Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Wednesday, September 5, 2018

مسلمانان ہند ،موجودہ حالات و مسائل۔

بابو۔ دجانہ  ۔ کے قلم سے۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
ایک اہم تجزیاتی تحریر،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم سازشوں کا شکار ہوکر غیر ضروری پروپیگنڈہ اچھالنے کے کے بجائے سازشوں کو پہچان کر اصل سازش و اقدام کو اجاگر کریں اور قوم کو اصل مقصد کی طرف لے آئیں۔۔۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 

مسلمانانِ ہند، موجودہ حالات و مسائل، سوشل میڈیائی مفکرین، اختلافات میں بہتی ہوئی امت۔۔!!
. .  . . . . . . . . . . . . . .  . . . . . . . . . 
صدیوں پہلے جب سلطان صلاح الدین ایوبی رح نے قبلہ اول کو یہود و نصاریٰ سے واپس امت مسلمہ کے قبضے میں لینے کا عظیم عہد کیا تو مسلمانوں کی حالت بے حد خراب تھی، ان کی قیادتیں حرم تک محدود تھیں، تلواریں آپسی جنگوں میں استعمال ہو رہی تھیں، علماء مسالک میں الجھے ہوئے تھے، یہود کی بیٹیاں سلاطین کے حرم کی پسندیدہ ترین داشتہ ہوا کرتی تھیں، عیسائیوں نے کتنے ہی سرداروں کو خرید لیا تھا،
عوام حالات کو نظر انداز کر کے اپنی زندگی جینے میں مست تھی،

اور تاریخ گواہ ہیکہ روزِ اوّل سے ہی صلاح الدین رح کی راہ میں روڑے اٹکانے والے غیروں سے زیادہ اس کی صف کے لوگ تھے، اس کی قوم کے لوگ تھے، انہوں نے اس عظیم سلطان کا قدم روکنے کی کونسی سازش نہیں کی۔۔؟
حسیناؤں کو اس کے خیمے میں بھیجا، اس کے باڈی گارڈ میں چھپے حشیشین سے جان لیوا حملا کروایا، فوجی بغاوتیں ہوئیں، عوام اس کی فوج سے لڑنے کو اٹھ کھڑی ہوئی۔۔۔!!
پر کیا ہوا ۔۔؟
کوئی اس کا راستہ روک سکا۔۔؟
وہی صلاح الدین جو میدانِ جنگ میں اول صف میں رہ کر بے مثال جنگجو کی طرح دشمنوں کے دانت کھٹے کر دیا کرتا تھا اس کا معاملہ اس کے اپنوں کے ساتھ کیسا تھا۔۔۔؟؟؟

تاریخ وہی ہے سچ ہیکہ صلاح الدین نہیں ہے کیونکہ جو صفوں میں چھپے مفاد پرست لوگ ہیں وہ کسی ایوبی کو بڑھتا دیکھنا نہیں چاہتے۔۔۔
اور اگر کسی میں ایوبی جیسی صفات نظر بھی آتی ہیں تو وہ اپنے عزم پر نگاہ رکھنے کے بجائے ان نکموں میں الجھ کر رہ جاتا ہے۔۔۔

آج بھی ہمیں بے شمار سازشوں،حملوں، آپسی اختلاف، دور اندیشی کے فقدان جیسے گمبھیر مسائل کا سامنا ہے،
کس مسئلہ سے بات شروع کی جائے؟
قبلہ اول سے۔۔؟ شامی و افغانی و برمی مسلمانوں کی زبوں حالی سے۔۔؟

یا ہمارے ہند میں ہی مسائل میں سر تک ڈوبی ملت اسلامیہ کے مسائل سے؟
ہند میں درپیش کس مسئلہ پر گفتگو کی جائے۔۔؟؟
شرعی قوانین پر۔؟ تین طلاق؟ چار شادیاں ؟ پردہ؟ اذان؟ ہم چار ہمارے بیس کا طعنہ؟ راستوں پر نماز سے تکلیف؟ مدرسوں سے نفرت؟ عورتوں کی امامت؟ بابری مسجد؟ لوجہاد؟ گھرواپسی؟  قربانی بین؟ مولوی یوگا؟ ونڈے ماترم؟ وقف بورڈ ؟ مسلم پرسنل لا بورڈ ؟ فسادات میں بے قصور مسلمانوں کی گرفتاریاں؟ ماب لینچینگ؟ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا ایشو؟ اورنگزیب کا ایشو؟ خلیجی کا ایشو؟ تاج محل کا ایشو؟ لال قلعہ کا ایشو؟ مکہ مسجد بم دھماکوں کے الزام! اجمیر درگاہ بم دھماکوں کے الزام!
ممبئی ٹرین دھماکوں کے الزام!
10_10 سال تک بے قصور قید!
مسلم نوجوانوں کی گرفتاریاں!
مسلم علماء کرام کی گرفتاریاں!
حکومت کی پالیسی ہمارے خلاف!
پولیس محکمے ہمارے خلاف!
عدالتی فیصلے ہمارے خلاف!
پرینٹ میڈیا ہمارے خلاف!
الیکٹرانک میڈیا ہمارے خلاف!
موبائیل کمپنیاں ہمارے خلاف!

