Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Tuesday, September 25, 2018

تاریخ فاتح کو یاد رکھتی ہے۔ایک جھنجھوڑ دینے والی تحریر۔

تحریر لیاقت راعین/ بشکریہ نظام الدین راعین۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
یہ 1973 کی بات ہے جب عربوں اور اسرائیل کے درمیان جنگ چھڑنے والی تھی۔ایسے وقت میں ایک امریکی سینیٹر ایک اہم سودے کے سلسلے میں اسرائیل پہنچتا ہے اسے فوراً اسرائیلی وزیر اعظم گولڈا مائر کے پاس لے جایا گیا۔انھوں نے اس کا استقبال ایک خانہ بردار  عورت کی طرح کرتے ہوئے ایک چھوٹی سی ڈائیننگ ٹیبل کے پاس کرسی پر بیٹھایا اور خود ہی چائے بنانے لگیں۔اسی دوران وہ جنگی جہازوں، میزائلوں  اور توپوں کے سودے کے متعلق بات چیت بھی کرتی رہیں۔انھوں نے خود ہی دو کپ میں چائے ڈالا اور ایک کپ اس امریکی سینیٹر کو جو امریکی اسلحہ کمیٹی کا سربراہ بھی تھا دیا اور دوسرا کپ اس امریکی گارڈ کو دیا جو دروازے پر تعینات تھا۔اسی دوران اسلحے کی خرید پر مول بھاوٰ بھی ہوتا رہا۔چائے ختم ہونے کے بعد انھوں نے چائے کا کپ دھل کر اپنی جگہ پر رکھ دی۔اسی دوران اس بڑے سودے کو سادگی کے ساتھ فائینل کرتے ہوئے کہا کہ آپ اپنے سکریٹری کو ہمارے سکریٹری کے پاس دستاویز تیار کرنے کو بھیج دیں۔لیکن جب یہ سودا اسرائیلی کابینہ کے پاس منظوری کے لئیے پہنچا تو کابینہ نے یہ کہتے ہوئے اسے رد کر دیا کہ ہمارے ملک کی مالی حالت اتنی اچھی نہیں ہے اس سودے کے بعد برسوں ہمارے لوگوں کو ایک وقت کے کھانے پر گزارا کرنا پڑے گا۔تو اسرائیلی وزیر اعظم نے
نے کہا ،آپ کا سوچنا صحیح ہے لیکن اگر ہم جنگ جیت گئے اور ہم نے عربوں کو ہرا دیا تو تاریخ ہم کو فاتح قرار دے گی اور تب تاریخ داں یہ نہیں پوچھے گا کہ فاتح قوم کتنے وقت کھاتی تھی اور اس کے دسترخوان پر مکھن و جیم تھا یا نہیں۔فاتح صرف فاتح ہوتا ہے۔گولڈا مایر کی دلیل میں وزن تھا اور آخر کار اسرائیلی کابینہ کو اس سودے کی منظوری دینی پڑی۔آنیوالے وقت نے یہ ثابت کر دیا کہ گولڈا مایر کا فیصلہ صحیح تھا۔کافی عرصہ بعد واشنگٹن پوسٹ کے ایک نمائندہ نے گولڈا مائر کا انٹر ویو لیا اور سوال کیا کہ اسلحہ خریدنے کے لئیے آپ کے ذہن میں جو دلیل تھی وہ فوراّ آپ کے ذہن میں آئی یا پہلے سے تیار پالیسی کا حصہ تھا۔
گولڈا مائر کا بیان چونکانے والا تھا۔انھوں نے کہا میں نے یہ اپنے دشمنوں (مسلمانو) کے نبی محمدص وسلم سے لیا تھا۔جب میں طالب علم تھی اس وقت میرا پسندیدہ سبجیکٹ مذہب تھا۔
