Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Friday, August 10, 2018

دیوبند سیمینار ، ایک تفصیلی و واقعاتی تجزیہ۔

#قصہ_سیمینار_کی_پیشگی_مقبولیت_کا
دیوبند میں متوقع سیمینار پر  ہنگامہ :
ایک  تفصیلی اور واقعاتی تجزیہ
ایک عہد ساز خاندان کی رجال ساز شخصیت، ایک بے لوث خانوادے کی بے نظیر شخصیت، ایک چشمۂ نورانی کے روحانی قاسم، ایک عہد ولی کے ربانی سپاہی، ایک لفظ محبت کے  مظلوم زمانی، خطیب الاسلام حضرت مولانا محمد سالم قاسمی ؒ تعالٰی کی حیات، حیاتِ جاویداں کہی جانے کی مستحق ہے اور اس پر دنیائے علم و عرفان کا اجماع بھی ہے
ان جیسی ہستیوں کا وجود باعث رحمت ہی تھا، باعث اخوت و مودت ہی تھا، آپکی شخصیت ان چند بینظیر ہستیوں میں شمار ہوتی ہے، جنہوں نے دنیا بھر کے مال و متاع، منصب و مینار ٹھکرا کر صرف اور صرف اتحاد، اتفاق، پیار، محبت اور شفقت کو اوڑھنا بچھونا بنایا، آپ کی شخصیت جامع اور باکمال منتظم تھے، مدبرانہ صفات کے حامل قائد تھے، دوراندیش مبصر تھے، جب تک زندہ تھے نویدِ علم و عرفاں تھے عروج عہد رفتہ تھے، سب سے بڑھ کر وہ سب کچھ تیاگ کر، ہر طرح کی قربانی دے کر سب کو ساتھ لے کر چلنے والے لیڈر تھے ۔
آمدم برسر مطلب
جیساکہ اہل علم کا اجماعی تعامل رہا ہیکہ ، وہ  بعد از مرگ اپنے نمونہ صفت اعیان کی فکروں اور ان کی خدمات کو یاد کرنے کے لیے، ان سے نسل نو کو وابستہ رکھنے کے لیے ہمیشہ سے مختلف طرز پر نشستیں منعقد کرتے رہےہیں، خاص طور پر علماء دیوبند کا یہ مشرب رہاہے کہ اعیان علما کے لیے یادگاری  قرارداد پاس کی جاتی رہی ہیں، چنانچہ دارالعلوم دیوبند کے متفقہ ترجمان، حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری طیب صاحب ؒ،  جن کی روحانی و ربانی چھاؤں تلے  دارالعلوم دیوبند کی  ساٹھ سال مسلسل آبیاری ہوئی، آپ نے حضرت علامہ انور شاہ کشمیری ؒ کے لیے منعقدہ سیمینار میں شرکت فرما کر اس پر مشرب دیوبند کی مہر ثبت کی ہے، ظاہر ہے حضرت قاری صاحب ؒ سے بڑھ کر کوئی بھی مشرب دیوبندیت کا نبض شناس نہیں گذرا ہے ۔
اس کے علاوہ بھی مشرب دیوبند کے کبار علما کا اس پر مستقل تعامل رہا ہے ۔
حضرت فدائے ملت کی وفات پر تو خود دیوبند میں اجلاس منعقد ہوا تھا، اسی طرح پڑوس کے کبار علماء دیوبند خاص طور پر مفتئ اعظم پاکستان حضرت مفتی رفیع عثمانی مدظلہ اور حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب نے ماضی قریب میں " شیخ الہند سیمینار میں شرکت فرمائی تھی، اس کے علاوہ دارالعلوم دیوبند کے سابق مہتمم حضرت مولانا مرغوب الرحمٰن صاحب ؒ کی وفات پر دارالعلوم ہی میں اجلاس منعقد ہوا اور اس میں دارالعلوم کے بڑے اساتذہ شریک ہوئے، دارالعلوم کے معروف مدرس حضرت مولانا عبدالرحیم بستوی ؒ کی وفات پر اجلاس منعقد ہوا اور اس میں حضرت مولانا