Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Wednesday, August 8, 2018

تدریس کیسے کریں؟

نظامِ تعلیم میں تدریس اور طریقۂ تعلیم کی جو اہمیت وافادیت ہے، وہ محتاجِ وضاحت نہیں ، دینی مدارس میں تدریس کا اسلوب اور طریقۂ کار کیا ہے؟ ذیل میں اولاً اس کا ذکر کیاجاتا ہے، اس کے بعد تدریس کے لئے بنیادی اصول ومبادی کی وضاحت کی جائے گی۔

تدریس کے مروّجہ طریقے:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تدریس اور کتب پڑھانے کے مختلف طریقے رائج ہیں اور ہر استاذ اپنے اپنے ذوق اور مزاج کے مطابق ان میں سے کسی ایک کو اختیار کرتا ہے، چند اسلوب یہ ہیں:

(۱)… استاذ شاگرد کو کتاب کا ایک خاص حصہ مطالعہ کرنے اور سمجھنے کے لئے دیتا ہے، طالب علم اس حصے اور بحث کا مطالعہ اور اسے حل کرنے کی اپنی سی کوشش کرتا ہے اور اگلے دن آکر استاذ کو وہ سبق سناتا ہے، استاذ کا کام صرف اس کے سبق کی تصحیح یا تصدیق کرنا ہوتا ہے یعنی اگر اس سے حلِ سبق میں کوئی غلط فہمی ہوئی ہے تو اس کی اصلاح کردیتا ہے اور اگر وہ صحیح سمجھا ہے تو اس کی صحت کی تصدیق کرلیتا ہے۔
تعلیم کا یہ طریقہ بڑا مفید ہے ، اس میں چوں کہ زیادہ بوجھ اور حلِ سبق کا زیادہ کام طالب علم کے ذمہ ہوتا ہے اس لئے بہت جلد کتاب سمجھنے کی صلاحیت اور فن سے مناسبت اس میں پیدا ہوجاتی ہے، شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا رحمہ اللہ نے اکثر کتابیں اسی انداز سے پڑھی ہیں، اس میں یہ بھی ضروری نہیں کہ ساری کتاب ختم کی جائے بلکہ جب دیکھا جائے کہ طالب علم میں کتاب حل کرنے کی پوری پوری استعداد پیدا ہوگئی ہے تو فن کی دوسری کتاب اسے شروع کرادی جائے، البتہ تعلیم کا یہ طریقہ بالکل ابتدائی طلبہ کے لئے مفید نہیں، درمیانے درجے کی کتابوں میں یہ طریقہ اختیار کیا جاسکتا ہے۔ ان مدارس میں جہاں طلبہ کی تعداد زیادہ ہو، ظاہر ہے کہ وہاں یہ طریقہ نہیں چل سکتا، یہ صرف وہاں جاری ہوسکتا ہے جہاں طلبہ کی تعداد بہت کم ہو، آج دیہات وغیرہ کے جن مدارس میں فی درجہ تین چار طلبہ ہوتے ہیں، وہاں یہ طریقۂ تعلیم اختیار کیا جاسکتا ہے۔

(۲)… تدریس کا ایک عمومی طریقہ یہ ہے کہ استاذ کے سامنے طالب علم کتاب میں متعلقہ سبق کی پوری عبارت پڑھتا ہے، استاذ اولاً، اس عبارت میں بیان کردہ مضمون کی تشریح اور اس پر زبانی تقریر کرتا ہے، اس تشریح میں بسااوقات وہ سبق کا تجزیہ بھی کرتا ہے مثلاً وہ کہتا ہے، آج کے سبق میں چار بحثیں ہیں: پہلی بحث، دوسری بحث، تیسری بحث، چوتھی بحث… پھر متعلقہ عبارت کا ترجمہ کرتے ہوئے اپنی تشریح اور تقریر کو اس پر منطبق کرلیتا ہے۔ یہ ایک کامیاب طریقۂ تدریس ہے لیکن اس شرط کے ساتھ کہ استاذ کی تشریحی تقریر اور زبانی تجزیہ یا بیان کردہ خلاصہ متعلقہ عبارت کے مطابق ہو اور ترجمہ کرتے ہوئے استاذ اپنی تشریحی تقریر کا عبارت کے ساتھ انطباق اس انداز سے کرنے کی پوری صلاحیت رکھتا ہو کہ طالب علم کے سامنے عبارت اور نفس مسئلہ دونوں اچھی طرح واضح ہوکر آجائیں، اگر استاذ کی ہوائی تقریر کا کتاب کی عبارت کے ساتھ جوڑنہ ہو تو ایسی صورت میں طلبہ کا ذہن الجھ جاتا ہے اور تدریس کے حوالے سے ایسے استاذ کا کوئی اچھا اثر اور فائدہ مرتب نہیں ہوتا۔

