Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Wednesday, September 5, 2018

یوم اساتذہ یا یوم احتساب۔

محمــد خـالـد ضیـا صـدیقی نـدوی کی قلم سے۔ 
بشکریہ مولانا سراج ہاشمی صدائے وقت۔
    . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 

       آج" یوم اساتذہ" ھے، آج بڑے ھی تزک واحتشام کے ساتھ سابق صدر " رادھاکرشنن " کے یوم پیدائش کے موقع پر اسکولوں میں "یوم اساتذہ " منایابلکہ صحیح ترتعبیر میں منوایاجائےگا، طلبہ اور طالبات اپنے ٹیچر کو اپنی پسند کے اور زیادہ تر ان کی پسند کے تحفے اور تحائف پیش کریں گے، پورے اسکول میں جشن کاسماں ھوگا، نوع بنوع کےتحفے اور تحائف سے اسکول کا پورا کیمپس باغ وبہار میں ڈوبا اور خوشیوں سے نہایا ھوامعلوم ھوگا، بس یوں سمجھئے  : 

    روش روش نغمۂ طرب ھے، چمن چمن جشن رنگ وبو ھے۔
طیور شاخوں پہ ھیں غزلخواں، کلی کلی مسکرارھی ھے ۔

   اس موقع سے کچھ پروگرام بھی پیش ھونگے جن  کی یاددھانی اور  تیاری بقول جناب عبدالودود انصاری   " بہت پہلے سے کرائی جاتی ھے ........ ایسا بھی دیکھنے میں آیا ھے کہ پروگرام کی تاریخ جیسے جیسے قریب آتی جاتی ھے، استاد بچوں سے بڑی شفقت سے پیش آنے لگتے ھیں؛ لیکن سوال یہ پیداھوتا ھے کہ کیااستادوں کی شفقت پروگرام کے بعد بھی ایسی ھی رہ جاتی ھے؟ ھرگزنہیں " ـ

      گویا ۵ / ستمبر کی یہ تاریخ ھرسال آکر اساتذہ کورسمی سی خراج عقیدت پیش کرکے چلی جاتی ھے، اور اساتذہ بھی رسمی طرزتشکر وامتنان سے طلبہ کی محبتوں کی وقتی قدر کرتے ھوئے پھر اپنی افتادطبع کے مطابق سرگرم سفر ھوجاتے ھیں ـ 

    آئیے آج کی اس نششت میں ھم کھلے ذھن کے ساتھ اور بے لاگ انداز میں یہ جائزہ لینے کی کوشش کرتے ھیں کہ استاد کہتے کسے ھیں؟ وہ کیسے ھوتے ھیں؟ ان کے اوصاف کیا ھیں؟ ان کے فرائض کتنے نازک ھیں؟ دین اسلام میں اساتذہ کاکیا مقام ھے؟ آج کے اساتذہ اور کل کے اساتذہ میں کیا کچھ فرق تھا۔

   " استاد ایک فارسی لفظ ھے، جس کے معنی سکھانے والا، کامل فن، مشاق وغیرہ کے ھوتے ھیں ـ قدیم وسطی دور سے جب بنی نوع انسان نے یہ محسوس کیا کہ علم کے حصول اور اس کی اشاعت میں ھی انسان کی اچھی شخصیت، درندگی سے نجات، اجتماعی زندگی، اچھے سماج کی تعمیر، تہذیب وشائستگی اورتوھمات وجہالت کی جکڑ بندیوں سے آزادی جیسے عناصر مضمر ھیں، تواپنے محسوسات کو عملی جامہ پہنانے کے لئے حصول علم کی جانب متوجہ ھوا، حصول علم کے بعد جوطبقہ علم کی اشاعت میں مصروف ھواوہ" استاد" کہلایا، جسے ھمارے ھندوستان کی گنگاجمنی تہذیب نے ایک طرف پنڈت، ادھیاپک، گرو، اپادھیہ، اپدیشک، شاستری اور شکھچھک کے نام سے یادکیا، تو دوسری طرف معلم، مدرس، استاذ، علامہ، شیخ، پیر، آموزگار، مربی، واعظ،