ریاست علی بجنوری ؒ نے شرکت فرمائی، حضرت مولانا ریاست علی بجنوری صاحب ؒ کی وفات پر جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے منعقدہ تعزیتی اجلاس میں مہتمم دارالعلوم دیوبند مفتی ابوالقاسم نعمانی صاحب حال ہی میں شریک ہوچکےہیں، اس کے علاوہ دارالعلوم دیوبند کے موجودہ شیخ الحدیث حضرت مفتی سعید صاحب پالنپوری مدظلہ کے متعلق واقف کاران بتلاتے ہیں کہ جب دارالعلوم کے مایہ ناز ستون حضرت مولانا غلام رسول خاموش ؒ کی وفات ہوئی تو حضرت مفتی سعید صاحب نے درسگاہ میں ان کے متعلق تقریباﹰ ایک گھنٹہ تقریر فرمائی، ظاہر یہ یا تو تعزیتی نوعیت کی ہوگی یا سیمیناری ہوگی، اس کے علاوہ جمعیۃ علماء ہند کا اپنے ابتدائی عہد سے یہ تعامل ہیکہ، ہر اجلاس میں تعزیتی قرارداد پیش کی جاتی رہی ہیں، حضرت شیخ الاسلام حسین احمد مدنی ؒ کے عہد صدارت میں مفکر اسلام حضرت مولانا ابوالمحاسن سجاد صاحب ؒ کو پیش کی گئی تعزیتی قرارداد دیکھنے جیسی ہے، اور پھر خود ازہر ہند، دارالعلوم دیوبند کی مجلس شورٰی کی ہر نشست کا یہ تعامل ہیکہ پہلے اعیان علم و نظر کی وفات پر تعزیت پیش کی جاتی ہے اور ابھی حال ہی میں منعقدہ شورائی مجلس میں بھی مرحومین کو تعزیتی قرارداد پیش کی گئی تھی جس میں دارالعلوم کے شیخ الحدیث حضرت مفتی سعید صاحب پالنپوری بھی شریک تھے ۔
*چنانچہ مشرب دیوبند کی اسی روایت اور اہل علم و دانش کے اسی تعامل کو آگے بڑھاتے ہوئے، حضرت خطیب الاسلام ؒ کی وفات کے بعد دارالعلوم وقف دیوبند میں ایک یادگاری سیمینار طے پایا ہے، جو کہ خالص مرحوم کی بلند پایہ علمی، فکری، تنظیمی اور نظریاتی جدوجہد کو زندہ رکھنے کی خاطر ہونے جارہاہے*
یہ سیمینار طے ہوئے مہینہ گذر گیا اور اب سیمینار محض چار سے پانچ دن دور ہے، ملک و بیرون ملک اس عظیم مجاھدانہ صفات اور ولی اللہی اقدار کے حامل خانوادے کے متعلقین و منتسبین اس کے لیے پرعزم ہیں، یکایک دارالعلوم دیوبند کے شیخ الحدیث حضرت مفتی سعید پالنپوری صاحب مدظلہ العالی، کا ایک مکتوب انٹرنیٹ کے بازار میں گردش کرنے لگتاہے، پھر حضرت مہتمم صاحب کا خط بھی نظر آتاہے، بعدہ ان معترضانہ خطوط کی وضاحت میں لکھا گیا جواب حضرت مولانا سفیان قاسمی صاحب دامت برکاتہم کی طرف سے دارالعلوم وقف کی ویب گاہ پر شائع کیا جاتاہے
مفتی سعید پالنپوری صاحب اپنے خط میں فرماتے ہیں کہ: اس طرح کے اجلاس دیوبندیت کے خلاف ہیں، اور وہ دیوبندیت کے محافظ ہیں، اوپر ہم بالتفصیل حضرت مفتی صاحب کے دعوے پر علماء دیوبند کا مجموعی تعاملِ تسلسل پیش کرچکے ہیں،
آگے حضرت مفتی سعید صاحب نے لفظ سیمینار کی عربی تشریح کے ذیل میں اس پر حکم لگایا ہے، جبکہ معلوم ہوناچاہیے کہ لفظ " سیمینار " انگریزی ہے، لہٰذا اصولی طور پر اس کی تشریح عربی لغت کی بجائے انگریزی ڈکشنری کی روشنی میں ہونی چاہیے،
