Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Monday, September 3, 2018

مسل پرسنل لا،مسلمانوں کے مذہب کا حصہ۔

مسلم پرسنل لا ٕمسلمانوں کےمذہب کا حصہ۔
از مولانا سراج ہاشمی۔(صدائے وقت)۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بورڈ کے ترجمان مولاناخالد سیف اللہ رحمانی کابیان۔
حکومت رواج کی اصلاح کر سکتی ہے لیکن کسی گروہ کے عقیدے اور مذہب کے اصلاح کا حق نہیں رکھتی۔
مولانا رحمانی۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
گذشتہ دنوں لاء کمیشن نے آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ سے ملاقات اور مسلم پر سنل لاء سے متعلق ایک سوال نامے کا جواب جاننے کی خواہش کی تھی ۔بورڈ نے اپنے نقطہ نظر کی وضاحت کی غرض سے اس دعوت کو قبول کیا ۔بورڈ کے وفد نے اپنے ایک نائب صدر کی قیادت میں لاء کمیشن کے چیرمین بی ایس چوہان صاحب سے ملاقات بھی کی ۔اور سوال نامے کا تفصیلی جواب تحریری شکل میں ان کے حوالے کیا اور انہوں نے نے سنجیدگی کے ساتھ بورڈ کے وفد کو سنا ۔
لاء کمیشن کی طرف سے جو رپوٹ جاری ہوئی ہے ،اس سے یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ انہوں نے بورڈ کی رہنمائی سے روشنی حاصل کرنے کی کوشش کی ہے اور اس بات کوقبول کیا ہے کہ *موجودہ مرحلہ میں ہندوستان جیسے کثیر مذہبی اور کثیر ثقافتی ملک میں یکساں سول کوڈ کی ضرورت نہیں ہے* ،لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان جیسے ملک میں جہاں مختلف مذاہب کے ماننے والے اور مختلف تہذیبوں سے تعلق رکھنے والے طبقات موجود ہیں ، آئندہ بھی اس طرح کی کوشش غیر مفید ہوگی اور اس سے *ملک کو فائدہ کے بجائے نقصان پہونچے گا*۔
اپنے بیان میں مولانا رحمانی نے کہا کہ اس رپوٹ میں ضمنی طور پر کچھ اور باتیں بھی آگئی ہیں ،جیسے طلاق ،وراثت، اس سلسلے میں کمیشن کا نقطہ نظر مسلمانوں کیلئے ناقابل قبول ہے۔ کیوں کہ مرد کو طلاق کا حق حاصل ہے اور بعض صورتوں میں مردو عورت کے درمیان حق میراث میں فرق رسم ورواج کا نتیجہ نہیں ہے ،جس کی اصلاح کرنے کا حکومت کو حق ہے ،بلکہ یہ قرآن وحدیث سے ثابت ہے اور بڑی اہم مصلحتوں پر مبنی ہے ۔ *حکومت رواج کی اصلاح کرسکتی ہے ،لیکن کسی گروہ کے عقیدے اور مذہب کی اصلاح کا حق نہیں رکھتی* ، اسی طرح کمیشن نے شادی کی حد عمر کم کرنے کی بات کی ہے ۔یہ ایک مثبت سوچ ہے ۔اس سے سماج میں بڑھتے ہوئے اخلاقی بگاڑ اور نو عمر لڑکوں اور لڑکیوں کی طرف سے پیش آنے والے جنسی جرائم کو روکنے میں مدد ملے گی ۔اسلام میں اگر چہ نابالغوں کے نکاح کی حوصلہ افزائی نہیں کی گئی ہے ،لیکن مختلف مصالح کے تحت اس کی گنجائش رکھی گئی ہے ۔سماج کے بعض طبقات میں بچپن کی شادی کا رواج پایا جاتا ہے، لیکن اس کی اصلاح ترغیب اور عوامی بیداری کے ذریعہ ہونی چاہیئے ۔لوگوں کو اس کے نقصانات سمجھائے جانے چاہیئے ۔اس کیلئے قانون سازی کی ضرورت نہیں ہے ،کیوں کہ ہر مسئلہ کو قانون کے ذریعہ حل نہیں کیا جاسکتاہے ،اور یہ بات بھی قابل غور ہے کہ مسلمانوں میں ایسی شادی کارواج بہت کم ہے اور جیسے جیسے تعلیمی رجحان بڑھ رہاہے ،کم عمری کی شادی کے واقعات کم ہوتے جارہے ہیں۔
بورڈ کے ترجمان مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے کہا کہ *آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کا موقف واضح ہے کہ مسلم پرسنل لاء مسلمانوں کے مذہب کا حصہ ہے ،اگر مسلمان بھی چاہیں تو اس میں تبدیلی نہیں کرسکتے* ،۔اس لئے حکومت کو ایسی کوششوں سے باز آجانا چاہیئے ۔ہاں بعض سماجی برائیاں دوسرے مذہبی گروہوں کی طرح مسلمانوں کے درمیان بھی پائی جاتی ہیں ،ان برائیوں کو دور کرنا چاہیئے ۔بورڈ اس کام کو اپنے شعبہ اصلاح معاشرہ کے ذریعہ اپنے وسائل کے مطابق انجام دے رہاہے ،اگر حکومت اس شعبہ میں ہمارا تعاون کرنا چاہے تو ہم اس کا استقبال کریں گے ۔