Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Wednesday, August 8, 2018

آسام این آر سی مودی و امت شاہ آگ سے کھیل رہے ہیں۔

شیکھرگپتا(چیئرمین و ایڈیٹراِن چیف دی پرنٹ، سابق ایڈیٹران چیف روزنامہ انڈین ایکسپریس)
میں آپ کو35؍سال قبل آسام کے نیلی میں ہونے والے قتلِ عام کی کہانیاں نہیں سناؤں گا،کہ وہ ہماری قومی سیاسی کہانیوں کا حصہ بن چکی ہیں، البتہ میں آپ کو آسام ہی کے چند غیر مانوس مقامات کھوئراباری(Khoirabari)گوہ پور(Gohpur) اور سپاجھار(Sipajhar) کی کہانیاں سناتا ہوں،فی الحال،جبکہ قومی سطح پر آسام میں قومی شہری رجسٹریشن(این آرسی)کے معاملے پر نہایت ہی پولرائزنگ مباحثے ہورہے ہیں،برہم پتر ندی کے شمالی کنارے پر واقع ان مقامات اور وہاں رونما ہونے والے حادثات کو ایک بار ضرور یاد کرلینا چاہیے۔
1983ء میں وادیِ برہم پتر میں ہونے والے قتلِ عام میں لگ بھگ سات ہزار لوگ مارے گئے تھے،ان میں سے تین ہزارسے کچھ زائد تووہ مسلمان تھے،جنھیں 18؍فروری کی صبح کوچند گھنٹوں کے اندر مارکر دریاے نیلی میں بہادیاگیا تھا،جبکہ باقی مختلف مقامات میں بکھرے ہوئے تھے ، ان میں سے بھی زیادہ تر مسلمان ہی تھے اورمذکورہ بالاتین مقامات پرجو قتلِ عام ہوا ،اس میں مارنے والے بھی ہندوتھے اور مرنے والے بھی ہندوہی تھے۔
ایسے میں یہ سوال پیدا ہونا یقینی ہے کہ اگر لوگوں میں غصہ ’’باہری‘‘(مسلمانوں)کے خلاف تھا،توپھر ہندوہندووں ہی کوکیوں ماررہے تھے؟بہت سی دوسری چیزوں کی طرح شمال مشرقی ہندوستان کایہ بھی ایک پیچیدہ پہلو ہے،ہم اس کی تہوں میں نہیں جانا چاہتے۔قابلِ ذکریہ ہے کہ جو لوگ مارنے والے تھے،وہ آسامی بولنے والے تھے اور وہ جن کو ماررہے تھے،وہ بنگالی بولنے والے تھے،لسانی و نسلی منافرت فرقہ وارانہ فساد کی مانند خوں آشام ہوگئی تھی ،جہاں ایک طبقے کے لوگوں میں دواسباب پائے جارہے تھے،یعنی وہ بنگالی بھی تھے اور مسلمان بھی،تووہاں بھی کہانی صاف تھی کہ آسامی ہندووں نے انھیں قتل کیا، ہر شخص کا ہاتھ دوسرے کی گردن پرتھا،اِن دنوں بی جے پی اور سپریم کورٹ نے اُسی خطرناک کاک ٹیل کوہوادے دی ہے۔
چارملین لوگ این آرسی کے فائنل ڈرافٹ میں شامل ہونے سے رہ گئے ہیں اور ان کے بارے میں بی جے پی حکمراں پارٹی کی حیثیت سے کچھ بات کررہی ہے اور بحیثیت سیاسی پارٹی کے کچھ بات کررہی ہے؛چنانچہ وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ نے کہاہے کہ یہ ایک عارضی ڈرافٹ ہے اور کسی کو گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے،جبکہ بی جے پی کے سربراہ امیت شاہ نے اندراج سے رہ جانے والے چالیس لاکھ لوگوں کو صاف طورپر ’’گھس پیٹھیا‘‘قراردیاہے،اب اگر آپ کانام اس لسٹ میں نہیں ہے،توکیسامحسوس کریں گے؟یقینی طورپر آپ کوایسا لگے گاکہ آپ کو ٹارگیٹ کیاجارہاہے۔