سر چکرا دینے والے ان سبھی میں سے کس مسئلے کا حل نکالا ہم نے۔۔؟؟؟

ہمیں فرقہ بندی کا شوق ہے، کبھی فرقہ کی شکل میں کبھی مسلک، ذات، برادری، علاقائیت، تنظیمی، نظریاتی ہم کہیں بھی اتحاد پیش نہیں کرتے ایسا لگتا ہیکہ بس ہمیں انتشار اور فرقہ بندی کرنے کا سبب چاہئے اور اِسی کا انتظار رہتا ہے۔۔!!!

اس وقت ملتِ اسلامیہ کا سب سے زیادہ نقصان سوشل میڈیا کے ذریعے کیا جا رہا ہے، جھوٹے پروپیگنڈے کو بڑھاوا کوئی اور نہیں ہمارے ہی لوگ دے رہے ہیں،
ہم ترکی اور پاکستان کے الیکشن میں خلافت ڈھونڈنے نکل پڑتے ہیں پر سر پر موجود 2019 کے الیکشن کی کوئی  فکر نہیں جس کے لیے سنگھ پریوار ناگپور دلی سے لیکر تل ابیب اور واشنگٹن تک بھاگ دوڑ کر رہا ہے، جس کا روڈ میپ تیار ہو چکا ہے، سبھی پانسے بٹھائے جا چکے ہیں۔۔۔

ہماری کیا تیاری ہے۔۔؟؟؟
ہمارے سوشل میڈیائی مفکرین اس تعلق سے کتنے فکر مند ہیں۔۔؟

میڈیا بکاؤ ہے کس طرح یہ ہندو توا کو پروموٹ کرر ہی ہے کوبرا پوسٹ 136 کی اس رپورٹ پر کوئی کچھ نہیں کہتا پر مولانا سلمان ندوی اور مولانا سجاد نعمانی کے اختلاف پر خوب طوفانِ بدتمیزی کھڑا کر دیا جاتا ہے،
اگنی ویش کے معاملے میں خاموشی اور اعجاز ارشد کا معاملہ ہاٹ ایشو کیسے۔۔؟
کیونکہ میڈیا سے زیادہ ہمارے سوشل مینڈکیوں نے اسے ہائی لائٹ کیا۔۔۔!

تین طلاق کے مسئلے پر سوشل مینڈکیئے بورڈ پر خوب لعن طعن بھیجتے رہے ایسا محسوس ہوتا کہ ہند میں یہی ایک مسئلہ رہ گیا ہے اور اسی کی آڑ میں موجودہ حکومت نے ایسے ایسے بل پاس کروائے ہیں جن کا فائدہ انہیں براہِ راست 19 کے الیکشن میں یا ہندو توا کو ہوگا جن میں سے ایک سیاسی پارٹیوں کو غیر ملکی فنڈنگ بھی ہے، پر یہ مفکڑین ان اہم مسائل سے بے خبر تھے،

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں سابق نائب صدرِ جمہوریہ حامد انصاری (جو سنگھ پریوار کی نظر می کھٹکتے ہیں) کی آمد پر بھگوا غنڈے حملہ آور ہوتے ہیں اور بہانہ محمد علی جناح کی تصویر ہٹانے کا ہوتا ہے۔۔طلبہ کے ساتھ مار پیٹ کرتے ہیں۔۔ اسی دوران اس متشددانہ اقدام پر مولانا محمود مدنی صاحب کا بیان آ جاتا ہے کہ وہ تصویر ہٹا دو۔۔۔،
اب تک کی کاروائی پر سوشل مینڈکیے خاموش رہتے ہیں پر مولانا کا بیان آتے ہی ایسے ان پر ٹوٹ پڑتے ہیں گویا انہوں نے ہی بھگوا آتنکیوں کا حملہ کروایا ہو ساتھ ہی جناح کے دفاع میں لگ جاتے ہیں اس کی تاریخ بتانا شرور کر دیتے ہیں۔۔۔۔۔ اور اسی چیخ پکار میں بھگوا غنڈوں کی دہشت گردی کا معاملہ دب جاتا ہے۔۔
ان غنڈوں کا کیا ہوا۔۔؟ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے طلبہ پر اس دوران کیا بیتی۔۔؟؟
کسی کو کچھ نہیں پتہ۔۔! کیونکہ مولانا محمود مدنی کے بیان میں لوگوں کو الجھا دیا گیا۔۔!!!

