Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, August 12, 2018

جنگ آزادی میں مسلمانوں کی شہادت۔

جنگ آزادی میں مسلمانوں کی شہادت۔
ہندوستان کی آزادی کی جنگ میں کتنے مسلمان شہید ہویے؟؟؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
محمد اسلم غازی کے ایک لیکچر سے ماخوذ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہندوستان کیآزادی میں مسلمانو کا کردار اور شہادت روز روشن کی طرح عیاں ہے مگر تاریخ کے اس سنہرے باب کو یا تو توڑ مروڑ کر پیش کرتے ہیں یا پھر ہدف کر دیا جاتا ہے
شہنشاہ اورنگزیب و پہلا شخص ہے جس نے 1686 میں سب سے پہلے ایسٹ انڈیا کمپنی کو ہندوستان چھوڑنے کو کہا تھا۔پہلی جنگ آزادی کی لڑائی ۔ازادی حاصل کرنے سے تقریباّ دو سو سال پہلے لڑی گیئ تھی حسے جنگ پلاسی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے جس میں بنگال کے حکمراں نواب سراج الدولہ نے 1757 میں انگریزوں کو شکست فاش دی۔میسور کے فرماں رواں نواب حیدر علی نے 1782 میں انگریزوں کو ہرایا۔حیدر علی کے بیٹے ٹیپو سلطان نے 1791 میں شکست دی مگر دوبارہ لڑائی 1799 میں ٹیپو سلطان نے جام شہادت کو نوش کیا۔ٹیپو سلطان ہندوستان کا ایسا پہلا جنریئل تھا جس نے انگریزوں کے خلاف توپ و میزائل کا استعمال کیا۔
1842 تا 1831 تک سید احمد شہید کی قیادت میں تحریک مجاہد نے انگریزوں کو شکست فاش دی اور مغربی اور شمالی صوبوں پر اپنی حکومت قائم کر لی۔۔یہ تحریک 1831 میں سید احمد شہید کی شہادت کے بعد کمزور ہوتی گئی۔
آخری مغل شہنشاہ بہادر شاہ ظفر نے 1857 کی جنگ آزادی کی قیادت کی جو 31 مئی کو شروع ہونے والی تھی مگر برطانوی فوج میں موجود ہندوستانی سپاہیوں نے 10 مئی کو ہی بغاوت کردی۔ اس 18 57 کی جنگ میں جو تقریباّ پورے ہندوستان میں شروع ہوچکی تھی جس میں پانچ لاکھ مسلمانوں کو شہید کیا گیا جس میں 5000 صرف علماء تھے۔کہا جاتا ہے کہ جی ٹی روڈ پر دہلی سے کلکتہ تک کوئی ایسا درخت نہیں تھا جس پر کسی عالم کی لاش نہ لٹکی ہو۔
ملک کے علماء نے انگریزوں کے خلاف جہاد کا فتویٰ دیا اور ہندوستان کو دارالحرب ہونے کا اعلان کیا اس اعلان کے بعد ہر مسلمان پر انگریزوں کے خلاف جہاد کو فرض قرار دیا گیا۔
ملک کے مسلمانو کو مغربی تہذیب و دہریت سے بچانے کے لئے دارالعلوم دیوبند و ندوة العلماء کی بنیاد رکھی گئی نئی ٹیکنالوجی سے قوم کو ہم آہنگ کرنے اور انگریزیت کا مقابلہ کرنے کے لئے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا قیام ہوا۔ جو آج بھی قائم و دائم ہے اور اپنی افادیت برقرار رکھے ہوئے ہے
1905 میں ریشمی رومال کی تحریک شیخ السلام مولانا محمود حسن اور مولانا عبید الله  سندھی کی قیادت میں شروع کی گئی جس کا مقصد ملک کی تمام ریاستوں کو انگریزوں کے خلاف  متحد کرنا تھا۔اس جرم میں مولاناکو کالے پانی کی سزا ہوئی اور ان کو مالٹا جیل میں رکھا گیا اور وہیں پر جیل میں ہی انھوں نے اپنی زندگی کی آخری سانس لی۔
انڈین نیشنل کانگریس جس نے آزادی کا علم بلند کیا اس کے 9 صدور مسلم ہوئے۔ گاندھی جی کو 1916 میں افریقہ سے ہندوستان کو لانے میں ایک مسلم نے ہی پورا خرچ اٹھایا جنھوں نے اپنی احتجاجی تحریک علی برادران کے ساتھ شروع کی۔
موپلا تحریک کے دوران ایک جنگ میں اکیلے تین ہزار مسلمان شہید ہوئے تھے۔
1942 میں بھارت چھوڑو تحریک کے محرک در اصل مولانا آزاد تھے جنکو گرفتار کر کے 8 اگست کو احمد نگر جیل بھیج دیا گیا۔
جیوتی با پھولے کی تعلیمی تحریک کو ان کے ایک مسلم پڑوسی عثمان نے مدد کی۔مسلم قیادت نے ہمیشہ دلتوں کے مفاد کو سپورٹ کیا۔
لندن میں ایک گول میز کانفرنس میں مسلمانوں کی ترجیحات کو مان لیا گیا مگر دلتوں کے مفاد کو نظر انداز کر دیا گیا جس کو مولانا نے ماننے سے انکار کر دیا۔جب ڈاکٹر امبیڈکر 1946 کا الیکشن ہار گئے تو اس وقت بنگال مسلم لیگ نے اپنی ایک مسلم سیٹ ڈاکٹر امبیڈ کر کے لئے چھوڑ دی اور ضمنی الیکشن میں امبیڈکر فتحیاب ہوئے اور ان کو قانون ساز اسمبلی میں داخل ہونے کا موقع ملا۔
مسلم مجاہد آزادی صحافت جنرلزم میں بھی کافی محرک رہے۔مولانا آزاد۔مولانا باقر علی۔مولانا محمد علی جوہر نے اپنے مضامین  و اخبارات کے ذریعہ عوام کو انگریزوں کے خلاف بیدار کیا۔
یہ ایک مختصر سی جھلک تھی مسلمانوں کی جنگ آزادی میں حصے داری کی۔۔شاید آج کل کے خود ساختہ نیشلسٹ کی سمجھ میں کچھ باتیں آ جائیں۔