اس کے بعد آسام کے وزیر خزانہ(حقیقتاً وزیر اعلیٰ)ہیمنت بسواشرمانے کہاکہ ان میں سے ایک تہائی ہندوہیں اور بی جے پی کے پاس اس مسئلے کابھی ممکنہ حل پہلے سے موجودہے اور وہ ہے سٹیزن شپ کا نیامتوقع قانون،جس کے تحت حکومت پڑوسی ممالک سے آنے والے ہندووں اور سکھوں کوہندوستان میں بسانا چاہتی ہے،ویسے اگر یہ قانون پاس بھی ہوگیا،تویہ دیکھنے لائق ہوگاکہ اصل آسامی باشندے اس پر کس قسم کے ردِعمل کا اظہار کرتے ہیں،ابھی آپ نے پڑھاکہ 1983ء میں انھوں نے بنگالی ہندووں اور مسلمانوں کواپنے یہاں برداشت نہیں کیا،تودوسرے ملک کے لوگوں کواپنی زمین وہ کیسے دے سکتے ہیں؟چنانچہ سابق وزیر اعلیٰ،آسام گن پریشدکے چیئر مین اور بی جے پی کے اتحادی پرفل کمار مہنت نے پہلے ہی اس متوقع قانون سے اپنا عدمِ اتفاق ظاہر کردیاہے۔تمام قیاسات و امکانات اس جانب اشارہ کررہے ہیں کہ آخری اور حتمی لسٹ میں بھی کم ازکم پانچ لاکھ ایسے لوگ بچ جائیں گے، جن کا نام اندراج ہونے سے رہ جائے گااوراس طرح کے کاموں میں ایسا ہونایقینی ہے ،اس پر قابو نہیں پایاجاسکتا۔
گوہاٹی ہائی کورٹ نے اپنی ’’دیدہ وری‘‘کا مظاہرہ کرتے ہوئے آسامی النسل طبقے کے اس مطالبے کو تسلیم کرلیا کہ گرام پنچایت کے ذریعے لوگوں کو جوشہریت کے سرٹیفکیٹس دیے جاتے ہیں،انھیں تسلیم نہ کیاجائے ،اب کوئی یہ بتائے کہ یہ بے چارے غریب اور دیہاتوں میں رہنے والے لاکھوں لوگ آدھارکارڈسے پہلے کے زمانے کاکوئی دوسراشناخت نامہ کہاں سے لائیں گے؟ریاستی حکومت نے بھی کورٹ کے اس غیر معقول فیصلے کے خلاف اپیل دائر نہیں کی،گویایہ مذاق کی انتہاہے۔کسی دوسرے بندے نے اس معاملے پر سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا،سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کے فیصلے کوتوخارج کردیا،مگر ساتھ ہی اسے یہ ہدایت دے دی کہ ہائی کورٹ اس سلسلے میں کوئی دستور اور اصول بنائے کہ سٹیزن شپ کے حوالے سے کونساپنچایت سرٹیفکٹ قابلِ قبول ہوگا،اس معاملے میں کنفیوژن برقرارہی تھاکہ سپریم کورٹ نے این آرسی تیار کرنے کابھی حکم دے دیا،پنچایت سرٹیفکٹ کے سلسلے میں اگر معقول نقطۂ نظراختیار کیاجاتاہے،توکوئی بھی ’’باہری‘‘باقی نہیں رہے گااور بی جے پی ایسا کبھی نہیں چاہے گی۔
