Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, September 9, 2018

مٹھو۔۔ایک ادبی طنزو مزاح کی تحریر


بصد شکریہ رشید ودود۔
صدائے وقت۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مٹھو پر جیسے ہی میری نظرِ بد پڑی، اچھل پڑا میں، تآثر میں نے یہ دیا کہ جیسے آج برسوں کے بعد اُسے دیکھا ہو، میں نے چاپلوسی کرتے ہوئے کہا کہ 'اہا! مٹھو! میرے لال! میرے پیلے! میرے ہرے! میرے گلابی! کہاں رہے اتنے دنوں تک؟ کیا ہماری یاد ایک پل کیلئے بھی تمہیں نہیں آئی؟ یار! بڑے بے مروت ہو، ایک بار تو پلٹ کے خبر لی ہوتی ہماری، آنکھیں پتھرا سی گیئں تمہارا رستہ تکتے تکتے، ہماری بتیاں سن کے مٹھو حیران رہ گیا، کہنے لگا کہ

'کیا کوئی اتنا کمینہ بھی ہو سکتا ہے؟ غائب رہے تم، کوس رہے ہو مجھے، میں نے تو تمہیں گدھے کے سر کا سینگ سمجھ لیا تھا لیکن تم پھر اُگ آئے، تم آتے تھے اور میری طرف دیکھے بغیر گزر جاتے تھے، اسی کو کہتے ہیں #_طوطا چشمی،  شرم حیا نام کی کوئی چیز تو تمہارے اندر ہے نہیں، اس لئے الٹا مجھی پر چڑھ دوڑے، الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے-

میں کان دبائے، چپ چاپ مٹھو کی صلوات سنتا رہا، میں نے کہا مٹھو! غالب کا ایک شعر سنو!

گو میں رہا رہین ستم ہائے روزگار
لیکن ترے خیال سے غافل نہیں رہا

شعر سنتے ہی مٹھو پھڑک اٹھا، کہنے لگا کہ تم نے برمحل شعر پڑھ کر کے میرا سارا غصہ ختم کر دیا ہے، میں سوچ رہا ہوں کہ کاش! غالب کی طرح اگر میں بھی ایک مغل بچہ ہوتا تو آج  میرا بھی کسی ستم پیشہ ڈومنی سے چکر چل رہا ہوتا لیکن اپنی قسمت ایسی کہاں؟ یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا، خیر تم اپنی کہو، کیا حال ہے؟ آج ضرور تمہیں میرے کندھے پر بندوق رکھ کر چلانی ہوگی، اسی لئے میرے پاس تم آئے ہو، سالے! اچھے خاصے مطلبی ہو تم، خیر بتاؤ! کیوں آئے ہو میرے پاس؟ میں نے پوچھا کہ

'مٹھو! گائے کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے؟

مٹھو نے مسکرا کر جواب دیا کہ

'وہی جو غالب کا آم کے بارے میں تھا،

میں نے گڑبڑا کر پوچھا کہ مطلب؟ کہنے لگا کہ

'گھامڑ ہو کیا؟ اب کیا کھول کر کھڑا ہو جاؤں؟ ممم مطبل! ہر چیز کھول کھول کر بیان کروں، ارے بھئی! یہ دور اشارات و کنایات ہے لیکن پھر بھی تمہاری تسلی کیلئے کہے دے رہا ہوں کہ گائے کمسن ہو اور خوب ہو تو بخدا اُس کا لطف دوبالا ہو جاتا ہے،

مٹھو کی باتیں سن کر میں خوفزدہ ہو گیا، اس کے ارادے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو زک پہنچا رہے تھے، میں نے کہا کہ مٹھو! یہ غلط ہے، اپنے چٹور پن کے چکر میں تم ایک پوری قوم کو خطرے میں ڈال رہے ہو، مٹھو نے بھڑک کر کہا کہ

'ابے میں مغل بچہ ضرور ہوں لیکن نہ تو ظہیرالدین بابر ہوں اور نہ ہی میرا کوئی بیٹا ہمایوں ہے کہ میں اُسے وصیت کروں کہ بیٹا! سب کرنا لیکن اپنی رعایا کو خوش رکھنے کیلئے گئو کشی کبھی نہ کرنا اور ہاں بات سنو! میں کوئی ظفر بھی نہیں ہوں، نہ مجھے آزادی کی جنگ لڑنی ہے، اس لئے گائے سے مجھے کوئی محبت نہیں، مغلوں کے دربار میں جینیوں کا عمل دخل کچھ زیادہ ہی تھا، اس لئے بعض مخصوص مواقع پر گئو کشی پر پابندی ضرور رہی، مشہور مؤرخ #_ڈی_این_جھا کی اگر مانیں تو گائے سب کھاتے تھے، شادی بیاہ کی رسموں میں، مہمانوں کے استقبال میں، حتی کہ #_یگیہ تک میں گائے کی قربانی ہوتی تھی، یہ سارا تنازع تو 19 ویں صدی میں شروع ہوا، جب آریہ سماج کی تشکیل ہوئی اور سوامی دیانند سرسوتی نے ’گوركشا‘ کے لیے مہم چلائی،

