Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Friday, August 31, 2018

یا مظہر العجائب، امام حرم بھی غائب۔


                              
        محمود دریابادی کی قلم سے۔
ماخوذ صدائے وقت۔
     . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
    کسی بھی صحت مند سماج کے افراد میں اعتدال کا ہونا بہت ضروری ہوتا ہے، افراط وتفریط کی کثرت پورے معاشرے کے بیمار ہونے کی علامت ہے ـ
   سعودی عرب کے معاملے میں بھی ہم لوگ افراط وتفریط کا شکار ہیں، ہم میں کے کچھ لوگ سعودی کی " س " سے بھی نفرت کرتے ہیں، موقع کی تلاش میں رہتے ہیں بس ذرا موقع ملا " سعود اور یہود " ایک کردیتے ہیں ـ
  دوسری طرف کچھ لوگ سعودی کے اتنے وفادار ہیں کہ شاید خود شاہ سلمان بھی اتنے وفادار اپنے نہ ہوں، ایسے ہی لوگوں کے لئے اردو کا قدیم محاورہ " شاہ سے زیادہ شاہ کا وفادار " بنایاگیا ہے ـ
   حمایت اور مخاصمت کی کئی وجہیں ہوسکتی ہیں، مثلا مسلکی اور نظریاتی مخالفت، ذاتی اور مالی مفادات نیز ایران جیسے سعود مخالف ممالک سے ہمدردی اور وہاں سے ملنے والی مراعات یا حوثیوں اور اخوانیوں سے ہمدردی ـ
   فی الحال ہم ان وجوہات کو ایک کنارے رکھتے ہیں اور ایک سامنے کی حقیقت پر بات کرتے ہیں ـ
     تقریبا دس بارہ دن سے ایک خبر گردش کررہی ہے کہ سعودی حکومت نے حرم پاک کے ایک امام شیخ طالب کو حکومت کے کچھ غیر شرعی کاموں پر تنقید کے "جرم عظیم " پر  گرفتار کرلیا ہے ـ .......... اس خبر کا آنا تھا کہ دونوں فریق سرگرم ہوگئے مخالفین کو موقع ہاتھ آیا حسب سابق نجد سے امریکہ واسرائیل کا فاصلہ مٹادیا گیا اور گفتنی وناگفتنی سب کچھ کہہ ڈالا گیا، دوسری طرف شاہ سے ذیادہ شاہ کے وفادار بھی سامنے آگئے اور بلا کسی تحقیق کے اس خبر کو جھوٹا،ایران وقطر کی کارستانی اور تحریکیوں کی شازش قرار دیا گیاـ
   تعجب یہ ہے کہ ساری دنیا میں بحث جاری ہے مگر خود سعودی حکومت اس پر پراسرار خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے، جبکہ امام حرم ایک بڑی بین الاقوامی.شخصیت ہیں، حرم مقدس میں امام ہونے کے ساتھ ایک عدالت میں منصف بھی ہیں، دنیا کے کئی ممالک کادورہ کرچکے ہیں ـ ایسی عظیم شخصیت کے بارے میں اگر پوری دنیا میں کوئی خبر اڑی ہوئی ہے تو حکومت کا فرض بنتا ہے کہ اس کی تردید کرے ....... ورنہ لوگ اگر یہ نہ سمجھیں کہ " پوری دال کالی ہے " مگر یہ تو ضرور سمجھنے پر مجبورہوجائیں گے کہ دال میں کچھ نہ کچھ کالا ضرور رہے ـ
  ہمارے نزدیک سعودی عرب کی حکومت میں بھی دوسری حکومتوں کی طرح کچھ خوبیاں ہیں اور خامیاں بھی، مثلا اب تک حدود وقصاص کے معاملے میں سعودی عرب میں بڑی حد تک اسلامی قوانین نافذ ہوتے ہیں ( اللہ کرے آگے بھی یہ سلسلہ جاری رہے ) دوسری طرف وہاں مطلق العنانیت والا شہنشاہی نظام بھی نافذ ہے جو بہر حال غیر اسلامی ہے ـ
   ایک مطلق العنان بادشاہ اپنی حکومت کی بقا کے لئے جو کچھ جائزوناجائز کام کرسکتا ہے سعودی کو بھی کرنا پڑتاہے ـ چاہے فرقہ پرستی کے علمبرداروں کو حکومت کے سب سے بڑے ایوارڈ سے نوازنا ہویا حکومت کی غلط پالیسیوں، سنیما ہال اوردیگر لہولعب کے مراکز کے قیام پر تنقید کرنے والے مقتدرعلماء کرام کودہشت گردوں کا حامی قرار دے کر گرفتاریاں اور ان کی پر اسرار نظر بندیاں ہوں ـ
  یاد کیجئے ایک دہائی قبل کچھ عرصے کے لئے سعودی وایران تعلقات کی برف پگھلی تھی اور ایران کے صدر رفسنجانی نے سعودی کا دورہ کیا تھا، اس وقت حرم نبوی کے بزرگ امام شیخ حذیفی نے صدر ایران کی موجودگی میں صحابہ کرام کی خدمات اور ان پر تبرا کرنے والوں کی مذمت میں ایک زبردست خطبہ دیا تھا چونکہ اس وقت وہ خطبہ حکومت کی پالیسی مطابق نہیں تھا اس لئے ....... اس خطبہ کے بعد بہت مدت تک شیخ حذیفی غائب رہے ـ ........ اسی طرح آج بھی متعدد بزرگ علماء پتہ نہیں کہاں ہیں ـ حد تو تب  ہوگئی جب شیخ یوسف قرضاوی جن کو خود سعودی حکومت فیصل ایوارڈ سے نواز چکی ہے وہ بھی دہشت گرد قرار دیئے جاچکے ہیں ـ
  درج بالا تفصیلات بیان کرنے کا مقصد محض یہ ہے کہ مخالفین و معاونیںِ سعودی خواہ مخواہ اپنی زہریلی تحریوں کے ذریعے اپنے ہندوستان کا ماحول خراب کرنے کی کوشش نہ کریں، دوسری حکومتیں بھی اپنے تخت وتاج بچانے کے لئے یہی سب کرتی ہیں مثلا ایران میں بھی یہی کچھ ہورہا ہے ( اس کی تفصیلات کسی اور موقع پر) ـ
  بہت ممکن ہے سعودی حکومت امام صاحب کو بھی دہشت گرد یا ان کا ہمدرد قرار دے کر داخل زنداں کردے .... یا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کچھ عرصے بعد شیخ حذیفی کی طرح شیخ طالب بھی امامت فرماتے نظرآنے لگیں...... دیکھئے کیا ظہور میں آتاہے، فی الحال تو مخالفین اور محافظین کی جنگ جاری ہے ـ