Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Monday, September 10, 2018

ہجری سال کا اختتام و شروعات۔

// ہجری سال 1439 کا اختتام
    نئے سال1440 ہجری سنہ کی شروعات  ،،،،،،،،،
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
از مولانا طاہر مدنی۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
     ہم ہجری سال  1439 کے آخری دنوں میں ہیں، آج شام کو چاند دیکھا جائے گا، اگر نظر آگیا تو نئے مہینے کے ساتھ نیا ہجری سال 1440  شروع ہو جائے گا ، زیادہ امکان اس کا ہے کہ ذی الحجہ کا مہینہ  ٣٠ / کا ہوگا، اور ماہ محرم کی پہلی تاریخ  12/ ستمبر بروز بدھ ہوگی ۔
   نیا ہجری سال منگل کو شروع ہوگا یا بدھ کو، ہمارے لئے اس سے زیادہ معنی نہیں رکھتا  کہ نیا مہینہ اور اس کے ساتھ نیا ہجری سال شروع ہو گیا، گزرنے والا اور آنے والا  دونوں مہینے ہمارے لئے  ہیں، اور یہ ان چار مہینوں میں شامل ہیں جن کو خالق کائنات نے ابتدائے آفرینش سے قابل احترام بنایا ہے، ان میں ہم اپنے معمولات زندگی میں مزید سر گرم جائیں گے، شادیاں ہوں گی، نئے منصوبے بنیں گے، نئے کاموں کی شروعات ہوگی، اور مسرت و شادمانی کے اظہار کے لئے نویں، دسویں  یا دسویں، گیارہویں تاریخوں میں عاشوراء کے روزے رکھیں گے ۔
    پیغمبر اسلام  صلی اللہ علیہ و سلم نے ماہ محرم اور عاشوراء محرم کا تعارف اسی انداز میں کرایا ہے، سال کے بارہ میں سے چار مہینوں ( ذوالقعدہ، ذوالحجہ، محرم، رجب ) کے قابل احترام ہونے کا ذکر قرآن میں ہے ، اور عاشوراء محرم کا روزہ زمانہ قدیم سے مکہ میں رائج رہا ہے، اسی روز موسم حج ختم ہونے کے بعد غلاف کعبہ کو بدلا جاتا تھا، اور لوگ اس مناسبت سے  روزہ رکھتے تھے، ہجرت کے بعد جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے یہود مدینہ کو اسی روز روزہ رکھتے دیکھا ، اور دریافت کرنے انھوں نے بتایا کہ اسی روز اللہ نے حضرت موسی اور ان کی قوم کو فرعون سے نجات دلائی تھی  تو اس میں ایک وجہ  اور جڑ گئی  ۔
   اس طرح اسلامی کیلنڈر کی ابتداء اور انتہاء  دونوں مبارک اور قابل احترام مہینوں سے ہوتی ہے ۔
    لیکن افسوسناک پہلو یہ ہے کہ اب دنیا کے ایک بڑے خطے میں محرم کے مہینہ کو بالکل الگ نقطہ نظر سے دیکھا جانے لگا ہے ، اور اس طرح ذہنوں کو پراگندہ کر دیا گیا ہے کہ ماہ محرم اور عاشوراء محرم کی ہر چیز  نواسہ رسول حضرت حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ کے اردگرد گھومتی نظر آتی ہے ، گویا سنہ 60 / ہجری  سے قبل ماہ محرم کا وجود تھا ہی نہیں  ۔
   اس معاملہ میں لوگوں نے ایک سے بڑھ کر ایک کہانیاں گڑھ لی ہیں ، حد تو یہاں تک کر دی ہے کہ قیامت جس کے علم کو اللہ نے اپنے پاس مخفی رکھا ہے اس کا مہینہ اور تاریخ بھی متعین کر دی ۔
   ایک زمانہ تھا جب وسط ایشیا، بلاد شام اور ایران ائمہ اسلام کے مسکن اور علوم اسلامیہ کے مراکز تھے، مختلف دینی علوم و فنون کی ترویج و اشاعت کا کام جہاں سے ہوتا رہا ہے ، لیکن آج ان کی حالت بالکل غیر ہے ۔ 