     دنیاکی کسی مذھبی کتاب کویہ عزت حاصل نہیں ھے کہ اس کاآغاز  "پڑھنے لکھنے " اور" علم وقلم" کے حوالےسے ھواھو، یہ دین اسلام ھی ھے جس کے سرپر " اقرأ "کاتاج رکھ کر یہ مژدہ سنایا گیا کہ اب جوامت برپاکی جانے والی ھے وہ " علم وقلم"  کے ھتھیار سے لیس ھوگی، اور  "تعلیم وتعلم"  اس کا طغرائے امتیاز ھوگا، یہی وجہ ھے کہ پیغمبر آخرالزماں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو " معلم انسانیت " بناکر مبعوث فرمایاگیا ، اس طرح شان علم کودوبالاکردیاگیاـ    حتی کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مقاصد بعثت میں سے اھم ترین  مقصد" تعلیم وتربیت" کو قراردیاگیا ہے۔
    قرآن وحدیث روشنی آپ اندازہ لگا سکتے ھیں کہ اسلام نےدین اور علم دونوں کے دامن کو کتنے توازن اور خوبصورتی کے ساتھ ایک دوسرے سے باندھ دیا ھے، اور اس کے بین السطور سے آپ کی ذھانت اس بات کابھی اندازہ کر لے گی کہ اسلام ایک استاد کوکس عزت واحترام کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔
     استاد کی حیثیت چونکہ ایک اسوہ اور ماڈل کی ھوتی ھے، اس لئے بہت ضروری ھے کہ ایک استاد کی زندگی اسے طالب علم کی زندگی سے ممتاز کرتی ھو،اس کاطرززندگی طالبعلم کے طرز حیات سے نہایت ھی اعلی اور بلند ھو، کیونکہ  بقول جناب عبدالودود انصاری:   "..... شاگرد اپنے استاد کی درس وتدریس کے سوا اس کے حرکات وسکنات اور عادات واطوار کابغور مشاھدہ ھی نہیں کرتا بلکہ انہیں اپنانے کی کوشش بھی کرتا ھے؛ اس لئے استاد کووہ تمام عادتیں اور خصلتیں اختیار کرنی چاھئیے جنہیں وہ بچوں کو اپنانے کی ترغیب دیتا ھے، کبھی کبھی تو کسی بڑے کو اپنا "ھیرو " بناکر اس کی ھراداکو اپنے اندر پیدا کرناچاھتا ھے؛ اسی لئے استاد کو بچوں کاصرف استاد نہیں ھوناچاھئیے؛ بلکہ اس کا " ھیرو " بھی ھونا چاھئیے " ـ
          علمااوراساتذہ پرواجب ھے کہ وہ بزم وخلوت میں ہر جگہ اپنے تمام اقوال وافعال اور حرکات وسکنات میں خوف خداوندی کو ملحوظ رکھیں؛ کیونکہ جوعلوم انہیں ودیعت کیے گئے ھیں ان کے حقیقی نگہبان اور امانت دار وھی ھیں ۔
        علماکی زندگی متانت اور وقار کی ھونی چاھئیے، حضرت عمررضی اللہ عنہ کاارشاد ھے:  " علم حاصل کرو اور اس کے لیے متانت اوروقار پیداکرو "ـ

