Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Monday, August 6, 2018

پاکستان کے فوج زدہ عام انتخابات

پاکستان کے فوج زدہ عام انتخابات پر بیباک تبصرہ۔
تحریر ابونافع اعظمی۔

حال ہی میں ختم ہوئے پاکستانی پارلیامنٹ کے انتخابات کی تصویر پر مندرجہ بالا عنوان اور تصویر اس لئے فٹ اترتا ہیکہ گزشتہ سالوں میں اتنے شدت سے فوج پر ان انتخابات میں مداخلت کے الزام نہیں لگا ئے گئے جسقدر 2018 میں لگائے گئے ہیں ان انتخابات سے پہلے عام تصور یہ تھا کہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے عدلیہ اور ذرائع ابلاغ پر اپنے مضبوط شکنجے کے ذریعہ پاکستان مسلم لیگ ن کو اقتدار سے باہر کرنے من بنا چکی ہے پہلے نواز شریف کو اقامہ کیس میں نا اہل کرکے وزارت عظمی اور پارٹی کی صدارت سے نا اھل کیا گیا پھر آمدنی سے زائد کیس میں انہیں ان کی سیاسی وارث بیٹی مریم نواز اور داماد کیپٹن صفدر کے ہمراہ اڈیالہ جیل میں بند کردیا گیا 26 اگست کو ہوئے انتخابات کی پولنگ تو پرامن ہوئی صرف پولنگ کے وقت بڑھانے کی ساری پارٹیوں کی درخواست سوائے پی ٹی آئی کے رد کی گئی جس کی وجہ سے بیشمار افراد اپنے حق رائے دہی سے محروم رہی پولنگ بڑی سست رفتار سے جاری رہی اصل کھیل ووٹوں کی گنتی سے شروع ہوا بقول سرحدی گاندھی کی پارٹیANP کے کہ ریسٹ کے بہانے شام چھ سے سات بجے کے درمیان تمام پولنگ ایجنٹوں کو کاؤنٹنگ سنٹر سے نکال کر کھلے عام دھاندھلی کی گئی تین لاکھ ستر ہزار فوجیوں کی انتخابات کی نگرانی نہیں گویا انتخابات پر قبضہ کی داستان تھی پھر جو نتائج بارہ بجے رات تک آرہے تھے وہ روک دئیے گئے اہنے مخصوص چینلوں کے ذریعہ عمران کی پی ٹی آئی کی جیت کا اعلان کاؤنٹنگ مکمل ہونے سے پہلے کیا جانے لگا رزلٹ اگلے 48گھنٹے تک روک دئیے گئے جس نے شکوک و شبہات کی فضا کو مزید دھندلا کردیا ، عمران کی پارٹی پی ٹی آئی اور ان سے منسلک کچھ افراد اور چھوٹی پارٹیوں کے علاوہ بیشتر بڑی پارٹیوں ن لیگ پیپلز پارٹی اے این پی جمیعت علماء اسلام جماعت اسلامی حتی کہ ایم کیو ایم جو اس وقت عمران کی حلیف بن چکی ہے سب نے ان انتخابات ک رد کردیا اے این پی کے رھنما اسفندیار اور جمعیت علماء کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے تو تمام اپوزیشن پارٹیوں کو یہ انتہائی مشورہ بھی دے ڈالا کہ جیتے ہوئے اپوزیشن کی ممبران اپنے پارلیامنٹ میں حلف نہ لیں یوں یہ انتخابات کالعدم کئے جائیں اور نئے انتخابات کی داغ بیل ڈالی جائے پر پیپلز پارٹی اور نواز شریف کی ن لیگ نے اہنے تحفظات کے باوجود اس رائے سے اتفاق نہیں کیا بلکہ پارلیامنٹ کے باہر اور اندر عمران اور ان کے پس پردہ طاقتوں سے محاذ آرائی کا من بنا لیا ہے اور اب ساری اپوزیشن اسی نکتے پہ جمع ہوگئی ہیں دلچسپ حقیقت یہ بھی ھیکہ اسٹیبلشمنٹ عدلیہ اور ذرائع ابلاغ کے ایک موثر گروپ کی عمران کے حق میں حمایت کے باوجود عمران خان کو سادہ اکثریت نہ مل سکی 272 کے ایوان میں ان کی پارٹی کو 137 سیٹیں نہ ملیں بلکہ صرف 115 ملیں جن میں سے عمران کی پانچ جیتی ہوئی سیٹوں میں سے چار کو چھوڑنی پڑیں گی یوں یہ پارٹی ہمیشہ چھوٹوں گروپس اور افراد کے زیر دباؤ رہے گی سیاسی پنڈت تو یہ بھی کہتے ہیں کہ عمران کو اقتدار میں لانے والے ان کے ہاتھ پاؤں باندھ کر لائے ہیں تاکہ وہ نواز شریف بننے کی کوشش نہ کریں نواز شریف نے سول بالادستی کی بات کرکے فوج سے پنگا لیا اور بظاھر کہیں کے نہ رہے البتہ ان کا ووٹ کو عزت دو کا نعرہ دن بدن مقبول ہوتا جارہا ہے اور اب اپوزیشن پارٹیاں بھی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف اسی طرح کھڑی ہیں جس طرح نواز شریف کھڑے ہیں کہنے والے یہاں تک کہتے ہیں کہ اگر نواز شریف کو عمران کی طرح کھلا میدان ملتا تو عمران کی ذاتی مقبولیت کے باوجود نواز شریف اور اچھا پرفارمنس دے سکتی تھی بہرحال آج کی تازہ خبر کے مطابق عمران کی پارٹی نے انہیں وزیر اعظم کا امیدوار نامزد کردیا ہے گیارہ اگست کو عمران کی تاجپوشی ہے عمران نے 1992 میں پاکستان کی کرکٹ ٹیم کو ورلڈکپ جتواکر بلندیوں پر پہونچایا تھا اس کے بعد انہیں مختلف سربراہوں کی طرف سے وقتا فوقتا وزیر بننے کی آفرز ہوتی رہی ہیں لیکن بائیس سال کے بعد اپنے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے جانے رہے ہیں انہوں نے الکشن سے پہلے عوام کے لئے ایک کروڑ ملازمتوں اور کرپشن کے خلاف جہاد کی بات کی ہے اگر وہ اہنے عوامی منصوبے کو تھوڑا بہت بھی عملی جامہ پہنانے میں کامیاب ہوگئے تو اپنا نام تاریخ میں درج کروالیں گے ورنہ پاکستانی تاریخ میں جنرل یحیی جیسا کردار بھی ہے جسے لوگ کبھی نہ یاد کرنا چاہیں گے