آگے حضرت مفتی صاحب نے کئی اکابر علماء دیوبند کی طرف یہ بات منسوب کی ہیکہ ان کی وفات پر کوئی اجلاس دارالعلوم یا دارالعلوم سے باہر نہیں ہوا ہے، حضرت مدظلہ کے اس دعوے پر بھی اوپر ہم واقعاتی روشنی ڈال چکے ہیں
آگے حضرت نے دیوبندیت کی تشریح باعتبار تحفظ مسلک فرمائی ہے، جبکہ آج تک علماء دیوبند نے دیوبندیت کو مستقل باعتبار مسلک متعارف نہیں کرایا ہے، چنانچہ دارالعلوم دیوبند کے ترجمان حکیم الاسلام حضرت قاری طیب صاحب ؒ فرماتے ہیں:
دیوبندیت کیا ہے؟
          ”دیوبندیت کوئی مذہب یافرقہ نہیں ،جسے معاندین اسے ایک مذہب یافرقہ کانام دے کرعوام کواشتعال دلانے کی کوشش کرتے ہیں؛بلکہ مسلک اہل السنة والجماعة کاایک جامع مرقع اورمکمل ایڈیشن ہے ،جس میں اہلِ سنت کی ساری شاخیں اپنی اصل سے جڑی ہوئی دکھائی دیتی ہیں، شاعرِمشرق ڈاکٹراقبال مرحوم نے اس دیوبندیت کے بارے میں کیاخوب جملہ استعمال فرمایاتھا،جوانھیں کوزیب دیتاتھا،جب ان سے کسی نے پوچھاکہ دیوبندی کیاچیزہے ؟یہ کوئی مذہب ہے یافرقہ ؟توفرمایاکہ نہ مذہب ہے نہ فرقہ؛ بلکہ ہرمعقول پسنددین دارکانام دیوبندی ہے۔ فللّٰہِ دَرُّ ماقال“۔
اس کے علاوہ دارالعلوم دیوبند کے سابق مفتی و صدر المدرسین حضرت مفتی شفیع عثمانی دیوبندی ؒ کے متعلق آتاہے کہ،
مفتی شفیع عثمانی صاحب کے پاس مولانا عبدالشکور ترمذی ایک کتاب کا ترجمہ کرکے لائے  شاید (المھند علی المفند) تو اس کا نام عقائد علماءدیوبند رکھا، تو حضرت نے کہا کہ اس وقت تک تقریظ نہ کروں گا، تاآنکہ اس کا نام " عقائد اہل السنۃ والجماعۃ یعنی علماء دیوبند "کا کردو .... پس نام تبدیل کرنے پر کتاب کی طرف توجہ فرمائی ..
اس کے علاوہ اکابر علماء دیوبند اور دیوبندیت کی حقیقی ترجمان و علمبردار خانوادهء حضرت قاسم نانوتوی ؒ نے کبھی بھی دیوبندیت کو مسلک کے طور پر نہیں پیش کیا ہے، ان حضرات نے ہمیشہ دیوبندیت کو باعتبار مشرب ہی پیش فرمایا ہے، لہٰذا مستقل کسی ادارے کی طرف کوئی بات منسوب کرنے کے ليے تحفظ مسلک کا نعرہ دینا، گویا اھل السنۃ والجماعت پر آنچ آرہی ہو مناسب معلوم نہیں ہوتا ۔
اور ان سب کے علاوہ حضرت مفتی صاحب مدظلہ کا اپنی ایک ایسی انفرادی رائے کو دیوبندیت کے تحفظ کے حکم میں ٹھہرانا، جس کے برعکس اکابر علماء دیوبند کا مسلسل تعامل رہا ہے، ازخود محل نظر ہے، نیز، دارالعلوم سے منسلک اعیان مشائخ میں سے کسی کی طرف سے بھی ایسی نظیر نہیں ملتی ہیکہ کبھی انہوں نے اپنی رائے کو دیوبندیت کی ترجمان رائے قرار دینے کی کوشش کی ہو اور نا ہی یہ مناسب معلوم ہوتاہے ۔