   قتیبہ امام مالک کے درس کی مجلس کے متعلق کہتے ھیں: " امام مالک کی مجلس وقار، حلم اور علم کی مجلس تھی، وہ پروقار اور اچھی خصلتوں والے تھے، ان کی مجلس میں شوراور ہنگامہ نہ ہوتا تھا۔
            شریعت کی پابندی کرنا معلموں اور عالموں کاسب سے پہلا فرض ھے، وہ اسلامی شعار اور ظاھری احکام کے پورے پابند ھوں ......... کیوں کہ علمااور اساتذہ ھی عام مسلمانوں اور طالب علموں کے پیشوا ھیں، اگرایک عالم اپنے علم سے خود فائدہ نہ اٹھائے تودوسرے اس سے کیونکر فائدہ اٹھائیں گے ـ
           انہیں محاسن اخلاق کے زیور سے آراستہ ھونا چاھئیے، ان کی سراپازندگی پاکبازی اورقناعت میں بسر ھو......... مجموعی طورپر اچھے اخلاق اور عمدہ عادتیں توبہ،  استغفار،اخلاص ویقین، صبروتقوی، قناعت ورضا، زھد، توکل، صفائی باطن، حسن ظن، تجاوز، درگذر، حسن خلق، احسان، شکرنعمت، مخلوق پرشفقت، شرم وحیا اور محبت الہی ایسے جامع خصائل ھیں جنہیں پیداکرنا چاھئیے ـ
           دوسری طرف انہیں ھرقسم کے برے اخلاق سے اپنادامن پاک اور صاف رکھناچاھئیے، خصوصاً بغض، حسد، کینہ، تکبر، بخل، خباثت نفس، خودپسندی، فخر، غیبت، چغل خوری، جھوٹ، بہتان، حرص، طمع، مداھنت، نمودونمائش، فحاشی، ھزل گوئی، ٹھٹھا، بیہودہ مذاق اور دنیاطلبی .....  یہ ایسے برے اخلاق ھیں جن سے علماکو بلند اور برتر رھناچاھئیے ـ 
         اساتذہ اور علماکافرض ھے کہ وہ خود بھی علم کی عزت کریں اور اپنے کسی طرزعمل سے کوئی ایساموقع نہ آنے دیں کہ علم کے احترام کو صدمہ پہونچے ـ
           علم کے احترام کے لئے یہ ضروری ھے کہ وہ ایسے چھوٹے پیشوں کواختیارنہ کریں جواھل علم کے شایان شان نہ ھوں ـ

  ۸ ـ تہمـت کے مــوقعــوں سے اجتــناب :

      انہیں تہمت کے مشتبہ موقعوں سے بھی بچنے کی ضرورت ھے ـ

   ۹ـ مشـــاغل کی پابنــدی اور اوقـــات کی حفــاظت :

       علماواساتذہ کافرض ھے کہ وہ کوشش اور محنت میں ھمیشہ مصروف رھیں ...... انہیں اپناوقت سب سے زیادہ عزیز رکھناچاھئیے، مختلف غیرعلمی وتعلیمی مشغولیتوں کھانے پینے، ملنے ملانے، راحت وآرام حاصل کرنے اور خانگی زندگی میں وقت گذارنے میں کم سے کم وقت صرف کریں ـــــ حقیقت یہ ھے کہ علم کامرتبہ رسولوں کی جانشینی کے درجے تک پہونچانا ھے، یہ بلند مرتبہ تکلیفیں اور مشقتیں اٹھائے بغیر حاصل نہیں ھوسکتا ـ

  ۱۰ـ مطالعــہ کااستــمرار : 