ّٖسپریم کورٹ نے1985ء میں راجیوگاندھی اور آسام سٹوڈینٹ یونین؍آسام گن پریشدکے مابین ہونے والے امن معاہدے کو سامنے رکھتے ہوئے اقدام کیاہے،جس کے مطابق 25؍مارچ1971ء کی تاریخ آسام میں شہریت کے لیے حدِ فاصل ہے،جس کے معنی یہ ہیں کہ جو شخص مذکورہ تاریخ سے پہلے آسام میں آیاہو،وہ قانونی شہری ماناجائے گا،اس کی بنیاد اندرا۔مجیب معاہدے پر تھی،جس کے مطابق بنگلہ دیش ہندوستان میں پناہ گزیں اپنے تقریباً ایک کروڑ شہریوں کو واپس لینے پرآمادہ ہوگیاتھا،ان میں سے اسی(80)فیصدتوصرف ہندوتھے،اندراگاندھی کا موقف یہ تھاکہ ہندو؍مسلم سارے بنگلہ دیشی اپنے ملک بھیجے جائیں۔33؍سال قبل1985ء میں اسی معاہدے کو پیشِ نظر رکھ کر راجیوگاندھی نے آسام کے مزاحمتی گروپس سے این آرسی کا وعدہ کرتے ہوئے معاہدہ کیاتھا،مگر مختلف اسباب کی بناپر اب تک اس کی تشکیل نہ ہوسکی اور اس دوران آسام میں دومزیدنسلیں وجودمیں آچکی ہیں،کیااب آپ انھیں ہندوستان سے باہر یاشہری حقوق سے محروم کرسکتے ہیں؟بی جے پی کوبھی پتاہے کہ ایسا نہیں ہوسکتا۔
اگر کوئی بی جے پی لیڈریہ کہتاہے کہ اس موضوع پر سیاست نہیں ہونی چاہیے،تواس سے پوچھیے کہ کیااس نے پارٹی کے سربراہ امیت شاہ کی تقریر نہیں سنی؟جس شفافیت کے ساتھ انھوں نے2019ء کے لیے انتخابی مہم کی شروعات کی ہے،اس پر انھیں فل نمبرملنا چاہیے،چوں کہ اب لفظِ ’’وکاس‘‘ میں وہ کشش نہیں رہ گئی کہ ووٹروں کو لبھاسکے؛اس لیے دوسری بار حکومت میں آنے کے لیے’’نیشنلسٹ‘‘پولرائزیشن ہی بی جے پی کے لیے کامیابی کا ذریعہ ثابت ہوسکتاہے اورآسام کا مسئلہ الیکشن تک تروتازہ رہنے والا ہے،بی جے پی لاکھوں لوگوں کوکھلے عام ’’گھس پیٹھیا‘‘قراردیتی رہے گی اورتعریضاً اس کا اطلاق ملک بھر کے تمام بنگالی النسل مسلمانوں پر کرے گی۔
یہ ایشوایساہے کہ اگر سیکولر اپوزیشن یا بائیں محاذنے متاثرین کا دفاع کرنے کی کوشش کی،توبی جے پی کی طرف سے فوری طورپریہ الزام لگایاجائے گاکہ وہ ملک کی سالمیت کے لیے خطرناک’’گھس پیٹھیوں‘‘کی حمایت کررہے ہیں اوراس طرح بی جے پی انتخابی سیاست میں بھر پورمرکزیت حاصل کرسکتی ہے۔اس موضوع کا ذیلی مضمون یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اپوزیشن(جوان لاکھوں لوگوں کی حمایت کرتاہو)مسلم دوست اور وطن دشمن ہے۔ کانگریس یقیناًبی جے پی کی اس چال ؍جال کو دیکھ اور محسوس کررہی ہوگی،مگر اس کے پاس اس کا کوئی جواب نظر نہیں آرہا،یہ طے ہے کہ اگرآسام میں2019ء کا الیکشن مسلمانوں کی حمایت یا مسلمانوں کی مخالفت میں ہوا،توبی جے پی کا بیڑاپارہے اور اس کے اثرات ملک کے دوسرے حصوں میں بھی یقیناً محسوس کیے جائیں گے؛یہی وجہ ہے کہ آسام امیت شاہ کے لیے شکاری کتے کوکام پر لگانے والی سیٹی جیساہے،جس کے ذریعے وہ پورے ملک کے نام نہاد’’قوم پرستوں‘‘کوسیکولرطبقہ کے خلاف برانگیختہ کرنا چاہتے ہیں۔امیت شاہ اور بی جے پی کواپنی انتخابی سیاست کاکامل ادراک ہے،مگر کیاوہ آسام کوجانتے ہیں؟
