Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Friday, September 7, 2018

قومی ذمے داری، ایک مذہبی فریضہ۔

قومی ذمہ داری، ایک مذہبی فریضہ۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
(سکریٹری وترجمان آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ)۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
الیکشن کمیشن کے اعلان کے مطابق یکم ستمبر ۲۰۱۸ء سے ۲۰۱۹ء کے الیکشن کے لئے ووٹر لسٹ میں ناموں کا اندراج شروع ہو چکا ہے، جمہوری نظام میں ووٹ کی بڑی اہمیت ہوتی ہے، اسی سے حکومتیں بدلتی ہیں، اسی کے ذریعہ ہم اپنے ملک کے سربراہ منتخب کرتے ہیں، پانچ سال کے لئے ان ہی سربراہوں کے ہاتھ میں وہ قلم ہوتا ہے، جس سے ہمارے بارے میں فیصلے کئے جاتے ہیں، اور ہمارے سودو زیاں کا فیصلہ ہوتا ہے؛ اس لئے دستوری اعتبار سے بھی ہمیں اس حق کو استعمال کرنے کی ترغیب دی گئی ہے، اورملی وقومی مصالح و مفادات کے لئے بھی اس کی بڑی اہمیت ہے۔
مگر صورت حال یہ ہے کہ ووٹر لسٹ میں اپنا نام درج کرانے سے عمومی طور پر لوگ غافل ہیں اور جن لوگوں نے نام درج کرائے ہیں ان میں بھی ووٹ ڈالنے والوں کی تعداد نمایاں طور پر کم ہیں، جو اپنے حق رائے دہی کا استعمال نہیں کرتے، الیکشن کمیشن کے بیان کے مطابق جن لوگوں کی عمر ۱۸؍۱۹ سال ہو چکی ہے اور انہوں نے اپنا نام ووٹر رجسٹر میں شامل نہیںکیا ہے، ان کی تعداد ۳؍کروڑ ۳۶؍لاکھ ہے، صرف یوپی میں ۷۵؍لاکھ اور بہار میں ۴۶؍لاکھ نوجوانوں نے ووٹر لسٹ میں اپنا نام نہیں لکھایا ہے، ۲۰۱۴ء کی مردم شماری کے مطابق کل ووٹرس کی تعداد ۸۳؍ کروڑ، ۴۱؍ لاکھ، ۴۷۹؍ ہے، جب کہ ووٹ ڈالنے والوں کی تعداد ۵۵؍کروڑ، ۳۸؍لاکھ ایک ہزار آٹھ سو ایک ہے، یعنی کل ووٹرس میں سے ۶۶؍فیصد سے کچھ ہی زیادہ لوگوں نے حقِ رائے دہی میں حصہ لیا ہے، ۴۰؍فیصد افراد نے ووٹ ڈالاہی نہیں، یہ ایک بدبختانہ بات ہے کہ ملک وقوم سے متعلق اتنے اہم فیصلہ میں قریب قریب پچاس فیصد باشندوں کی شرکت نہیں ہو۔
اگر ہم شرعی نقطۂ نظر سے غور کریں تو بعض اعمال کی حیثیت مقصود کی ہوتی ہے، قرآن وحدیث میں متعین طور پر ان کا حکم دیا گیا ہے، جیسے نمازوروزہ، حج وزکوٰۃ وغیرہ، بعض اعمال مقصود نہیں ہوتے ہیں، ان کی حیثیت ذریعہ اور وسیلہ کی ہوتی ہے، تو جو عمل جس بات کا ذریعہ ہو، جو حکم اس کا ہوگا، وہی حکم اس ذریعہ کا بھی ہے، جیسے چلنا ایک عمل ہے، اگر انسان اس لئے چلے کہ اسے نماز ادا کرنے کے لئے مسجد پہنچتا ہے ،تو اس کا یہ چلنا بھی عبادت کے درجہ میں ہے، اور اسے ہر قدم پر نیکی ملے گی، خود حدیث میں اس کا ذکر آیا ہے(مسلم، حدیث نمبر: ۶۵۴) اور اگر کوئی شخص شراب پینے کی نیت سے چلے اور اس کا قدم شراب خانہ کی طرف بڑھ رہا ہو، تو صرف اس کا شراب پینا ہی گناہ نہیں ہے؛ بلکہ شراب خانہ کی طرف جانا بھی گناہ ہے، جوں ہی وہ گھر سے شراب خانہ کی طرف شراب پینے کی نیت سے نکلا، اسی وقت سے گناہ کا عمل شروع ہو گیا؛ اس لئے جس عمل کے بارے میں شریعت میں جائز وناجائز یا پسندیدہ وناپسندیدہ ہونے کا حکم صریحاََ موجود نہیں ہو، دیکھنا چاہئے کہ وہ کس بات کا ذریعہ بنتا ہے، ایسی بات کا جو شریعت میں پسندیدہ ہے یا ایسی بات کا جو شرعاََ ناپسندیدہ ہے؟