انہیں دنوں میں نے ایک کتاب میں پڑھا کہ جب محمدص کا وصال ہوا تو ان کے گھر میں چراغ جلانے کے لئے تیل نہیں تھا ۔لیکن اس وقت بھی محمد(ص) کے کمرے میں سات عدد تلواریں لٹکی تھیں۔میں نے جب یہ واقعہ پڑھا تو میں نے سوچا کی دنیا میں کتنے لوگ ہوں گے جو مسلمانوں کی پہلی ریاست کی کمزور مالی حالت کے بارے میں جانتے ہوں گے۔دنیا صرف یہ جانتی ہے کہ مسلمان نصف دنیا کے فاتح رہے ہیں۔اس لئیے میں نے فیصلہ کیا کہ اگر میری قوم کے لوگوں کو بھوکا بھی رہنا پڑے، پختہ مکانوں کے بدلے خیموں میں رہنا پڑے تو بھی اسلحہ خریدیں گے اور خود کو مظبوط کریں گے اور فتح حاصل کریں گے۔گولڈا مائر نے اس حقیقت سے پردہ اٹھایا مگر نامہ نگار سے وعدہ لیا کہ اس بات کو پس پردہ ہی رکھا جائے کیونکہ مسلامانوں کے نبی(ص) کا نام لینے سے جہاں ان کی قوم ان کے خلاف ہوسکتی وہیں مسلمانوں کی آئڈیالوجی کو بڑھاوا ملے گا۔
وقت گزرتا گیا یہ بات راز ہی رہی۔گولڈا مائر کا انتقال ہوگیا۔نامہ نگار بھی اپنے پیشے سے سبکدوش ہو گیا۔ایکبار کچھ نامہ نگار سابق نامہ نگا روں
کے انٹرویو کے پرگرام میں اس سبکدوش نامہ نگار کا بھی انٹرویو لیا گیا تب اس سابق نامہ نگار نے گولڈا مائر کے اس راز کو افشاں کیا۔اس نامہ نگار نے اگے خود کی کہانی بتائی کہ گولڈا مائر کے انٹر ویو کے بعد مجھے بھی تجسس ہوا اور میں نےتاریخ اسلام کا مطالعہ کرنا شروع کیا تو عربوں کی جنگی حکمت عملی کو دیکھ کر حیران رہ گیا۔ وہ طارق بن زیاد جس نےجبرالٹر کے راستے اسپین فتح کیا تھا اسکی فوج کے آدھے سے زیادہ لڑاکوں کے پاس پورا لباس بھی نہیں تھا۔وہ 72 --72 گھنٹے ایک چھاگل پانی اور سوکھی روٹیوں کے چند ٹکڑوں پر گزارا کرتے تھے۔
یہ حیرت انگیز واقعہ تاریخ کے دریچوں سے جھانک جھانک کر دنیا کے مسلمانوں کو جھنجھوڑ رہا ہے اور چیخ چیخ کر کھ رہا ہے کہ اب نید سے جاگو۔یہ عالیشان مکان۔شان و شوکت۔ہیرے جواہرات سے بھری تجوریاں۔کچھ کام نہ آئیں گیں۔تم نے اعراق کا حشر دیکھا،لیبیا کا حشر دیکھ لیا۔دنیا کے الگ الگ حصوں میں اپنے قوم کے بے قصوروں کا خون بہتے دیکھ رہے ہو۔تمھاری رگوں میں بھی اسی قوم کا خون دوڑ رہا ہے جنھوں نے بھوکے رہ کر بھی نصف دنیا میں اپنا پرچم لہرایا لیکن افسوس کہ سیرت نبوی(ص) سے تو ایک یہودی عورت نے سبق لے لیا مگر مسلمان اس سے دور رہے۔سائنس و ٹیکنالوجی۔علم وفن حاصل کرنے کے بجائے فرقوں میں بنٹے رہے،لا حاصل بحثوں اور غیر ضروری کام میں مگن رہے۔چنانچہ ہماری ذلت ہمارا مقدر بن گئی۔
. . . . .  تاریخ بڑی برحم ہوتی ہے۔. . . . . . .