چالیس لاکھ سات ہزار ہندوستانیوں کو گھس پیٹھیا قرار دے دیا جاتا ہے اور یہ سوشل مینڈکیوں نے فوراً جمعیت علماء اور دیگر اکابرین پر بھونکنا شروع کر دیا کہ یہ ان کی غلطی ہے۔۔۔
ہونا کیا چاہئے؟
ایک ہزار کروڑ روپے میں ایک رجسٹر تیار ہوتا ہے، جس میں سابق صدرِ جمہوریہ اور سابق فوجی اور کئی سابق سرکاری افسران کے علاوہ سیاستدانوں کو بھی نام ہوتا ہے، اور ایک گھرانے کے آدھے فرد کا نام ملتا ہے آدھے کا ندارد، املا کی غلطیاں بے شمار۔۔۔!!! کیا عوام سے کل ایک ہزار کروڑ رقم اسی بے کار سے رجسٹر کے لیے وصول کی گئی؟ جسے سپریم کورٹ، ریاستی وزیر داخلہ اور سی ایم تک ریجیکٹ کر دیتے ہیں۔۔۔
ہمیں اس فرسودہ سرکاری نظام کو نشانہ بنانا چاہیے نا کہ ہماری ہی تنظیموں کو۔۔!!
پر کیا کہنے مفکڑین کے۔۔!!!

دیوبند میں ہورہے سیمینار اور تعزیتی پروگرام کی ہی بات کر لو،
انہی دنوں شمالی بھارت میں کانوڑیوں نے دہشت مچا رکھی تھی، مسلمان خود کو غیر محفوظ سمجھ رہے تھے اور دوسری طرف اتل کلکرنی (اے ٹی ایس) کی طرف سے ایک کٹر ہندو تنظیم سناتن سنستھا جو پہلے بھی ہندوستان کے کئی بم دھماکوں اور معروف سیکولر شخصیات کے قتل میں ملوث پائی گئی ہے اس کے تین کارکنان بم بناتے ہوئے پکڑے گئے۔۔۔
پر مسلم قوم میں منہ میاں مٹھو سوشل میڈیائی مفکرین کون سے معاملے میں لب کشائی کرتے رہے۔۔۔؟؟؟؟
کسی نے کانوڑیوں اور سناتن سنستھا پر ایک لفظ نہیں کہا (ہو سکتا ہے بھولے بھٹکے کہا ہو پر ہم غالب گمان لیں گے جو ثابت بھی ہیں) پر دیوبند کے اُن کے اندرونی مسائل پر بازار گرم کرنے پر تل گئے گویا ہندوستان میں یہی ایک قضیہ رہ گیا ہو۔۔۔!

کیا سوشل مینڈکیوں نے تنقید اور خرافات کے سوا کبھی قومی تعمیر کی بھی فکر کی ہے؟؟؟ کبھی قومی مسائل پر بھی لب کشائی اور تحریر بازی کی ہے؟

گذشتہ چند سالوں سے ہماری قوم میں یہی ہو رہا ہے، اصل نکتہ پر عوام کو بیدار کرنے کے بجائے آپسی چپقلش میں الجھا کر رکھ دیا جا رہا ہے، اس طرح کے بے شمار واقعات ہیں ۔۔ اتنے سنگین حالات میں ہم آپس میں دست و گریباں ہیں کیا یہ مسئلے کا حل ہے۔۔؟
صلاح الدین ایوبی جب مصر کے سلطان بنے تو اس وقت خلافتِ فاطمیہ کا خلیفہ ناکارہ تھا تو کیا صلاح الدین نے اس کی عوام میں برائیاں کیں۔۔؟
اس کے خلاف سازش اور پروپیگنڈہ کیا.؟
کچھ بھی نہیں۔۔!
خاموشی سے عوام کے لیے ترقیاتی و تعمیراتی کام کرتے رہے عوام نے خود انہیں قبول کر لیا،
قوم کی ترقی تعمیراتی کاموں میں چھپی ہے بے تکے پروپیگنڈوں میں نہیں۔۔