(۳)… ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ طالب علم سارے سبق کی عبارت نہیں پڑھتا، بلکہ ایک بحث یا ایک مسئلہ کی عبارت پڑھتا ہے، استاذ اس کی تشریح کرنے کے بعد عبارت کا ترجمہ کرتا ہے، پھر وہ اگلی بحث سے متعلق عبارت پڑھتا ہے، استاذ اس کی تشریح اور ترجمہ کرتا ہے، اس طرح سبق پورا ہونے کے بعد استاذ ساری عبارت کا عربی پڑھے بغیر صرف ترجمہ دہرادیتا ہے، اس طریقے میں طالب علم کی عبارت ہی سے سبق کا تجزیہ ہوجاتا ہے، یہ طریقہ بھی تقریباً پہلے طریقے سے ملتا جلتا ہے، سوائے اس کے کہ اس میں طالب علم ساری عبارت ایک ساتھ اور استاذ سارے سبق کی تشریح اور خلاصہ ابتدا میں ایک ساتھ بیان نہیں کرتا، بلکہ عبارت اور تشریح حصہ وار چلتی ہیں۔ یہ بھی ایک عمدہ طریقۂ تدریس ہے اور خاص کر فقہ اور اصول فقہ کی کتابوں کی تعلیم میں بہت مفید ہے۔

(۴)… ایک اسلوب یہ بھی ہے کہ طالب علم کے عبارت پڑھنے کے بعد استاذ زبانی تشریح یا خلاصہ بیان نہیں کرتا، بلکہ وہ عبارت کا ترجمہ اور تشریح ساتھ ساتھ کرتا ہوا آگے بڑھتا ہے اور پورا درس اسی انداز میں انتہاء تک پہنچ جاتا ہے، ادب کی کتابوں کی تدریس میں عموماً یہی طریقہ رائج ہے لیکن ادب کے علاوہ دوسرے فنون کی کتابوں میں یہ طریقۂ تدریس کوئی زیادہ مقبول نہیں۔
درس کی کیفیت کے اعتبار سے بعض اساتذہ کا مزاج اور طریقہ، ابتدائے سال میں لمبی تقریر اور خوب سے خوب تر تشریح اور تفصیل کرنے کا ہوتا ہے، اِدھر جوں جوں سال گزرنے لگتا ہے، اُدھر ان کی تقریر میں بھی اختصار آنے لگتا ہے، ابتدا میں اطناب اور آخر میں ایجاز کے اس طریقۂ تدریس کے پس منظر میں یہ تعلیمی فلسفہ کارفرما ہے کہ شروع میں کتاب اور فن سے مناسبت پیدا ہونے اورمصنف کا اسلوب اور مزاج سمجھنے میں کچھ وقت لگتا ہے، استاذ کے تفصیلی دروس سے رفتہ رفتہ طالب علم میں فن اور کتاب سے مناسبت پیدا ہوتی چلی جاتی ہے، اس لئے آخر میں وقت کی تنگی کی وجہ سے اختصار اختیار کرنا کوئی ایسا مضر نہیں،لیکن اس کے برعکس بعض اساتذہ کا طریقہ تدریس شروع سے آخر تک یکساں رہتا ہے، ان کے ہاں نہ ابتدا میں لمبی چوڑی تفصیلات ہوتی ہیں اور نہ ہی آخر میں اغلاق و ایجاز ہوتا ہے، بلکہ کتاب میں موجود ضروری اور اہم مباحث کی بقدر ضرورت تشریح و تفصیل سال کی ابتدا اور آخر میں یکساں جاری رہتی ہے اور یہی دوسرا طریقہ زیادہ مفید اور مقبول سمجھا جاتا ہے
ابن الحسن عباسی کی قلم سے۔