          علمااور اساتذہ کومطالعہ کاسلسلہ ھمیشہ جاری رکھناچاھئیے، حضرت سعید بن جبیر فرماتے ھیں :  " عالم اسی وقت تک عالم رہ سکتا ھے جب تک وہ طالب علم ھے، جب وہ پڑھناچھوڑدے اور سمجھے کہ وہ علم سے بے نیاز ھوگیا اور جوکچھ اس نے حاصل کرلیا وہ اس کے لئے کافی ھے، توایساسمجھنے والا سب سے بڑاجاھل ھے "
          علما کے لئے تویہ بھی معیوب نہیں کہ وہ اپنے چھوٹوں سے استفادہ کریں، حکمت مومن کی کھوئی ھوئی دولت ھے اسے جہاں پائے اٹھالے، اشہب بن عبدالعزیز کہتے ھیں :  " میں نے  (امام) ابوحنیفہ کو (امام) مالک کے سامنے ایسادیکھا جیسے کوئی بچہ باپ کے سامنے ھو " ـ  اس پر امام ذھبی فرماتے ھیں کہ: " یہ(امام) ابوحنیفہ کے حسن ادب اور تواضع کی بڑی دلیل ھے، حالانکہ وہ (امام) مالک سے تیرہ سال بڑے تھے " ـ
             علماکایہ بھی فرض ھے کہ وہ تصنیف اور تالیف میں مشغول رھیں، لیکن یہ دشوارگذارراہ اسی وقت اختیارکریں جب اس پر چلنے کی پوری استعداد آگئی ھو اور اثنائے راہ کی منزل کی دشواریوں سے پوری آگاھی ھو ....... اپنی تصنیف کے لئے ایسا موضوع منتخب کریں جس کانفع عام ھو اور لوگوں کواس کی ضرورت ھو، عبارت میں اعتدال قائم رکھیں .... اپنی تصنیف اس وقت تک شائع نہ کریں جب تک اس پر نئے سرے سے نظرثانی نہ کرڈالیں ........ اگرتصنیفی استعداد موجود نہ ھوتو ھرگز قلم ھاتھ میں نہ اٹھائیں؛ کیونکہ ھرعالم کے لئے مصنف ھوناضروری نہیں ـ 
             استاد شاگردوں کے ساتھ غیر معمولی شفقت، لطف اور محبت سے پیش آئے، ان کے اخلاق وعادات کی نگرانی اور ان میں اسلامی پاکبازی اور پرھیزگاری پیداکرنے کے علاوہ ان کی ھرقسم کی ضرورتوں پر نگاہ رکھے ـ انکی کی پوشیدہ مالی امداد کرے، بیمار پڑنے پران کی عیادت، اور مصیبت میں تعزیت اور غمگساری کرے ـ
        استاد کواپنے پیشے سے بھرپور دلچسپی اور رغبت بھی ھونی چاھئیے، اکثروبیشتر بہت سارے استادوں سے یہ کہتے سناگیا ھے کہ اسے درس وتدریس کاارادہ بالکل نہیں تھا مگر بحالت مجبوری یاحادثاتی طورپر استاد بن گیا، بعض تویہ بھی کہتے ھیں کہ میری قسمت خراب تھی کہ اسکول میں ٹیچر کی نوکری کررھاھوں؛ ورنہ میراارادہ توافسر بننے کاتھا ـ اگراس طرح کی بات استاد کے اندر ھوگی تووہ کبھی کامیاب اور مفید استاد نہیں بن سکتا، خواہ کتنا ھی تعلیم یافتہ ھو " ـ

        کسی استاد کاامتحان صرف کلاس میں درس وتدریس کے دوران ھی نہیں ھوتا؛ بلکہ اسکول کے دوسرے استادوں اور دیگر عملوں کے ساتھ اس کے تعلقات کی بناپر بھی ھوتا ھے ـــ ھراستاد کو اپنے ساتھی استاد اور دیگر اسٹاف

             استاذ کومجلس انتظامیہ کے ساتھ پوراتعاون کرنا چاھئیے ....... لیکن یہ بھی درست ھے کہ مجلس انتظامیہ کی بے جا جی حضوری استاد کی شان کے خلاف ھے، بعض اوقات استاد تھوڑی سی مراعات حاصل کرنے کے لئے مجلس انتظامیہ کے افراد کو فرشی سلام کرتے ھوئے نظرآتے ھیں ـ  یاد رکھیےکہ ایسے استادوں کووہ مقام حاصل نہیں ھوتا جیسا مقام ایک استاد کو ھونا چاھئیے ـ

          

                     ( ایضاً :  ۵۹)

💠 طلـــبہ کی تــراش خـــراش اورکـــردار ســـازی مــیں اســـتاذ کارول :

     جناب عبدالودود انصاری صاحب نے کیا خوب لکھا ھے کہ:  " معلم آسمان تعلیم کاایسادرخشندہ ستارہ ھے جس کی روشنی سے کئی نسلیں فیضیاب ھوتی ھیں، یہ تو سبھی جانتے، مانتے اور اس کااظہارواعتراف بھی کرتے ھیں کہ بچے قوم کی امانت اور اس کے روشن مستقبل کے علمبردار ھوتے ھیں، ایک اچھے معاشرے کی تخلیق کے لئے بچے ھی قوم کااھم ترین سرمایہ اور خزانہ ھوتے ھیں، اور انہی کے کاندھوں پر آنے والے دنوں میں قوم وملک کی عمارتیں کھڑی ھوں گی، لہذا اس خزانے کی حفاظت استاذ پر ھی ھوتی ھے اور ان بچوں کو بہترین معمار استاد ھی بناسکتا ھے ـــــــــــ ایک چینی کہاوت بہت ھی مشہور ھے  " اگر ایک سال کامنصوبہ بنارھے ھوتو کاشت کرو، دس سال کامنصوبہ بنارھے ھوتو شجرکاری کرو، اوراگرسوسال کامنصوبہ بنارھے ھوتو انسان سازی کرو " ـــــــــ یقیناً انسان سازی کاکام صرف اور صرف معلم ھی احسن طور پر کرسکتا ھے:

 

   ایک معلم ھی توعرفان خدادیتاھے

   فرد کونفس کی پہچان کرادیتا ھے

         

            ( حوالۂ سابق :  ۱۸ــ ۱۹ )

     بچوں کی کردار سازی میں استاذ کو ھمیشہ پرامید رھنا چاھئیے، کبھی مایوسی اور قنوطیت کو اپنے پاس نہیں پھٹکنے دینی چاھئیے ـ

  ⭐ بڑے اچھوتے انداز اور خوبصورت پیرائے میں استاد کے اس پہلو کو خراج عقیدت پیش کرتے ھوئے آزاد ھندوستان کے معززصدر، ماھر تعلیم اور کامیاب معلم ڈاکٹر ذاکر حسین فرماتے ھیں:  " بچے کی طرف سے جب ساری دنیا مایوس ھوجاتی ھے توبس دوآدمی ھیں جن کے سینے میں امید باقی رھتی ھے، ایک اس کی ماں اور دوسرااچھااستاد " ـ

( امنگ، نئی دھلی، جولائی ۲۰۰۹ ء)

   ⭐ "پگمے لین " نے استاد کی خاصیت کو اجاگر کرتے ھوئے لکھا ھے :  " ہر مخلص معلم اپنے تجربات کے دوران بے ھنگم اور بدصورت پتھر سے ایک خوبصورت اور متناسب مجسمہ تراشتا ھے اور پھر اس میں جان ڈالتا ھے " ـ

  ( استاد ایک عظیم شخصیت :  ۳۱)

   ⭐ ماھرتعلیم "ھمایوں کبیر"  نے استاذ کی ذمہ داری کو اس طرح اجاگر کیا ھے : " استاد کاکام صرف یہ نہیں ھے کہ ایک بالٹی سے دوسری بالٹی میں رقیق انڈیلنے کی طرح بچوں میں تعلیم دے ـ

               ( حوالۂ سابق)

    ⭐ ڈاکٹر ذاکر حسین صاحب لکھتے ھیں :  " تدریس میں یہ نہیں ھوناچاھئیے کہ استاد کی نوٹ بک سے طالب علم کی نوٹ بک میں تعلیم منتقل ھوجائے " ـ

                           ( ایضاً)

   ⭐ علامہ اقبال رحمۃ اللہ فرماتے ھیں :  "  معلم کافرض تمام فرائض سے زیادہ دشوار کن اور اھم ھے، کیونکہ تمام قسم کی اخلاقی، تمدنی  اور تہذیبی نیکیوں کی کلید اسی کے ساتھ ھوتی ھے اور تمام قسم کی ملکی ترقی کاسرچشمہ اسی کی محنت ھے " ـ

                          (حوالۂ سابق)

    ⭐ نظیرنیشاپوری نے استاد کی خاصیت کو بڑے ھی اچھے انداز میں فارسی کے شعر میں پیش کیا ھے :

   درس ادیـــب اگربودزمزمۂ محبتے

   جمعہ بمکتب آورد طفل گریز پائے را

( اگراستاد کاسبق محبت کاٹھنڈا میٹھا چشمہ بن جائے تو مکتب سے بھاگا ھوا طالب علم چھٹی کے دن بھی استاد کے پاس کھنچا چلاآتاھے) 

         ( حوالۂ سابق :  ۳۱ ــ ۳۲ )

   ⭐ احمد سعید صاحب کہتے ھیں کہ :  "   چاند کی روشنی یہ نہیں دیکھتی کہ تاریک گوشوں کو چھوڑدے اور روشن حصوں کواور روشنی فراھم کرے، نسیم صبح گاھی اپنے خرام ناز سے پھولوں کو بھی زندگی عطاکرتی ھے اور خاشاک کو بھی مژدۂ سحر سناتی ھے، استاد کامقام چاند کی روشنی، نسیم صبح گاھی کے خرام ناز اور والدین کی شفقت سے کہیں زیادہ اھم ھے " ـ

                    ( ایضاً : ۳۳) 

 