حضرت مفتی سعید صاحب عافاہ اللّٰہ تعالٰی کا خط سوشل میڈیا پر نشر ہونے کے معاً بعد حضرت مہتمم صاحب دام ظلہ کا بھی ایک مکتوب اسی حوالے سے گردش میں آیا، جس میں حضرت مہتمم صاحب حفظہ اللّٰہ نے: اپنے موقف کی تبدیلی کا عندیہ پیش فرمایا اور اس کا سبب حضرت مفتی سعید صاحب مدظلہ کی رائے کو قرار دیا اور ساتھ ہی مفتی صاحب مدظلہ کی رائے کو دارالعلوم کے تعامل کے طور پر تسلیم بھی کرلیا، اس سلسلے میں اپنے بڑوں سے اسی قدر عرض کرناہے کہ اگر حضرت کا یہی موقف تھا، یا حضرت کی نظر میں دارالعلوم کا یہی تعامل تھا تو آنحضور کی ایسی تقاریب میں مسلسل شرکت کس ضمن میں شمار کی جائے؟
اس کے بعد حضرت مہتمم صاحب مدظلہ کے مکتوب میں موجود نوٹ نہایت فکر انگیز ہے، کیونکہ یہ رائے دارالعلوم کی نہیں تھی بلکہ حضرت مہتمم صاحب کی ذاتی رائے تھی جس پر انہوں نے ناظم صاحب کے لیے حکم تحریر فرمایا ہیکہ اس خط کے مضمون سے اساتذۂ دارالعلوم کو آگاہ فرمادیا جاوے، اس سلسلے میں بھی ہم تفصیلی کلام نہیں کرینگے، امید ہیکہ دارالعلوم کی ھیئت حاکمہ اس پر غور کرے گی،
البته حضرت مہتمم صاحب مدظلہ نے اپنی رائے سے بعد میں رجوع کرلیا اور فرمایا ہیکہ یہ مفتی سعید صاحب مدظلہ کی ذاتی رائے ہے ۔
اس قضیے میں صاف طور پر سب کچھ واضح ہے، ہم کسی کو بھی غلط یا صحیح نہیں ٹھہرائیں گے، البتہ ان جیسی غیرذمہ دارانہ شراکتوں کو ہم مناصب مشائخ کے ذریعے حل ہوناچاہیے،
آخر یہ نجی نوعیت کی آرا انٹرنیٹ کے بے قابو بازار میں کس طرح آئیں؟
اپنی نجی آرا کو دیوبندیت کا ترجمان اور دارالعلوم کے اساتذہ کی نظروں میں ارسال کرنے کی کیا وجہ ہوسکتی ہے؟
یہ انتہائی لنگڑی تاویل ہیکہ
پتہ نہیں کیسے یہ خط انٹرنیٹ پر جاپہنچے، یہ بالکل ناقابل قبول تاویل ہے، اگر دارالعلوم کے مہتمم اور شیخ الحدیث مد ظلہم کے لیٹرپیڈ ان کی مرضی کے بغیر شائع ہوسکتےہیں تو یہ بالکل نامناسب رویہ ہے ۔
جبکہ یہ خط حضرت مفتی سعید صاحب مدظلہ کے غیر رسمی چینل سے نشر ہوا تھا،جب اس بابت ہم نے بات کی تو  ہمیں بتایاگیا کہ مفتی صاحب کا خط بروز بدھ، رات ۱۱ بجے نشر کیاگیاہے اس وجہ سے کہ، بدھ کی شام سات بجے، دارالعلوم وقف کا وضاحتی خط انٹرنیٹ پر پہلے آگیا تھا، جب ہم نے اس کی پڑتال کی تو کئی ایک علماء کرام نے کہا کہ ہم نے حضرت مفتی سعید صاحب کا خط انٹرنیٹ پر پہلے دیکھا، بعدہ وضاحتی خط دیکھا ۔
یہ تو زبانی گواہ تھے لیکن ہم ثبوت تلاش کرتے رہے تو یہ بات ہمارے سامنے آئی کہ، حضرت مفتی سعید صاحب مدظلہ کا خط تو مزید ایک دن پہلے یعنی بروز منگل ہی سے وائرل ہورہاتھا، اور منگل کے روز نشر شده خط کا اسکرین شارٹ ہم نے اس تحریر کے ساتھ منسلک کردیاہے، اور ایک بات، جو لوگ یہ کہہ رہےہیں کہ پہلے وقف کے ذمہ داران نے خط وائرل کیا ہے، یہ بات تکنیکی اعتبارسے بھی درست معلوم نہیں ہوتی کیونکہ،
