Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Tuesday, September 11, 2018

شکاری۔ایک سبق آموز تحریر


         از:مدثراحمد۔!
          (صداۓوقت)
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
ایک مشہور شعر ہے
ہمیں غیروںنے نہیں اپنوںنے لوٹا
میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی کم تھا
یہ شعر اس لئے کہا جارہا ہے کہ آج ہماری قوم کی حالت یہی ہے،قو م کو نقصان پہنچانے والے غیر کم ہیں اور اپنے زیادہ ہیں۔قائدین،معتبرین،رہنمائ،رہبر کے طو رپر ہماری قیادت کررہے کچھ لوگ قوم کو فائدہ پہنچانے کے بجائے اپنا فائدہ حاصل کررہے ہیں۔ان کی اس مفاد پرستی کی وجہ سے ہی آج قوم کو بہت بڑا نقصان پہنچ رہا ہے۔چاہے وہ بات علمی معاملات کی ہو یا پھرمعاشی میدان کی،وہ بات چاہے سیاست کی ہو یا پھر مذہب کی۔ہر موقع پر مسلمانوںکو کسی نہ کسی طریقے سے ہمارے کچھ نام نہاد قائدین اور تنظیمیں گمراہ کررہے ہیں۔آج بات سیاسی معاملات کی ہوگی ،کیونکہ آنے والے چند دنوںمیں پارلیمانی انتخابات کا اعلان ہوسکتا ہے اور ان انتخابات میں جہاں ہندو اور مسلمانوںکے درمیان کی طرح انتخابات ہونگے،اُسی طرح سے مسلمانوں میں بھی امیدواروںکے انتخاب کو لیکر ہمارے درمیان کچھ لوگ ہمیں گمراہ کرنے کی کوشش کرینگے۔ہمارے ایک دوست نے ایک واقعہ سنایا تھاکہ”ایک پیڑ پردو کبوتر بیٹھے ہوئے تھے،اتنے میں کبوترنے دور سے ایک برگزیدہ شکل کے شخص کو آتے ہوئے دیکھا،سر پر عمامہ،ہاتھ میں تسبیح،نورانی چہرہ اور داڑھی تھی۔کبوتری نے کبوتر سے کہا کہ وہ دیکھو کوئی شکاری آرہا ہے۔لیکن کبوترنے کبوتری سے کہا کہ وہ شخص تو کوئی برگزیدہ بندہ معلوم ہوتا ہے وہ بھلا کیونکر ہمارا شکار کریگا؟۔اتنے میںوہ شخص کبوتروںکے قریب آیا اور کمان سے تیر نکال کر حملہ کردیا۔ تیر لگنے کی وجہ سے کبوترمرگیا، کبوتری بادشاہی وقت کے پاس پہنچی اور سارا واقعہ بیان کیا،یہ واقعہ سننے کے بعد بادشاہ شکاری کو دربارمیں طلب کیا،شکاری نے بادشاہ کو کہا کہ بادشاہ سلامت ویسے تو شکارکرنا کوئی جرم نہیں ہے اور یہ ہمارے لئے حلال قرار دیاگیا ہے،اس لئے میںنے اس پرندہ کا شکارکیا۔بادشاہ نے کہا کہ یہ تو غلط ہوا کہ تم نے سامنے سے شکاری کوآتے دیکھ کر بھی وہیں پر بیٹھے رہے۔تمہیںتو موقع پر سے اڑجانا چاہےے تھا،کبوتری نے بادشاہ کو جواب دیا کہ بادشاہ سلامت اگر شکارکرنے والا شخص شکاری کے لباس میںآتا تو یقینا ہم وہاں سے اڑ جاتے،لیکن جس شکل میں شکاری آیا تھا اس سے تو ہمیں یہ معلوم پڑ رہا تھا کہ وہ شکاری نہیں بلکہ برگزیدہ بند ہ ہے اور وہ ہمارا شکار نہیں کریگا۔اس کہانی سے ہم یہ سبق لے سکتے ہیں کہ ہمارے سامنے جو لوگ قوم کے ٹھیکدار بن کر آتے ہیں وہ کسی سیاسی پارٹی یا کسی پارٹی کے دلال قرار دے دیں تو ہم اُن کے موقف کو جان سکتے ہیںپہچان سکتے ہیںاور ہماری سہولت کے مطابق فیصلے لے سکتے ہیں،لیکن یہاں پر ہر کوئی برگزیدہ بندہ بن کرقوم کا شکارکرنے پر آمادہ ہوچکا ہے۔سوال یہ ہے کہ کیا واقعی میں آج قوم کی فکر کرنے والے لوگ ہمارے درمیان موجود ہیں؟کیا وہ لوگ قوم کی بے لوث خدمات انجام دے رہے ہیں؟جہاں تک ہم دیکھ رہے ہیںہماری نظر میں تو یہ لوگ ایک طرح سے سودا بازی کررہے ہیں،کبھی انتخابات میںاس پارٹی کے ساتھ تو کبھی دوسری پارٹیوں کے ساتھ نظرآتے ہیں۔سب سے بڑی اور بُری بات تو یہ ہے کہ یہ لوگ اپنی صلاحیتوں کا استعمال کرنے کے بجائے قوم کا نام لیکر سیاست کرتے ہوئے نظرآتے ہیں۔کچھ لوگ تو بعض سیاسی جماعتوں کو قوم کے ساتھ جوڑ دے دیتے ہیں،اور بعض تو شریعت کو بھی پارٹیوں کے ساتھ جوڑ دیتے ہیں۔ان کے داﺅ پیچ سے حیر ت تو ہے کہ کیا واقعی میں قوم کی کوئی سیاسی جماعت ہے،اگر ہے بھی تو ان سیاسی جماعتوں کی بنیاد کونسے اماموں نے رکھی تھی،جن قومی سیاسی جماعتوںکی بات یہ لوگ کرتے ہیں تو ان سیاسی جماعتوںکے لیڈروںنے کہا ں کہاں پر اپنی گردنوں کو قوم کیلئے کٹا یا ہے؟قوم کانام لینا اور قوم کے نام پر سیاست کرنا بہت آسان کام ہے ،لیکن قوم کے مسائل کوحل کرنااور قوم کی زمینی سطح پر کام کرنا بہت بڑی بات ہے۔اس بات کو سمجھنے سے یہ لوگ قاصر ہیںاور ہم بھی قوم کا نام لیکر سیاست کرنے والے دلالوں کا ساتھ دے دیتے ہیں۔یقین جانئے کہ اس طرح کی سیاست ہمارے لئے خطرناک ثابت ہوسکتی ہے،جس طرح سے ہندوستان و پاکستان کی تقسیم کیلئے ہندو مہاسبھااور مسلم لیگ نے اہم کردار ادا کیا تھا اسی طرح سے ہم دوبارہ اس ملک کو چھوٹے چھوٹے حصوں میں تقسیم کرنے کے دہانے پر ہیں،اگر اس ملک میں رہنا ہے تو ہمیں ذات اور مذہب کی بنیاد پر نہیں بلکہ قومی اتحادکی بنیاد پر کام کرنا ہوگا،ہمارا رہن سہن ،ہماری سیاست،ہماری قیادت کو ہمیںسیکولرزم کی بنیادوں پر قائم کرنا ہوگا ورنہ تنائج بہت برے ثابت ہونگے۔