         اس سے پتہ چلاکہ " استاد کاکمال یہ نہیں کہ وہ کتنالائق وفائق ھے اور اپنے نام کے ساتھ کتنی ڈگریاں لکھتا ھے ........... بلکہ اس کا کمال یہ ھے کہ اس نے کتنے باکمال شاگرد پیدا کیے، یقین جانیے استاد اگر چاھے تو اپنی کیمیاگری سے مس خام (شاگرد)  کوکندن اور پتھر ( شاگرد)  کو پارس بناسکتا ھے " ـ

              

                  ( حوالۂ سابق : ۲۳ )

  🍀🍀 ماضی قریب میں مدارس دینیہ کے پس منظر میں حضرت شیخ الھند اور علامہ شبلی نعمانی رحمۃ اللہ علیہما کی شخصیت صرف ایک استاد کی نہیں تھی؛ بلکہ سچ پوچھیے تو ایک مجسم ٹکسال کی تھی جس سے مختلف صلاحیتوں کی حامل شخصیتیں ڈھل ڈھل کرنکلتی رھیں،   اگر بقول مولاناسید انظر شاہ کشمیری رح :  " علامہ انور شاہ کشمیری، مولاناعبید اللہ سندھی، مولانا حسین احمدمدنی، مولاناکفایت اللہ صاحب، علامہ شبیر احمد عثمانی، مولانا اعزازعلی صاحب، مولانا فخرالدین مرحوم مولانا محمد ابراھیم بلیاوی وغیرہ آپ ( شیخ الھند)  کے وہ تلامذہ ھیں جوآپ کے کمالات علمی وعملی کاتعارف ھیں " ـ

  ( تفصیل کے لئے دیکھیں : لالۂ وگل:  ۳٤ )

  تودوسری طرف بقول مولانا عبدالماجد دریابادی:   جن لوگوں کو ان (شبلی نعمانی)  کی اتالیقی اور دست شفقت نے تصنیف وتالیف کی اونچی کرسی تک پہنچایا، ان کی مکمل فہرست کوئی تیار کرنا چاھے تواسے خاصی طوالت سے کام لینا پڑے، لیکن چند نام لے دینے تو بہر صورت واجب ھیں،  اور چند کیامعنی جونام سر فہرست ھے وہ ایک ہی ایسا ھے جو شاگرد کے ساتھ خود استاد کانام بھی چمکادینے کو کافی ھے، اس سے مراد آپ خود ھی سمجھ گئے ھوں گے "مولاناسید سلیمان ندوی" ھیں جو حقیقی جانشین شبلی اعظم کے رھے، ندوہ اور اس کے دارالعلوم ہی کے سیاق میں نہیں بلکہ اس سے بھی بڑھ کر تصنیف وتالیف کے سلسلے میں ــــــ اور پھر آگے چلیے تو عبدالسلام ندوی مرحوم اور مولانا عبدالباری سلمہ اللہ ( مرحوم)  اور ضیاءالحسن علوی مرحوم اور مولوی اکرام اللہ خاں مرحوم، سید ظہور احمد وحشی مرحوم، اور حاجی معین الدین مرحوم اور پروفیسر عبدالواجد مرحوم کے نام بے ساختہ یاد پڑجاتے ھیں، بلکہ اگر باضابطہ شاگردی کی قید اڑادیجئے تو مولاناابوالکلام (آزاد) مرحوم اور مولانا عبداللہ عمادی کے سے بزرگوں کے نام بھی اس صف میں آسکتے ھیں، اور اس مقالہ نویس کی تو کچھ پوچھیے ھی نہیں، اس بے علمے کوتو جو کچھ الٹاسیدھا لکھنالکھاناآیا وہ اسی آستانہ کافیض ھے " ـ

    ( معارف، مارچ ١٩٦٥ء، ص: ٢٠٠ ــ ٢٠١)

      یہ تھے کل کے اساتذہ!  لیکن آج کے اساتذہ کا کیا حال ھے؟ آئیے ایک نظر اس پر بھی ڈال لیں ـ