اس سوال کو سمجھانے کے لیے میں آپ کو35؍سال پیچھے گوہاٹی کے نندن ہوٹل کے اپنے چھوٹے سے روم میں لیے چلتاہوں،وہاں چارلوگ مجھ سے ملنے آئے،جوپاورفل،مگر متواضع لگ رہے تھے،وہ کچھ حیرت زدہ بھی تھے،ان کے سربراہ کے ایس سدرشن تھے،جو اس وقت آر ایس ایس کے’’بودھک پرمکھ‘‘(فکری سربراہ)تھے اوربعدمیں ’’سرسنگھ چالک‘‘بنے،جبکہ بقیہ تین افرادآرایس ایس میں شمال مشرقی ہندوستان کے’’ماہر‘‘سمجھے جاتے تھے(وہ فی الحال بی جے پی اور آرایس ایس میں بڑے عہدوں پرفائزہیں)،وہ میرے پاس اس لیے آئے تھے کہ میں یہ پتالگاؤں کہ ان دنوں آسام میں ہونے والے فسادات کے دوران بنگالی ہندوکیسے مارے گئے تھے؟آسامی’’ مسلم گھس پیٹھیوں اور ہندوپناہ گزینوں میں فرق کیوں نہیں کرپائے؟‘‘سدرشن نے مجھ سے پوچھاکہ’’انھوں نے کھوئراباری میں اتنے سارے ہندووں کو کیسے ماردیا؟‘‘تومیں نے ان کے سامنے آسام کی ان لسانی و نسلی پیچیدگیوں کی توضیح کی،جن کی وجہ سے وہ فسادایک ’’جمہوری قتلِ عام‘‘میں بدل گیاتھا۔سدرشن نے کہا’’مگر ہندوتوغیر محفوظ ہیں!‘‘۔
یہ گفتگوتفصیل سے میری کتابAssam: A Valley Divided(صفحات:121-22)میں محفوظ ہے،آرایس ایس نے اس کے بعد آسامی مزاحمت کاروں کے لیے نئے سرے سے تربیتی مہم چلائی اور جیساکہ میں اپنے کالمWritings On The Wall میں لکھ چکاہوں آسام میں گزشتہ اسمبلی الیکشن میں بی جے پی کوحاصل ہونے والی کامیابی اسی طویل تربیتی مہم کا نتیجہ تھا،اس وقت آسام میں سابقAASUلیڈرز،جنھوں نے بعد میں آسام گن پریشدمیں شمولیت اختیار کرلی تھی،وہ تمام بی جے پی کاحصہ ہیں اوران میں آسامی وزیر اعلیٰ اوران کے غیر معمولی پاورفل کولیگ بھی ہیں۔
مگرجیساکہ1983ء میں جوانی میں انھوں نے کیاتھا،اب بڑھاپے میں بھی انھیں آرایس ایس؍بی جے پی کے اس حکم’’بنگالی مسلمانوں کو نشانہ بناؤاور ہندووں کو قبول کرو‘‘کی تعمیل کے لیے جدوجہد کرنی پڑے گی،بی جے پی نے آسام کو2019ء کے الیکشن میں کامیابی کی کلیدکے طورپر استعمال کرنے کا فیصلہ کرلیاہے،نوٹ بندی کے فیصلے سے ہم سمجھ سکتے ہیں کہ’’شاہ۔مودی‘‘کی جوڑی بڑا سے بڑا رسک لے سکتی ہے،البتہ سیاسی مفادکے لیے اقتصادی خسارے کا رسک لیناایک چیزہے،جبکہ اسی مقصد کے لیے پیچیدہ ترآسام میں پرانی آگ کوہوادینادوسری چیزہے،ممکن ہے کہ ماحول پرامن رہے؛لیکن اگر ایسانہیں رہا،توپھرہندوبنام مسلم،آسامی بنام بنگالی(ہندوہویامسلم)ہندوبنام ہندواور مسلم بنام مسلم خوں ریزی کا وحشت ناک سلسلہ شروع ہوجائے گا۔

ترجمانی:نایاب حسن