ووٹ کا حق حاصل کرنا اور موقع پر اس حق کا استعمال کرنا اس بات کا ذریعہ بنتا ہے کہ آپ اچھے لوگوں کے ہاتھ میں حکومت کی باگ ڈور سونپیں، اور برے لوگوں کو کرسی اقتدار سے دور رکھیں، اور یہ ایک شرعی فریضہ ہے کہ جو شخص جس ذمہ داری کا اہل ہے، اس کو وہ ذمہ داری سونپی جائے: أن تؤدوالامانات الیٰ أھلھا(النساء:۵۸) اور یہ بھی ضروری ہے کہ ظالم کو ظلم سے روکا جائے، جس کی ایک صورت یہ ہے کہ اس کو اس مقام پر پہنچنے نہیں دیا جائے، جہاں وہ دوسروں کے ساتھ ظلم وناانصافی کا ارتکاب کر سکتا ہے، ولا ترکنوا إلی الذین ظلموا(ھود:۱۱۳) اس لئے مسلمانوں کو نہ صرف ایک قومی فریضہ؛ بلکہ ایک دینی فریضہ کی حیثیت سے بھی اس عمل کو دیکھنا چاہئے، اور کوشش کرنی چاہئے کہ صد فیصد مسلمانوں کے نام؛ بلکہ تمام شہریوں کے نام ووٹر لسٹ میں درج ہو جائیں۔
ہندوستان میں اس وقت صورت حال یہ ہے کہ فرقہ پرست اور مسلم مخالف طاقتوں نے چوطرفہ حملہ شروع کر دیا ہے، اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانے اور کمزورکرنے کے لئے جتنے ہتھیار ہو سکتے ہیں، وہ سب آزمائے جا رہے ہیں، فسادات کرائے جاتے ہیں، ہجوم کے ذریعہ قتل کی واردات پیش آرہی ہیں، ذرائع ابلاغ کو مسلمانوں کے خلاف زہر اگلنے کی اجازت دی گئی ہے؛ بلکہ اس کی حوصلہ افزائی کی جار ہی ہے، سوشل میڈیا کی ایک تربیت یافتہ فوج شب وروز جھوٹی خبریں پھیلانے کا کام کر رہی ہے، غرض مختلف جہتوں سے اسلام، مسلمان اور مسلم تاریخ کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، ان سب کے پیچھے اصل میں جو طاقت کام کر رہی ہے، وہ ہے اقتدار کی طاقت، اور ہندوستان جیسے ملک میں طاقت کا سرچشمہ ووٹ ہے۔
اللہ تعالیٰ کاا رشاد ہے:
'' اور(اے مسلمانو!) ان کے مقابلہ جہاں تک ہو سکے، طاقت اور گھوڑوں کی تیاری رکھو، جن سے اللہ کے دشمن، اپنے دشمن اور ان کے علاوہ دوسرے لوگوں پر بھی-جن کو تم نہیں جانتے، اللہ جانتے ہیں-تمہاری دھاک قائم رہے اور جو بھی تم اللہ کے راستہ میں خرچ کروگے، تمہیں پورا پورا دیا جائے گا، اور تمہارے ساتھ حق تلفی نہیں ہوگی(انفال:۶۰)
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے دشمن طاقتوں کے مقابلہ کے لئے اپنی صلاحیت اور طاقت کے ذریعہ تیاری کا حکم دیا ہے، یہ بھی فرمایا گیا کہ یہ طاقت حاصل کرنا ظلم کے لئے نہیں ہونا چاہئے، ایسا نہیں ہو کہ اگر تم کو طاقت حاصل ہو جائے تو تم دوسروں پر ظلم ڈھانے لگو؛ بلکہ یہ اس لئے ہو کہ ان پر تمہارا رعب طاری رہے، ان میں یہ جرأت نہ ہو کہ وہ تم پر یا دوسرے بے قصور لوگوں پر ظلم کریں، تیسری بات یہ فرمائی کہ تمہارے کچھ دشمن کھلے ہوئے ہیں، جو