Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Monday, September 3, 2018

لا کمیشن کی نصیحت۔سنگھ اور بی جے پی کے منھ پر طمانچہ۔


ملک کی تنقید غداریُ ملک نہیں
اس وقت ملک میں یکساں سول کوڈ کی ضرروت نہیں۔
لا کمیشن۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
ایڈوکیٹ محمد اخلاق خاں بہ شکریہ " وائر ہندی نیوز"۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
21 ویں لا کمیشن نے اپنی مدت کار کے آخری دن دو اہم تجاویز پیش کی ہیں جنکو میڈیا کے ساتھ ساتھ سرکار نے بھی گول کر دیا ہے اور سوشل میڈیا پر بھی لکھنے والوں نے اس طرف دھیان نہیں دیا ۔
پہلی تجویز یہ ہے کہ ملک پر تنقید کرنا غداریُ ملک  کے زمرے میں نہیں آتااور دوسرے یہ کہ یکساں سول کوڈ کی نہ تو ابھی ضرورت ہے اور نہ ہی تقاضہ۔کمیشن نے شادی۔(نکاح) طلاق۔گزارا بھتہ سے متعلق قوانین اور مرد و زن کی شادی کی عمروں میں تبدیلی کی سفارش کی ہے۔
21واں لا کمیشن مرکز کی مودی سرکار نے 29 اپریل 2016 میں جسٹس بی ایس چوہان کی سر براہی میں بنایا تھا اور وزارت قانون نے 17 جون 2016 کو کمیشن سے کہا تھا کہ وہ " یکساں سول کوڈ"کے معاملے کو دیکھے۔لا کمیشن نے جو رپورٹ دی ہے وہ مودی سرکار پر ہی نہیں بلکہ پورے بھگوا ایجنڈے کے منھ پر طمانچہ ہے۔
ملک پر تنقید کرنے پرسیٹی سن کی دفعہ124 A لگا کر سلاخوں کے پیچھے کر دینے والی سرکار کو لا کمیشن کی ان تجاویز کو عمل میں لانا ہی چاہیئے، دیش کی کمی پر تنقید ملک مخالف و غداریُ ملک جرم ہو ہی نہیں سکتا۔اور مودی سرکار اپنے یکساں سول کوڈ کے جس پشتینی ایجنڈے پر عمل کرتے ہوئے شریعت اور مسلم پرسنل لا پر حملہ ور تھی ، لا کمیشن نے اسے آئینہ دیکھا دیا۔
اگر چہ یکساں سول کوڈ سنگھ اور مودی سرکار کے تمام جملوں کی طرح ہی ہے کیونکہ مندر ہو یا کشمیر یہ سب عدالت اور آئین سے جڑے ہوئے ہیں۔یکساں سول کوڈ پر سرکار نے کچھ کیا ہی نہیں صرف معاملہ لا کمیشن کے حوالے کرنے کے۔جبکہ یکساں سول کوڈ سنگھ اور بی جے پی کا ہمیشہ سے اہم مدعا رہا ہے۔
در اصل یکساں سول کوڈ کو لیکر ایسی شبیہ بنا دی گئی ہے کہ اس سے صرف مسلمانوں کی شریعت اور پرسنل لا ہی ختم ہوگا جو کہ سراسر جھوٹ ہے۔اس ملک میں ہر مذہب و درج ذات فہرست و قبائل کا ایک پرسنل لا ہے اور سب کے مذہبی اور سماجی مفاد اسی لا /قانون میں محفوظ ہیں جس کے ذریعہ۔ان سب مذہبی و قبائلیوں کے لئے تو صرف مروجہ  روایتی و  مذہبی قانون کی جفاظت کی گئی ہے جبکہ اسی طرح کے قانون ہندو ان ڈیوائڈیڈ فیملی۔(غیر منقسم ہندو خاندان)۔ کے تحت ٹیکس میں چھوٹ دے کر مالی فائدے بھی دئیے جاتے ہیں۔یکساں سول کوڈ کا سب سے بڑا نقصان تو ہندووں کو ہی ہونیوالا ہے جن کے پورے ملک میں مختلف صوبوں میں مختلف طرح کے رسم و رواج رائج ہیں۔
لا کمیشن کی ان آرا ء و تجاویز کی بنا پر اب تو بی جے پی اور سنگھ کی اندھی تقلید کرنے والوں کی آنکھیں کھل جانی چاہئےکہ مودی سرکار اور سنگھ جھوٹے نعروں سے کب تک ان کو بیوقوف بناتے رہیں گے۔

صدائے وقت۔