ذرا غور تو کریں، مدارسِ اسلامیہ پر کون بھونکتا آیا ہے۔۔؟
موجودہ ملی قیادت کس کی راہ کا کانٹا ہے۔۔؟؟ باطل سے ٹکرانے کی صلاحیت کس میں ہے۔۔؟
باطل سے آنکھ میں آنکھ ملا کر بات کرنے کی جرات کس میں ہے۔۔؟
ہمیشہ سے باطل طاقتوں کی نظر میں یہ مدارس یہ تنظیمیں کھٹکتی رہیں۔۔! ہر ممکن کوشش کی اس نے پر ناکام رہا۔۔۔
باطل جانتا ہیکہ انہیں براہِ راست سامنے سے حملہ کر کے نہیں ہٹایا جا سکتا، کیونکہ قومِ مسلم کا ان پر اعتبار و اجماع ہے،
اسی لیے چند مفکڑین نما سوشل مینڈکیے ہماری صفوں سے ابھر کر سامنے آئے، جن کا پیشہ ہی اکابرین، مدارسِ اسلامیہ، قدیم معتبر مقبول تنظیموں اور اتحادی پلیٹ فارم کو نشانہ بنانا ہے اور عوام میں انکی شبیہہ داغدار کرنا ہے۔۔!!

یہ مفکڑین کہاں سے آرہے ہیں۔۔؟
کیا یہ باطل طاقتوں کے ہرکارے ہیں۔۔؟ یا خود کے ذہنی غلام۔۔؟

افسوس ہوتا ہیکہ عوام ان کی باتیں سنتی ہے پڑھتی ہے اور شیئر کرتی ہے جن کی اوقات کوئیں کے مینڈک سے بڑھ کر نہیں ہے۔۔!
اختلاف باعثِ خیر ہے، زندگی کا ثبوت ہے، اِسی کو بنیاد بنا کر چند لوگوں کو خیر کا کام اور زندگی کا ثبوت صرف اختلاف میں نظر آتا ہے،!
قیادت سے سوال بالکل جائز حق ہے، پر یہاں تو وہی بات ہوئی کہ تکلیف شئیر مارکیٹ سے ہے اور احتجاج کا مجمع مچھلی مارکیٹ پر بیٹھا ہوا ہے۔۔!!

ہم اگر واقعی ملت اسلامیہ کی سرخروئی چاہتے ہیں تو ہمیں طوفان کی طرح ان آندھیوں سے ٹکرانا ہوگا جو ہمارے دین ہر حملہ آور ہونے کے فراق میں ہے، اور ایسا طوفان بننا ہیکہ اس طوفان میں سوشل مینڈکیے جو کانٹوں کی طرح راستوں میں بکھرے ہیں انہیں رگید دیا جائے اور آندھی کا رخ موڑ دیا جائے۔۔۔۔

سوشل میڈیا ابھی عام انسانی زندگی میں آکسیجن جتنی اہمیت حاصل کر چکا ہے، ہر انسان سوشل میڈیا سے جڑتا چلا جا رہا ہے، جہاں ہر کوئی اپنی بات رکھ سکتا اور اسی کا نا جائز فائدہ اٹھا کر عام انسانی ذہنوں کو مسخر کیا جا رہا ہے، سوشل مینڈکیے عوام کو موجودہ قائدین (صرف دینی قائدین سے ہی سوشل مینڈکیوں کو تکلیف ہے،سیاسی قائدین ان سے بری ہیں) سے بدظن کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔۔۔

سوشل میڈیا کا جائز استعمال بے حد ضروری ہو چکا ہے ورنہ عوام کو اسی طرح تفرقہ بازی میں الجھا کر غیرقومیں اپنے شیطانی مقاصد میں کامیاب ہوتی چلی جائینگی۔۔۔!!
اور ہم یا تو آپس میں جھگڑتے رہیں گے یا خاموش تماشائی بنے رہ جائینگے۔۔!!!!

میری ان سب باتوں کو مقصد کسی کی حمایت یا مخالفت بالکل بھی نہیں۔۔۔ میرا اصل مقصد یہ ہیکہ ہم سازشوں کا شکار ہوکر غیر ضروری پروپیگنڈہ اچھالنے کے کے بجائے سازشوں کو پہچان کر اصل سازش و اقدام کو پہچان کر اسے ناکام کریں اور قوم کو اصل مقصد کی طرف لے آئیں۔۔۔!

باطل جس حال اور طریقہ سے ہم پر حملہ آور ہوگا ہمیں بھی اسی طریقہ کار سے اس کا جواب دینا ہوگا،
ابھی وقت ہے۔۔ ان سوشل مینڈکیوں پر لگام لگاتے ہوئے قوم کو اصل خطرات سے واقف نہیں کرایا گیا تو کچھ ہی دنوں میں ایسے حالات درپیش ہونگے کہ ہم سنیں گے، دیکھیں گے لیکن نا روک سکیں گے نا بول سکیں گے صرف اندر سے کڑھیں گے اور کچھ وقت کے بعد ہم بھی بے حس ہو کر رہ جائینگے۔۔۔!

بشکریہ۔ضیا ء الحق۔(صدائے وقت)