جو خط وائرل ہوئے ہیں ان میں مہتمم صاحب والے خط میں اساتذہ والی نوٹ موجود ہے، جبکہ حضرت مولانا سفیان قاسمی مدظلہ کے نام روانہ کیے گئے خط میں ایسا کوئی بھی نوٹ موجود نہیں، لہٰذا اگر خطوط انٹرنیٹ پر ان(دارالعلوم وقف) حضرات کی جانب سے آتے تو ضرور بالضرور نوٹ کے  بغیر نشر ہوتے، لیکن وائرل خطوط نوٹ سمیت ہیں جو کہ حضرت مہتمم صاحب کے پاس ہی تھے، ٹائمنگ کی بات کی جائے تو دو لفظوں میں یہ کہ،  چینلز کے لحاظ سے تو پہلے خطوط، دارالعلوم وقف کے  اکاؤنٹ پر آئے اور پھر حضرت مفتی سعید صاحب کے نام سے بنے ٹیلیگرام چینل پر، اس اعتبارسے دارالعلوم وقف کی طرف سے پہل نظر آتی ہے، اور عام مراسلت میں دیکھیں تو ایک روز قبل حضرت مفتی صاحب کا خط نظر آتاہے، فیصلہ قارئین کے ہاتھوں میں ہے ۔
یہ ساری تفصیلات ہم نے صرف اسلیے سپرد تختۂ کلید کی ہیں کہ، اسوقت یہ قضیہ عوامی ہوچکاہے، عمومی بحث کا بازار گرم ہے، کوئی ایک فریق کو کسی ایک جزئیے کی بنا پر تو کوئی دوسرے کو کسی ایک پہلو کی بنا پر مجرم ٹھہرا رہاہے، لیکن تفصیلی منظرنامہ کسی کے سامنے نہیں ہے، ہم اس موضوع پر لکھنے کے شائق ہوتے تو کل ہی لکھ چکے ہوتے لیکن ایک قضیہ جب بہ تقاضائے بشریت عوامی ہوچکاہے تو محض اس بنا پر کہ بعض لوگ ناراض ہوجائیں گے رائے کے اظہار سے کترانا کمزور اور تعریف پسند قلم و زبان کی پہچان ہے، لہٰذا ہم نے اپنی ذمہ داری سمجھتے ہوئے واقعاتی روشنی میں ایک ایک پہلو پر کلام کیا ہے تاکہ اب جو مسئلہ بڑوں کی ہی طرف سے عوامی ہوگیاہے اس کا واقعاتی تناظر سب کے سامنے ہوناچاہیے بصورت دیگر غیر واقعی غلط فہمیاں عام ہوکر دوری میں اضافہ کرتی ہیں، صحیح معنوں میں یہ بھي قضیہ نامرضیہ ہی ہے، اس سے کئی ایک قلوب زخمی ہیں، کئی ایک اعیان کو سخت ٹھیس پہنچی ہے، عین سیمینار سے قبل یہ وقوعہ انتہائی تکلیف دہ ہے ۔
البتہ راقم سطور کی نظر میں یہ بھی سیمینار کے لیے ایک امید افزا پہلو ہے کہ قبل ازوقت، انعقاد سے پہلے ہی اس پر ایسے بڑوں کی پیاری نظریں ہوئی ہیں کہ جن کی بعض آرا سے اختلاف تو ہوسکتا ہے، لیکن ان کے خلوص ان کی علمی جلالت اور للہیت پر ادنیٰ سا شک بھی ہرگز ہرگز نہیں کیا جاسکتا،اسی لیے ہم اپنے ان سرتاجوں کے اختلافی قضیے کو سیمینار کے حق میں پیشگی مقبولیت کا پروانہ سمجھتے ہیں، ہم ان تینوں بزرگوں کی دینی خدمات اور روحانی مقامات کے سامنے ان کے قدموں کی دھول بھی نہیں ہوسکتے، رحیم و رحمان پروردگار سے دعاگو ہوں کہ  متوقع سیمینار کو کامیاب فرمائے اور بروز محشر ہم سب کو ایک ساتھ جنت میں داخل فرمائے، ان پاک طینت اصحاب نسبت کے طفیل مجھے بھی کسی لائق فرمائے، واقعی آج بھی ان اہل الله کی نظروں کا محتاج ہوں، اگر میری معروضات کسی پر بار خاطر ہوں تو عاجزانہ معافی چاہتا ہوں، اور مصرف القلوب ذات سے جنت میں " وَنَزَعْنَا مَا فِي صُدُورِهِم مِّنْ غِلٍّ إِخْوَانًا عَلَىٰ سُرُرٍ مُّتَقَابِلِينَ کا امیدوار ہوں ۔

سمیع اللّٰہ خان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"صداۓوقت"