علانیہ طور پر تمہارے خلاف کام کر رہے ہیں، کچھ ایسے دشمن بھی ہیں جو آستین کے سانپ ہیں، جن کی عداوت اور منصوبہ بندی تمہارے سامنے نہیں ہے: تم انہیں نہیں جانتے ،اللہ ان کو جانتا ہے ،لا تعلمونھم اللہ یعلمھم(انفال: ۶۰) اور دفاع کی تیاری کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے اسی آیت میں اللہ کے راستہ میں خرچ کرنے کی فضیلت بھی بیان کی ہے کہ جو کچھ اللہ کے راستہ میں خرچ کروگے، اللہ تعالیٰ تمہاری طرف اس کو لوٹائیں گے، یعنی اس کا اجرعطا کریں گے، وما تنفقوا من شئی في سبیل اللہ یوف إلیکم(انفال: ۶۰)
اب اگر اس آیت کی روشنی میں غور کریں اور اسے ہندوستان جیسے ملک کے حالات پر منطبق کریں تو جو بات واضح ہوتی ہے، وہ یہ ہے کہ یہاں دشمن سے مقابلہ اور اس سے مدافعت کا سب سے بڑا ہتھیار حق رائے دہی ہے؛ اسی لئے مفسرین نے لکھا ہے کہ اس آیت میں طاقت مہیا کرنے سے مراد وہ تمام چیزیں ہیں، جو کسی قوم کو قوت فراہم کرنے کا ذریعہ بن سکتی ہیں: ھذا عام في کل ما یتقویٰ بہ علی حرب العدو (مفاتیح الغیب: ۱۵؍۴۹۹)مشہور مفسر علی بن محمد الشیحی خازن(م:۷۴۱)لکھتے ہیں کہ اس آیت کا مقصد یہ ہے کہ ضرورت کے وقت کے لئے دفاع کے لئے ضروری اسباب مہیا رکھے جائیں، الإعداد اتخاذ الشئی لوقت الحاجۃ الیہ (تفسیر خازن:۲؍۳۲۲)اور ایک جمہوری نظام میں دفاع کاہتھیار حاصل کرنے اور اس کو محفوظ کرنے کی صورت یہی ہے کہ ہم اپنا نام ووٹر لسٹ میں درج کرائیںکہ ووٹ ہی ہمارا ہتھیار ہے۔
پھر اسی ارشاد سے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ طاقت کا حاصل کرنا اور اس کا استعمال کرنا صرف ظلم سے بچنے کے لئے جائز ہے، ظلم کرنے کے لئے جائز نہیں ہے، مثلاََ اگر کسی خطہ میںمسلمانوں کی اکثریت ہو اور وہاں مسلمانوں کے ووٹ سے مسلم نمائندہ منتخب ہو جائے تو اس کے لئے یہ بات جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے حلقہ میں بسنے والے غیر مسلم بھائیوں کے ساتھ ناانصافی اور زیادتی کا سلوک کرے، اگر اس نے ایساکیا تو نہ صرف ملک کے قانون؛ بلکہ شریعت کی رُو سے بھی اس کا یہ عمل درست نہیں ہوگا، تیسری بات یہ بھی معلوم ہوئی کہ دفاع کی جو بھی جدوجہد ہو، اس میں پیسہ خرچ کرنا باعث اجروثواب ہے، ووٹر لسٹ میں ناموں کے اندراج کی جو مہم چلائی جا ئے، اس میں مالی وسائل کی بھی ضرورت پیش آئے گی؛ تاکہ اس کام کے لئے کچھ فعال لوگوں کی خدمات حاصل کی جائیں، اس میں خرچ کرنا بھی کار ثواب ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک طرح کا جہاد ہے، جہاد صرف میدان جنگ میں تلوار چلانے کا ہی نام نہیں ہے؛ بلکہ جہاد زبان سے بھی ہوتا ہے، اگر ظالم کے خلاف زبان کھولی جائے اور ماحول سے خوف زدہ ہوئے بغیر ظالم کو ظالم کہا جائے تو یہ بھی جہاد ہے؛ بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کو سب سے افضل جہاد قرار دیا ہے کہ ظالم کے سامنے حق بات کہی جائے: أفضل الجھاد کلمۃ حق عند سلطان جائر (مسند احمد، حدیث نمبر: ۱۱۱۴۳) اسی طرح جہاد مال سے بھی ہوتا ہے :فضّل اللہ المجاھدین بأموالھم وأنفسھم(نساء: ۹۵ ) کہ ظلم کو روکنے اور انصاف قائم کرنے کے لئے مال خرچ کیا جائے، پس ایک جمہوری ملک میں ووٹ کا حق حاصل کرنا جہاد کے لئے ہتھیار حاصل کرنا ہے، اور ووٹ دینا ظالم کے خلاف جہاد کرنے کے مترادف ہے؛ بشرطیکہ ووٹ کا استعمال اچھے امیدوار کے حق میں کیا جائے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ ظلم کو روکنے ،ظالم کا مقابلہ کرنے اور اپنا تحفظ کرنے کے لئے ممکن وسائل سے استفادہ فرمایا ہے، مکہ میں اسلام سے پہلے قبائلی نظام قائم تھا، نہ کوئی حکومت تھی، نہ عدالت اور نہ کوئی قانون، ہر قبیلہ اپنے قبیلہ کی حفاظت کیا کرتا تھا، ظاہر ہے یہ مزاج کہ صرف ہم قبیلہ ہونے کی بنیاد پر کسی شخص کی حمایت کی جائے، اور دوسرے کی مخالفت ،اسلامی تعلیمات سے ہم آہنگ نہیں ہے؛ لیکن مکہ کے حالات کی بنیاد پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے قبول فرمایا، اور قدیم نظام کے مطابق بنو ہاشم اور بنو مطلب نے آپ کی حفاظت فرمائی، یہی وجہ ہے کہ ہجرت سے پہلے جب دشمنان اسلام نے نعوذ باللہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کا منصوبہ بنایا تو طے کیا کہ اس ناشائستہ کام میں ہر قبیلہ کا نمائندہ شریک ہو؛ تاکہ بنو ہاشم بدلہ نہ لے سکیں، یہاں تک کہ جب اہل مکہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا بائیکاٹ کیا تو بنو ہاشم بھی اس بائیکاٹ میں آپ کے شریک ، اور پشت پناہ رہے۔
عربوں میں ایک طریقہ پناہ لینے کا تھا، باہر سے آنے والے لوگ یا کم تعداد کے حامل قبیلہ کے افراد کسی بڑے اور مضبوط قبیلہ کی پناہ میں آجاتے تھے، اور اس قبیلہ کے لوگ ان کا تحفظ کیا کرتے تھے، بعض صحابہ نے قریش کی ایذا رسانی سے بچنے کے لئے یہی طریقہ اختیار کر رکھا تھا ، جب آپ کا بائیکاٹ کر دیا گیا تو آپ نے صحابہ کو اجازت دی کہ وہ حبشہ کی طرف ہجرت کر جائیں؛ چنانچہ بہت سے صحابہ نے ہجرت فرمائی، حضرت ابو بکر بھی ہجرت کے ارادہ سے روانہ ہوئے، جب ''بَرک غِماد'' نامی جگہ پر پہنچے جو مکہ سے ایک دو دن کے فاصلہ پر تھا تو ابن دغنہ سے ملاقات ہوئی، یہ ''قارہ'' نامی قبیلہ کے سردار تھے، اس قبیلہ کا تیر اندازی میں بڑا شہرہ تھا، ابن دغنہ نے حضرت ابو بکر ؓ سے پوچھا: کہاں کا ارادہ ہے؟ انہوں نے فرمایا: مجھ کو میری قوم نے نکال دیا ہے؛ اس لئے میں نکلا ہوں کہ زمین میں گھومتے پھرتے اپنے پروردگار کی عبادت کروں، ابن دغنہ نے حضرت ابوبکرصدیقؓ کے لئے ٹھیک انہیں اوصاف کا ذکر کیا، جن کا ذکر حضرت خدیجۃ الکبریٰ نے حراء سے لوٹنے کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں کیا تھا، اس نے کہا: تم جیسے شخص کو نکالا نہیں جا سکتا، تم تو ناداروں کو کمائی کراتے ہو، رشتہ داروں کے ساتھ حُسن سلوک کرتے ہو، لوگوں کے بوجھ اُٹھاتے ہو،مہمانوں کی مہمان نوازی کرتے ہو، اگر کوئی مصیبت آجائے تو مدد کرتے ہو، تم جیسے شخص کو کیسے نکالا جا سکتا ہے؟ میں تم کو پناہ دیتا ہوں، تم مکہ واپس چلو، اور اپنے شہر میں رہتے ہوئے اپنے رب کی عبادت کرو، حضرت ابوبکرصدیقؓ ابن دغنہ کے ساتھ واپس تشریف لے گئے، چند دنوں اس کی پناہ میں رہے اور پھر اس پناہ سے دستبرار ہو گئے، (سیرت حلبیہ:۱؍۴۲۸ عربی ایڈیشن) اس سے معلوم ہوا کہ انسان جس ملک اور جس علاقہ میں رہتا ہو اور جس نظام کے تحت زندگی گزارتا ہو، وہاں اپنے تحفظ کا جو پُر امن ذریعہ میسر ہو، اس کو اختیار کرنا چاہئے اور اس سے فائدہ اٹھانا چاہئے، یہ دین کی نظر میں مطلوب ہے۔
حفاظت اور دفاع کے لئے جسمانی طاقت کا استعمال ضروری نہیں، کوئی بھی ایسی طاقت جس سے مقصود حاصل ہو جائے، خواہ مادی طاقت ہو یا معنوی، یہ سب دفاع کی تیاری میں شامل ہے، اور موقع کے لحاظ سے ان کا استعمال کرنا اسلام میں مطلوب ہے، شعروشاعری کو قرآن نے زیادہ پسند نہیں کیا ہے، والشعراء یتبعھم الغاؤون(شُعراء: ۲۲۴)؛کیوں کہ شاعروں کے یہاں آوارہ خیالی، مبالغہ، خلاف واقعہ دعوؤں کی کثرت ہوتی ہے؛ اسی لئے مسجد میں اشعار پڑھنے کو فقہاء نے منع کیا ہے؛ لیکن عربوں کے یہاں اشعار کسی بات کو پھیلانے اور پہنچانے کا بہت مؤثر ذریعہ سمجھا جاتا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کی ترجمانی اور دفاع کے لئے اس سے بھی فائدہ اُٹھایا ہے، بامقصد اشعار کہنے والے شعراء کی حوصلہ افزائی فرمائی ہے؛ یہاں تک کہ حضرت عائشہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت حسانؓ کے لئے مسجد میں منبر رکھواتے تھے، اور وہ منبر پر کھڑے ہو کر آپ کی طرف سے دفاع کے اشعار پڑھا کرتے تھے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان کے بارے میں فرماتے تھے، اللہ روح القدس کے ذریعہ حسان کی مدد فرماتے ہیں: إن اللہ یؤیدہ بروح القدس(سنن ابی داؤد، کتاب الادب، باب ما جاء فی الشعر: ۴؍۳۰۴)؛ حالاں کہ صحابہ کی نظر میں منبر نبوی کا ایسا تقدس تھا کہ ان کو آپ کی وفات کے بعد بھی منبر پر قدم رکھنے میں تأمل ہوتا تھا۔
غرض کہ جہاد کا ایک ہی طریقہ متعین نہیں ہے، ہر دور میں اس دور کے لحاظ سے دشمن سے مقابلہ کا ہتھیار ہوا کرتا ہے،جمہوری نظام میں کسی قوم کا حق رائے دہی حاصل کرنابھی ایک جہاد ہے، اس وقت صورت حال یہ ہے کہ آسام میں لاکھوں مسلمانوں کے نام ووٹر لسٹ سے نکال دیے گئے ہیں، اور انہیں بغیر دلیل وثبوت کے غیر ملکی قرار دیا جا رہاہے، ملک کے مختلف علاقوں کی ووٹر لسٹ سے مسلمانوں کے نام غائب ہیں، یہ بڑی خطرناک بات ہے؛ اس لئے اس وقت تمام انصاف پسند ہندوستانیوں اور مسلمانوں کا فریضہ ہے کہ وہ اس مسئلہ پر توجہ دیں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ کوئی نام ووٹر لسٹ میں آنے سے رہ نہ جائے، یہ جمہوریت میں ظالم حکومتوں سے لڑائی کا ہتھیار اور اپنی مدافعت کی سب سے مؤثر تدبیر ہے!
(صداۓوقت فیچرس)