   آج کااستاد بقول جناب عبدالودود انصاری صاحب:   " پہلے کے استاد کی بہ نسبت زیادہ تعلیم یافتہ اور سند یافتہ ھوتا ھے ........  لہذاآج کی تدریس بھی پہلے کی بہ نسبت اچھی ھونی چاھئیے، پھر بھی نہ جانے کیوں سبھوں کی زبان پر ایک بات مشترک سننے کو ملتی ھے کہ آج اسکولوں میں پہلے جیسی پڑھائی نہیں ھوتی، ھرشخص اپنے ماضی کے استادوں کی تعریف کرتاھوا نظرآتا ھے، اور بہت حدتک یہ سچ بھی ھے، اور اگر سچ ھے تو اس کی مثال تو بس ایسی ھوئی کہ پہلے کے استاد کے پاس دس روپے ھوتے تھے تووہ پورے دس کے دس بچوں کودیدیتے تھے، اور آج کے کے استاد کے پاس ھزارروپے ھیں جن میں سے دوسو روپے بھی دینے میں انہیں ناگواری ھوتی ھے " ـ

   (استاد ایک عظیم شخصیت :  ۵۵ ـ ۵٦)

      بالفاظ دیگر آج کے اساتذہ اپنے فرض منصبی کو ایمانداری سے نہیں نبھارھے ھیں، حیرت ھوتی ھے کہ اسکول اور مدرسہ کے تعلیمی اوقات میں بعض اساتذہ اتنی محنت اور مستعدی سے نہیں پڑھاتے جتنی محنت سے وہ ٹیوشن پڑھاتے ھیں، اسی لئے مرحوم ضیاءالدین اصلاحی صاحب کو لکھنا پڑا کہ:  " اساتذہ بھی بیگاری کی طرح اپنے مفوضہ کام انجام دیتے ھیں، انہیں تعلیم وتربیت کی مطلق فکر نہیں ھوتی " ـ

     (  مسلمانوں کی تعلیم :  ۷۹ )

    جناب قیصر شمیم صاحب تو اپنے تلخ احساسات کو چھپا نہ سکے اور  قوم کے احساسات وخیالات کی ترجمانی کرتے ھوئے وہ یہاں تک کہہ گئے کہ:  " عام طور سے استاد کو " معمار قوم " کے لقب سے یادکیاجاتا ھے؛ لیکن استاد اگر غفلت شعار ھو اور اپنے فرائض منصبی دیانت داری سے انجام نہ دے تولوگوں کو اسے " معمارقوم " کہنے کے بجائے " غارت گرقوم " یا "تخریب کارقوم " کہنے میں دیر نہیں لگتی " ـ

 

     ( استاد ایک عظیم شخصیت :  ۸)

    🌺  لیکن ان تمام چیزوں سے قطع نظر ھمیں یہ تسلیم کرنا چاھئیے کہ استاد کی حیثیت ایک محسن کی ھوتی ھے؛ اس لئے طالبعلم کافرض ھے کہ وہ استاد کو عظمت کی نگاہ سے دیکھے ، اس کی عدم موجودگی میں بھی اس کانام تعظیمی الفاظ بڑھائے بغیر اپنی زبان پر نہ لائے، حتی کہ اگر استاد کی طرف سے کبھی کوئی زیادتی یا بدخلقی کامظاھرہ ھوجائے تب بھی اس کی بافیض صحبت میں جانے سے گریز نہ کرناچاھئیے، اس سے ھم کلام ھونے میں ھمیشہ ادب اور تہذیب کاخیال رھنا چاھئیے، اس کی زندگی میں اس کے لئے بھلائی کی دعاکرنی چاھئیے اور اس کی وفات کے بعد اس کی قبر کی زیارت کرکے اس کے لئے مغفرت کی دعامانگنی چاھئیے ـــــــــــــ کیونکہ استاد نہ ھوتے تو ھم کچھ بھی نہ ھوتے ـ سچ ھے کہ اللہ تعالی نے اپنے بندوں میں سے استاد عطاکرکے ھم انسانوں پر کتنا عظیم احسان کیا ھے ـ کاش کہ اساتذہ اور طلبا دونوں اپنی اپنی ذمہ داریاں محسوس کریں ـــ آج کی تاریخ ھمیں اس بات کاسبق دینے آئی ھے کہ ھم اسے "یوم اساتذہ " سے زیادہ " یوم احتساب " کے طور پر منائیں ـ

  اٹھ کہ اب بزم جہاں کااور ھی انداز ھے

  مشرق ومغرب میں تیرے دور کاآغاز ھے