Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Friday, August 10, 2018

ایک تحریر سے پھیلی غلط فہمی کا ازالہ۔


         ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔                     مولانامحمدبرھان الدین سنبھلی
    (استاد تفسیرو حدیث
        ندوة العلماءلکہنٶ)
 
     ۔۔۔۔۔۔صداۓوقت۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حال میں کچھ اہم اور معتبر علماء کی عجیب وغریب تمام علمائے معتبرین و سابقین کی راے کے خلاف نظر پڑی،جس سے حیرت و تعجب کے ساتھ ایک گونہ افسوس بھی ہوا، کہ چند علماء نے تقریباً تمام علمائے پیشین کی راے کو غلط ٹھرا دیا، راقم الحروف تقریباً ستّر سال سے اپنی زندگی میں برابر یہ دیکھتا اور مشاہدہ کرتا آیا ہے کہ جس بڑے آدمی بالخصوص عالم کا انتقال ہوا اسکی تعزیت میں ایک نہیں بلکہ متعدد جلسہاے تعزیت ہوے مگر کسی نے اس پر نہ نکیر کی اور نہ اس پر نوحہ کا اطلاق کیا، مثلاً راقم کے زمانہ تعلیم میں حضرت شیخ الاسلام استاذی مولانا سید حسین احمد مدنی قدس سرہ کا انتقال ہوا،(اس وقت یہ حقیر دارالعلوم دیوبند میں دوره حدیث کا طالب علم تھا) تو حضرت مخدوم کے انتقال کے بعد دارالعلوم دیوبند کے دارالحدیث میں چند روز تو مسلسل قرآن مجید کی تلاوت کرکے ایصالِ ثواب کیا جاتا رہا، اس کے بعد بھت سے جلسہاے تعزیت مدتوں ہوتے رہے اور تو اور حضرت مدنی رحمۃ اللہ علیہ کے انتقال کے چالیس سال بعد جمعیت علماء نے دھلی میں ایک عظیم الشان سیمنار کیا، جس میں ملک بھر سے ممتاز علماء، اکابر امت شریک ہوئے،علاوہ ازیں پورے ملک میں حضرت کے لئے حدِ شمار سے متجاوز تعداد میں جلسہاے تعزیت ہوے، اور حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے کمالات،محاسن بیان ہوتے رہے،جسکی روداد روزنامہ «الجمعیہ» شیخ الاسلام نمبر میں آج بھی دیکھی جا سکتی ہے، سب سے بڑھ کر یہ کہ مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن علی حسنی ندوی رحمۃ اللہ علیہ کی وفات کے بعد دنیا بھر میں _جس میں حرمین شریفین بھی شامل ہیں _جلسہاے تعزیت مدتوں ہوتے رہے، لیکن کسی نے بھی اسے نوحہ قرار دیکر ناپسندیدہ تک نہیں کہا، چہ جائیکہ ممنوع اور ناجائز!    مزید برآں ایں کہ راقم نے اپنی عمر کے ستّر سال کے اندر بےشمار ممتاز علماء کے انتقال پر جلسہاے تعزیت کی خبریں سنیں اور اخبارات میں پڑھیں، جن میں کوئ ایک درجن جلسوں میں راقم خود بھی شریک ہوا، ان حضرات علمائے مرحومین میں مجاہدِ ملت مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی رحمتہ اللہ علیہ ( خیال پڑتا ہے کہ مجاہد ملت کے جلسہ تعزیت میں اس وقت کے سب سے بڑے متقی اور مشہور عالم دین مولانا محمد یوسف کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ بھی شامل تھے) مولانا احمد سعید دھلوی، مولانا بدر عالم میرٹھی ثم پاکستانی، مولانا یوسف بنوری، مولانا ابوالکلام آزاد رحمهم الله وغیرھم جیسی ممتاز ہستیاں شامل ہیں، پھر ان جیسی مجلسوں پر نوحہ کا الزام دھر کے ناجائز یا ناپسندیدہ قرار دینا کیونکر درست ہو سکتا ہے،بلکہ ایک قدم آگے بڑھ کر یہ کہا جا سکتا ہے کہ مرحومین کے محاسن بیان کرنے کا ایک درجہ میں حکم جو جلسہاے تعزیت کی اصل غرض ہوتی ہے حدیث شریف میں بھی آیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا « اذکروا محاسن موتاکم وکفوا عن مساویھم » اس حدیث کو ترمذی،ابو داؤد، طبرانی،حاکم جیسی اہم اور معتبر کتابوں میں تخریج کیا گیا ہے، بھلا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم ( چاہے جس درجہ کا ہو) کی تعمیل کرنا کیونکر غلط اور ناپسندیدہ ہو سکتا ہے، رہا نوحہ _جسکی حدیث میں مذمت آئ ہے_ تو یہ بالکل الگ چیز ہے، اسکی (نوحہ) تشریح تو خود احادیث میں کردی گئ ہے، ان میں سے کچھہ یہاں ذکر کی جاتی ہیں، چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «  لیس منا من ضرب الخدود وشق الجیوب ودعا بدعوی الجاھلیہ» وقال: "برئ من الصالقة و الحالقة و الشاقة"......
تو جلسہاے تعزیت کو نوحہ کہنا ایسا ہی ہے جیسے دھوم دھام سے گاجے باجے کے ساتھ شادی پر قیاس کرکے شرعی اصول پر ہونے والی سادی شادی  کو بھی ممنوع قرار دینا، یہاں یہ بتانا بھی غیر ضروری نہ ہوگا کہ مرحوم یا مرحومین کا محض خیر کے ساتھ تذکرہ نوحہ نہیں بلکہ ایک درجہ میں مطلوب ہے، اور مرحوم کی صفات حسنہ کا ذکر کرکے اس کے لئے دعاء مغفرت کرنا ثابت ہے، مثلاً صحیح بخاری شریف میں ہے کہ ایک ممتاز صحابی جریر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے ایک صاحب (جو امیر بھی تھے) کے انتقال پر لوگوں سے « استعفوا لاميركم فإنه كان يحب العفو» (ج اول ص ١٤)کہکر مرحوم کے لئے دعا کی درخواست کی، علاوه ازیں متعدد احادیث مرفوعہ میں بھت سے صحابہ کو ان کے انتقال کے بعد تعزیتی کلمات سے یاد کیا گیا اور ان کی صفات حسنہ بیان کرکے دعاء مغفرت کی فرمائش کی گئ جس کی تفصیل اھل علم کے سامنے بیان کرنا ضروری نہیں معلوم ہوتا۔

ان سب کے باوجود کوئ شخص جلسہ تعزیت اور اس طرح کے سیمیناروں کو نوحہ کہکر ممنوع قرار دیتا ہے تو یہ اسکی شخصی و انفرادی راے ہوگی عام فتویٰ نہیں ہوگا ۔