۔ بڑے سے بڑے کام بھی نہایت  آسانی سے انجام پا جاتے ہیں۔یہ امت اپنے جذبہ خیر کے اعتبار سے آج بھی انسانیت کا ممتاز ترین گروہ ہے۔ بس اس جذبہ خیر کو صحیح رخ پر بروئے کار لانے کی ضرورت ہے۔مسلمان کے لہو میں ہے سلیقہ دلنوازی کا
ملک کی موجودہ فضا میں، اس بات کی ضرورت ہر جگہ ہے کہ اہل ملک کے سامنے مسلمانوں کی یہ انسانیت دوست تصویر آئے۔صرف تقریروں اور دعووں کے ذریعہ نہیں  بلکہ ایسے عملی نمونوں کےذریعہ، انسانیت کے لئے ان ےے کنٹری بیوشن کے ذریعہ۔ انسانیت اور اہل ملک کے سچے خیر خواہ کی حیثیت سے ان کی شناخت بنے۔ اللہ کے ہر پیغمبر کی اُن کی قوم میں یہی شناخت تھی۔اُن کی یہ شناخت دعوت کی پہلی صدا بلند ہونے سے پہلے بن چکی تھی۔  یہ شناخت دعوت دین کی بھی ایک اہم ضرورت ہے۔
اللہ تعالی  اس منصوبہ کے منصوبہ سازوں اور اس کو چلانے والوں کو اجر عظیم عطا فرمائے۔ اسے خوب ترقی عطا فرمائے۔ آمین