Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, September 9, 2018

کیا آپ سوشل میڈیا کے نشے کا شکار ہیں۔؟


حسنین جمال کی تحریر۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
صدائے وقت بشکریہ ابو نافع اعظمی۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
کیا واقعی آپ سوشل میڈیا سے دور ہونا چاہتے ہیں؟ مسئلے کی نوعیت ایسی ہے کہ پہلے فیصلہ کرنا بہت ضروری ہے۔ آپ جن مسائل کا شکار ہیں اگر آپ کے خیال میں وہ سوشل میڈیا کا استعمال ختم کرنے سے دور ہو سکتے ہیں تب تو ٹھیک ہے لیکن اگر آپ کی پرابلمز آپ کے خیال میں اس وجہ سے نہیں ہیں تب بھی آپ کو دوبارہ سوچنے کی ضرورت ہے۔

نوے فیصد امید یہی ہے کہ مسئلے کی جڑ سوشل میڈیا پہ ضائع ہونے والا وقت ہو گا۔ یہ وہ ٹائم ہے جس میں پرانے زمانے کا آدمی دنیا جہان کے سارے دھندے نمٹا لیتا تھا بلکہ اپنے بہت سارے بچوں کو باہر لے جا کر قلفی بھی کھلا آتا تھا۔

آپ نے آخری مرتبہ کوئی کتاب بغیر ڈسٹرب ہوئے، ایک ہی تسلسل کے ساتھ، کسی بھی نوٹیفیکیشن کی آواز کے بغیر کب پڑھی ہے؟ بلکہ اب تو یہ پوچھنا بہتر ہو گا کہ آخری مرتبہ کتاب پڑھنے کا خیال کس کتاب کو دیکھ کر آیا تھا؟ کسی ای بک کو دیکھ کر؟ ای بک کی سب سے بڑی موج یہ ہے کہ بندہ ڈاؤن لوڈ کر لے تو وہ سمجھتا ہے کہ اس نے پڑھ بھی لی۔ ایسا نہیں ہوتا استاد، کتاب پڑھنا وقت مانگے ہے اور وقت کا بیوپار سب کا سب ہم لوگ فیس بک، انسٹا اور ٹوئٹر کو سونپ چکے!

ہم لوگ چھوٹے تھے تو سارے بچے روز شام کو گلیوں میں رج کے سائیکلیں چلاتے تھے، بھاگتے دوڑتے تھے، فٹبال یا کرکٹ کھیلتے تھے، کوئی نہ کوئی مشغلہ ایسا ہوتا تھا کہ رج کے پسینہ آتا تھا اور رات کو نہا کے سونا پڑتا تھا۔ اب سائیکلنگ، فٹبال، کرکٹ، سبھی کا سب وہیں ہوتا ہے آٹھ بائے آٹھ کے کھوپچے میں، نہ کپڑوں میں پسینہ آئے گا، نہ ان میں داغ لگیں گے اور بچے کی صحت بھی نام خدا کاؤچ پوٹیٹو والی ہی ہو گی۔ یہی بچے بڑے ہو کے ہماری آپ کی طرح سوشل میڈیا کی نذر ہو جائیں گے۔ کبھی سوچا ہے اصل مسئلہ کہاں ہے؟

سوشل میڈیا کی علت کا شکار ہونے والی 100 فیصد آبادی موبائل یا ٹیبلٹ پہ اسے استعمال کرتی ہے۔ لیپ ٹاپ کے زمانے میں آخر ہر کوئی آرکٹ کا دیوانہ کیوں نہیں تھا؟ اگر تھا بھی تو رات کو دو ڈھائی گھنٹے کے بعد چھٹی ہو جاتی تھی، اب سوشل میڈیا میں ایسا کیا ہے؟ ادھر دو چیزیں ہیں جو ہم سب کو گھمائے ہوئے ہیں۔ ایک سوشل میڈیا ایپ دوسرے ٹچ سکرین۔

آپ ایک کام کریں، تجربہ کر کے دیکھ لیں۔ اپنے موبائل سے فیس بک، انسٹاگرام اور ٹوئٹر کی ایپس ڈیلیٹ کر دیں۔ فیس بک میسنجر یا جو باقی دھندے ہیں انہیں بھی اڑا دیں۔ پہلا کام پتہ ہے کیا ہو گا؟ بیٹری بچے گی ۔۔۔ ڈھیر ساری بچے گی۔

ان تین کے علاوہ اگر سنیپ چیٹ آپ کے پاس ہے تو اسے سب سے پہلے ان انسٹال کریں، وہ تو اسٹرا کے ساتھ باقاعدہ سٌڑک سٌڑک کر بیٹری پیتا ہے۔ ایپس اڑنے کے بعد دوسرا کام یہ کریں کہ وائے فائے اور ڈیٹا بھی آف کر دیں۔ ایک گھنٹہ ایسے گزاریں اور کائنات کا سکون اپنے اندر اترتا محسوس کریں۔ اس کے بعد ڈیٹا یا وائے فائے آن کر دیں۔ کچھ ہوا؟ جب کوئی ایپ ہی نہیں ہے تو کیا ہو گا؟

سوائے واٹس ایپ کے اب آپ کا موبائل ایک دم سکون میں ہو گا۔ واٹس ایپ پہ کتنے میسج آئے دس، پندرہ بیس؟ کوئی فوت ہوا؟ نہیں! کوئی اہم خبر؟ نہیں! کوئی ایسا میسج جو مس ہو گیا تو کروڑوں کا نقصان ہو جائے گا؟ نہیں! تو پھر ہر فارغ انسان کے فارورڈ میسج کا نشانہ آپ کیوں بنتے ہیں؟

چونکہ ایک ڈیڑھ گھنٹہ اسی چکر میں نکل گیا ہے اب آپ اپنے موبائل یا ٹیبلٹ کے براؤزر میں جا کے فیس بک، انسٹا یا ٹوئٹر پہ لاگ ان کریں۔ بے شک سب پہ اکٹھا کر لیں۔ کوشش کریں براؤزر پہ ان تینوں چیزوں کو استعمال کرنے کی، مزا ہی نہیں آئے گا۔ کومنٹ کا جواب دینا عذاب لگے گا، میسنجر پہ لوگوں کے میسجز آئیں گے بھی تو کوئی گھنٹی نہیں بجے گی، انسٹا پہ کوئی لائک کرے گا تو جھانک کر کوئی پش اپ میسج یہ نہیں بتائے گا کہ بھائی جان مطیع الرحمن بھٹی نے آپ کی تصویر پسند کی ہے۔ آہستہ آہستہ آپ کو لگے گا کہ یار یہ کیا مصیبت ہے، کچھ کرنے میں مزا ہی نہیں آ رہا ۔۔۔

وہی بس اصل نشے کے ٹوٹنے کا وقت ہے۔ اگر وہ ایپس ایک مہینے تک آپ دوبارہ انسٹال نہیں کرتے تو سمجھیں آپ ولی ہیں، کر لی تو پہلے کی طرح ویہلیے۔