یہ سب تو ٹھیک ہے مٹھو لیکن ریاست کو 'اکثریت کے جذبات، کا بھی تو خیال رکھنا ہے، مٹھو نے جلبلا کر کہا کہ

'بھاڑ میں جایئں اکثریت کے جذبات، یہ کس چڑیے کا نام ہے؟ کون سے شہر میں ہوتا ہے، کدھر ہوتا ہے؟ ریاست کو صرف اکثریت کے جذبات ہی کا خیال نہیں رکھنا ہے، بلکہ اقلیت کے جذبات کا بھی خیال رکھنا ہے اور پھر اس میں اکثریت اور اقلیت والی کوئی بات ہی نہیں ہے، چند گنے چنے برہمنوں کو چھوڑ کر باقی سب گائے کھاتے ہیں تو تمہاری منطق کے حساب سے تو گائے کھانے والے اکثریت میں ہوئے اور لطف کی بات یہ ہے کہ ہر دھرم کے لوگ گائے بڑے چاؤ سے کھاتے ہیں اور سنو! کیرالہ، ناگا لینڈ، مغربی بنگال، میزورم، سکم، ارونانچل پردیش، گووا اور کشمیر جیسی ریاستوں میں گئو کشی پر کوئی پابندی نہیں ہے، پابندی تو اُس علاقے میں ہے، جسے 'کاؤ بیلٹ، کہا جاتا ہے لیکن یہ پابندی بھی صرف کاغذ کی حد تک تھی لیکن ایک رنڈوے نے آکر اس پابندی کو عملی طور پر نافذ کر دیا، جب چلا جائے گا تو پھر شروع ہو جائے گا-

میں نے پوچھا کہ کیا بات ہے مٹھو؟ تم کچھ زیادہ تو نہیں تپے ہوئے ہو، کہیں کسی گائے نے تمہیں سینگ تو نہیں مار دی؟ مٹھو نے بھڑک کر کہا کہ

'ابے یہاں راستہ چلنا دشوار ہے اور تمہیں مذاق سوجھ رہی ہے، کسی بھی شاہراہ پر نکل جاؤ، حد تو یہ ہے کہ اب قومی شاہراہوں پر بھی ہر دس پانچ فٹ کے فاصلے پر دس پانچ گایئں بیٹھ کر جگالی کرتی ہوئی مل جاتی ہیں، ہر گائے چوٹ کھائی ہوئی ہوتی ہے، یہ چوٹ اُسے اپنے عاشق بیل سے نہیں ملتی، بلکہ راہ چلتی ہوئی گاڑیوں سے ملتی ہے، بعض تو عشق میں ناکامی کی وجہ سے خودکشی تک کر لیتی ہیں اور ان کی لاش بے گور و کفن سڑک پر پڑی رہتی ہے لیکن نہ تو کسی گئو رکشک کی غیرت جاگتی ہے اور نہ ہی کسی کے کانوں پر جوں رینگتی ہے، معاملہ تو اُس وقت بگڑتا ہے، جب بیچ بازار میں یہ گایئں ہماری خواتین کی طرح لڑنے لگتی ہیں اور رہے بیل تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کمبختوں کی آنکھ کا سارا پانی مر گیا ہے، کوئی پرائیویسی نہیں، کوئی تخلیہ نہیں، کوئی شرم نہیں، بس جہاں دل چاہا، جس گائے پر دل آیا، یہ کمبختے بیچ بازار میں اسے دل دینے لگتے ہیں لیکن بھیا! ایمان کی بات یہ ہے کہ یہ گایئں بھی کم حرافہ نہیں ہیں، بدچلنی کا تو انہوں نے سارا رکارڈ توڑ رکھا ہے، یہ اگر چاہیں تو اپنی عزت آبرو کی حفاظت کر سکتی ہیں لیکن نہیں کرتیں،

مٹھو کے غصے کا میرے پاس کوئی جواب نہیں، میں تو چلا اقبال کی نظم 'گائے اور بکری پڑھنے، آپ کو کوئی تکلیف تو نہیں؟