Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Monday, October 1, 2018

بدکاری جائز،،اب ہندوستان سونے کی چڑیا بن جائے گا۔

بدکاری جائز
اب ہندوستان سونے کی چڑیا بن جائے گا؟

تحریر/شکیل رشید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔صدائے وقت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کیاشادی کانظام بے معنٰی ہے؟
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .  
غیرازدواجی جنسی رشتے کو جائز قرار دینے کے عدالت عظمیٰ کے فیصلے نے جو  سوالات اٹھائے ہیں ان میں سے ایک سوال یہ بھی ہے۔سپریم کورٹ کے پانچ جج صاحبان کی بنچ نے ۲۷؍ستمبرکو۱۵۷؍سالہ قانون،دفعہ ۴۹۷کوغیرآئینی قرار دینےکافیصلہ کرتے ہوئے اس با ت پرزوردیا ہےکہ بیوی نہ اپنے شوہرکی ملکیت ؍اثاثہ ہے اورنہ ہی شوہر اپنی بیوی کا آقا…..جسٹس ڈی وائی چندرچوڈنے غیرازدواجی جنسی رشتے کو ‘جسے ہندوستانی سماج میں ہی نہیں ساری دنیا میں بدکاری،بدچلنی اورزنا کہا جاتاہے،غیرمجرمانہ عمل قرار دیتے ہوئے بہت صاف لفظوں میں یہ کہا ہے کہ دفعہ۴۹۷قدیم وکٹوریائی اخلاقی اقدار کی یادگار ہے اوریہ اس سوچ پر مبنی ہے کہ’’بیوی اپنے شوہر کی ملکیت ؍اثاثے کے سواکچھ نہیں ہے۔‘‘ان کایہ کہناہے کہ ’’ایک باعزت زندگی کے لیے(یاباعزت طور پر زندگی گذارنے کے لیے)جنسی معاملات میں آزادی لازمی ہے….اوردفعہ۴۹۷ عورت سے اس معاملے میں اپنی پسندکے بنیادی حق کو چھین لیتی ہے۔‘‘
سوال یہ ہے کہ اگربیوی پرشوہر کایاشوہر پر بیوی کا جنسی معاملات میں کوئی حق نہیں ہے بلکہ دونوں کو قانوناً یہ چھوٹ ہے کہ وہ اپنی مرضی سے شادی کے باہر کسی سے جنسی رشتہ قائم کرناچاہیں توکر سکتے ہیں‘بھلے ہی بیوی اوراس کے اہلِ خانہ یاشوہراوراس کے اہل خانہ اسے پسند کریں نہ کریں،اس کی اجازت دیں یانہ دیں‘توپھر شادی کے ادار ے کی یاشادی کے نظام کی کیا ضرورت باقی رہ جاتی ہے؟ظاہر ہے کہ ایک شوہر اپنی اس بیوی کو جو کسی اورسے جنسی تعلق بنائے ہوگی کیوں کماکرکھلائے گا اورکیوں اسے سماج میں اپنی بیوی کادرجہ دے گا…..یاکیوں کوئی بیوی کسی ایسے مرد کاکھانا پکانے اوراس کے بچوں کی دیکھ بھال کرنے کے لیے تیارہوگی جو کسی غیرعورت کے ساتھ وقت گذارے گا۔عدالت عظمیٰ کایہ کہناتوبجاہے کہ کوئی عورت اپنے شوہر کی ملکیت ؍اثاثہ نہیں ہوسکتی پر‘اس کایہ مطلب تونہیں کہ شوہر کا‘جواسے شادی کرکے ،اس سے نکاح کرکے،چرچ میں گاڈکو گواہ بناکر یا اگنی کے گردپھیرے لے کر،اپنی شریکِ حیات بنا کرلایاہو‘اس کااپنی بیوی پر یابیوی کااپنے شوہرپرکوئی حق ہی نہ ہو‘اوردونو ں ایک دوسرے کو کھلے عام بدکاری کرتے دیکھیں اوراس پر خاموش رہیں‘نہ روکیں ٹوکیں اورنہ ہی زبان سے اُف کریں ‘کہ ایسا کرنا ’جرم ‘نہیں رہا!
حالانکہ عدالتِ عظمیٰ کے فیصلےکو’تاریخی‘قرار دیا جارہاہے اورمختلف حلقوں سے اس فیصلے کی پذیرائی بھی کی جارہی ہے لیکن اس کے خلاف آراء بھی سامنے آئی ہیں۔دہلی کی خواتین کمیشن کی سربراہ سواتی مالیوال نے فیصلے کو شادی شدہ جوڑوں کے لیے بدکاری کاسرٹیفیکٹ قرار دیاہے۔ویسےقومی خواتین کمیشن کی سربراہ ریکھا شرمانے یہ کہہ کر اس کی پذیرائی کی ہے کہ یہ فیصلہ ’جنسی برابری‘کافیصلہ ہے۔لیکن’جنسی برابری‘کے اس فیصلے کے تعلق سے این جی او’دامن‘کے سربراہ انوپم دوبے نے وہی بات اٹھائی ہے جس کاسب سے زیادہ خطرہ ہے،یہ کہ ’’اس فیصلے نے شادی کے قانون کو مزیدکمزورکیاہے۔‘‘
جج صاحبان نے فیصلہ سناتے ہوئے ا س با ت پر زوردیا ہے کہ عالمی سطح پر غیرازدواجی جنسی رشتے کو’جرم‘کے زمرہ سے باہر نکال دیاگیاہے اوراب یہ یوروپ اورامریکہ کے بہت بڑے حصوں میں’جرم‘نہیں رہاہے…..یعنی اب ملک‘ اس ہندوستانی تہذیب ؍بھارتیہ سنسکرتی کی جگہ‘جس پرفخر اورگَروکیا جاتارہاہے یوروپ وامریکہ کی اس تہذیب اوران اقدار کو اپنانے کے لیے تیارہے جس کے تحت ہر طرح کی جنسی بے راہ روی جائزہے،جس میں شادیاں اب’بوجھ‘سمجھی جاتی اوربغیرشادی کے ایک ہی چھت کے نیچے کسی مرد اورعورت کے زندگی گزارنے کو ’بہتر‘سمجھاجاتاہے……اورجہاں بغیرشادی کے بچے نہ’ناجائز‘سمجھے جاتے ہیں اورنہ ہی ان کے والدین (اکثروالدہ،کیونکہ والدکاپتہ والدہ کو بھی نہیں ہوتا)ان کی پیدائش کو باعثِ شرم نہیں سمجھتے بلکہ اپنی خوش قسمتی مانتے ہیں!ایسے سماج کی تشکیل کے لیے سب سے ضروری جہاں شادی کے نظام،شادی کے ادارے یاباالفاظ دیگرشادی کے قانون پر ضرب لگاناضروری ہے وہیں نوجوانوں میں’بے غیرتی‘اور’بے حیائی‘کو اس طرح عام کرنا ضروری ہے کہ وہ بدکاری،بدچلنی اوربے حیائی وفحاشی میں مبتلا ہونے کو قانوناً جرم نہ سمجھیں۔اس فیصلے سے یقیناًگھر تباہ ہونگے،طلاقوں کی شرح میں زبردست اضافہ ہوگا‘گھریلو لڑائی جھگڑے بلکہ پرتشددلڑائی جھگڑے یومیہ سامنے آئیں گے اورسماج میں ایک طرح کی بے اطمینانی اوربے سکونی پیدا ہوگی جو ممکن ہے آگے چل کر بے حسی میں تبدیل ہو جائے کہ لوگ اپنے بچوں کی بے حیائی پر بھی آنکھیں موندنے کے سوا کچھ نہ کر سکیں۔
غیرازدواجی جنسی تعلق کامطلب’زنا‘ہے۔قرآن پاک میں صاف لفظوں میں آیاہے:’’زنا کے پاس بھی نہ پھٹکووہ یقینی طور پر بڑی بے حیائی اوربے راہ روی ہے۔‘‘(سورہ الاسراء۳۲)۔یہ فیصلہ ظاہر ہے کہ قرآن پاک کے واضح حکم کے خلاف ہے لہٰذا اگریہ کہا جائے کہ یہ خدائی حکم میں دخل ہےتوغلط نہ ہوگا۔یہ ایک انسان کو انسانیت سے عاری کرنے کی سمت ایک قدم ہے۔کسی کاکسی سے بھی جنسی تعلق بنا لینا جانوروں کاہی عمل ہے انسانی نہیں،اسلام اس کی سخت ممانعت کرتا ہے۔عیسائیت اوریہودیت میں بھی اس کی ممانعت ہے بلکہ تینوں ہی مذاہب میں غیر ازدواجی جنسی تعلق پر’رجم‘کاری حکم ہے۔ہندومذہب بھی ایسے کسی رشتے کو جائز قرار نہیں دیتا ….اوردوسرے مذاہب بھی یہ نهیں کہتے کہ غیرازدواجی رشتے ’جائز ‘ہیں لہٰذا یہ فیصلہ مذاہب کے اعتبار اورلحاظ سے نہ ہی تو درست ہے اورنہ ہی جائز اس لیے یقیناً تمام ہی مذاہب کے علماء آج یاکل اس کے خلاف زبان کھولیں گے اورانہیں زبان کھولنابھی چاہیے کیونکہ اگرانہوں نے زبان نہیں کھولی تواس ملک میں بھی یوروپ اورامریکہ کی طرح مذہبی قوانین بے معنی ہو کر رہ جائیں گے اوراخلاقی قدریں دم توڑدیں گی۔سپریم کورٹ نے اس فیصلے سے کچھ پہلے ۶؍ستمبرکو ۱۵۸سالہ ہم جنسی مخالف قانون یعنی دفعہ۳۷۷کو’جرم‘کے زمرہ سے باہر کیاتھا۔عدالت نے لیواِن ریلیشن شپ یعنی بغیرشادی کےمرد اورعورت کے ایک ساتھ رہنے کو بھی درست کہاتھا۔ہم جنسی پرپابندی نہیں ہے۔عورت چاہے توعورت کے ساتھ رہ سکتی اورمردچاہے تومرد کے ساتھ ۔پرمصنفین کو یہ بات بُری لگتی ہے کہ کوئی مردایک سے زائد شادی کرے!کسی عورت کو لاکر اسے سماج میں عزت دے!کیوں؟یقیناًاس لیے کہ مذہب ،صرف اسلام نہیں اکثرمذاہب اس کی اجازت دیتے ہیں اورقانون اپنے سامنے مذاہب کے احکامات کوغیرآئینی اورعالمی اخلاق کے منافی سمجھتاہے!اس پر بس افسوس ہی کیا جاسکتا ہے اورکچھ نہیں۔ویسے اس فیصلے سے ہندوستان پھر سے سونے کی چڑیانہیں ہونے والاہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بشکریہ ایڈیٹر "ممبٸ اردونیوز۔