   بر صغیر کا حال شیر شاہ سوری کے زمانہ تک غنیمت تھا ، لیکن اس کے بعد یہاں کے بھی حالات بدلنے لگے، اب جو صورت حال ہے کسی سے مخفی نہیں ہے ۔
   اس وقت دنیا میں اسلام کا نام لینے والوں کے ( شیعہ اور سنی )  دو بڑے  گروپ ہیں ۔
   شیعہ عربی زبان کا لفظ ہے، اور یہ قرآن میں مختلف شکلوں میں وارد ہوا ہے، کہیں پر اس کا مفہوم محمود ہے، تو کہیں مذموم ہے ، یہ اپنی اصل میں  پیروی کرنے، پیچھے چلنے اور اتباع کے معنی میں آتا ہے ۔
   جہاں اعلی اصول اور برگزیدہ شخصیات کی پیروی ہوگی وہاں اس کا مفہوم اچھا ہوگا ، اور جہاں انحراف ہوگا اور گمراہ کرنے کی کوشش ہوگی ایسے لوگوں کی پیروی  قابل مذمت ہوگی ۔
    دل اللہ کے قبضے میں ہیں، ان پر انسان کا بس نہیں ہے، چنانچہ لوگوں کی ہمدردیاں الگ الگ ہوتی ہیں، کسی کا کسی سے لگاؤ ہوتا ہے، تو کسی کا دوسرے سے، یہ انسانی فطرت کا حصہ ہے، یہ پہلے بھی ہوتا رہا ہے، اور آج بھی ہو رہا ہے ۔
   صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بھی الگ الگ رجحانات تھے، یہ تاریخی حقیقت ہے جس سے انکار نہیں کیا جا سکتا، اور آج بھی ہمارے درمیان الگ الگ رجحانات اور ترجیحات کے لوگ موجود ہیں،  جب تک یہ چیزیں ایک دائرہ میں ہیں ان کو انگیز کیا جاتا ہے، بات اس وقت بگڑتی ہے جب اختلافات حد کو پار کر جاتے ہیں ۔
   کربلاء کے موقعہ پر جو کچھ ہوا  غلط ہوا، اس کا اسلام کے نام لیوا ہر شخص کو افسوس ہے ، لیکن جو کچھ ہوا اس کو وہیں پر ختم کر کے آگے قدم بڑھانے کی ضرورت تھی، چنانچہ اسلاف امت نے یہی کیا، ان حضرات نے متعدد  ایک سے بڑھ کر ایک حادثات کا سامنا کیا، اور سب کو پیچھے چھوڑ کر آگے بڑھ گئے ۔
    لیکن جن کے دلوں میں کھوٹ تھا وہ اس واقعہ کربلاء  کو بنیاد بنا کر اپنا الگ نظریہ ترتیب دینے لگے ۔
   شروعات اس طرح کی  کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی رحلت کے بعد خلافت حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ملنی چاہئے تھی، لیکن ان کا حق  - نعوذ بالله  - چھین کر دوسرے کو خلیفہ بنا دیا گیا ۔
   اس باطل اور گمراہ کن خیال کے بعد جن لوگوں کو انھوں نے اپنی سمجھ کے مطابق حضرت علی کا حمایتی پایا ان کو اسلام کے دائرے میں باقی رکھا ، باقی  سارے صحابہ( رضوان اللہ علیہم اجمعین ) کو اسلام سے نکال باہر  کر دیا ۔
   یہیں سے لفظ " شیعہ " اپنی لغوی معنی سے ہٹ کر ان لوگوں کے لئے مخصوص ہوگیا جو صرف چند صحابہ کو مسلمان مانتے ہیں، اور ان کی  پیروی کا دعوٰی کرتے ہیں، اور ان کے علاوہ سارے اصحاب رسول صلی اللہ علیہ و سلم  کو اسلام سے خارج گر دانتے ہیں ۔
    ان کے بالمقابل دنیا کے وہ  مسلمان جو نبی پاک صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت کی پیروی  میں سارے صحابہ کرام  رضوان اللہ علیہم اجمعین سے محبت کرتے ہیں، اور ان کو نبی پاک صلی اللہ علیہ و سلم  کا سچا اور پکا پیروکار مانتے ہیں ان کو " اہل سنت و جماعت " کے نام سے یاد کیا جاتا ہے
۔
صدائے وقت۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