Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Monday, October 29, 2018

بابری مسجد ملکیت مقدمہ۔۔مولانا ارشد مدنی کی پریس ریلیز۔

۔۔۔بابری مسجد ملکیت مقدمہ ۔۔۔۔
معاملہ کی سماعت جنوری تک کے لئے ملتوی ،
___________________
اب عدالت جنوری میں یہ فیصلہ کرےگی کہ معاملہ کس بینچ کے حوالہ کیا جائے !
غیر ضروری بیان بازی کرنے والوں کا معزز عدالت ازخود نوٹس لے : __مولانا ارشد مدنی۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
نئی دہلی ۔ 29؍اکتوبر 2018 (پریس ریلیز)۔صدائے وقت۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .  
چیف جسٹس مسٹر رنجن گگوئی کی سربراہی والی سپریم کورٹ کی تین رکنی بینچ نے آج ملک کے انتہائی اہم اور حساس بابری مسجد ملکیت مقدمہ کی سماعت آئندہ جنوری تک کے لئے ملتوی کردی ، واضح ہوکہ آج جب چیف جسٹس رنجن گگوئی ، جسٹس سنجے کشن کول اور جسٹس کے ایم جوزف کی بینچ کے سامنے یہ مقدمہ پیش ہوا توجمعیۃعلماء ہند کے لیڈ میٹر سول پٹیشن نمبر 10866-10867/2010 (محمد صدیق جنرل سیکریٹری جمعیۃ علماء اتر پردیش)کی طرف سے سینئر ایڈوکیٹ راجورام چندرن ، سینئر ایڈوکیٹ برنداگروور اور وکیل آن ریکارڈ اعجازمقبول پیروی کے لئے پیش ہوئے ، سماعت کا آغاز ہوتے ہی بینچ نے مقدمہ کی سماعت آئندہ جنوری تک کے لئے ملتوی کرنے کا فیصلہ دیا اوریہ بھی کہا کہ جنوری 2019کے پہلے ہفتہ میں سماعت اس بات پرہوگی کہ مقدمہ کو کس بینچ کے حوالہ کیا جائے اور اس کیلئے کون سی تاریخ مقررکی جائے ، اس پر اترپردیش حکومت کی طرف سے پیش ہوئے سالیسیٹر جنرل تشارمہتا نے عدالت سے درخواست کی کہ نومبر میں ہی اس معاملہ پر سماعت کرکے اس بابت ہدایت کردی جائے کہ معاملے کی سماعت کس بینچ میں ہوگی اورکس تاریخ سے ہوگی ، سالیسیٹرجنرل کی تائید کرتے ہوئے رام للاکے وکیل سی ایس وید ناتھن نے بھی عدالت سے یہی درخواست دہرائی لیکن عدالت نے ان کی درخواستوں کو مستردکردیا (حالانکہ اترپردیش حکومت عدالت میں پہلے ہی یہ حلف نامہ داخل کرچکی ہے کہ وہ کسی فریق کی حمایت نہیں کرے گی اوریہ کہ اس کا رویہ غیر جانب دارانہ ہوگا اس روسے سالیسیٹر جنرل کو اس مقدمہ میں فریق نہیں بنناچاہئے تھا مگر وہ نہ صرف فریق بنے بلکہ عدالت سے معاملہ کی جلد سماعت کی درخواست بھی کرڈالی) جس پر عدالت نے کوئی توجہ نہ دی ، خیال رہے کہ جمعیۃعلماء کی طرف سے سینئر وکلا ء کے تعاون کے لئے عدالت میں ایڈوکیٹ آکرتی چوبے ، ایڈوکیٹ قرۃ العین ، ایڈوکیٹ تانیہ شری ایڈوکیٹ کنورادت سنگھ ایڈوکیٹ ایشورمہنتے ایڈوکیٹ ہام شنی شنکر اور ایڈوکیٹ زین مقبول بھی موجودتھے ۔
جمعیۃ علماء ہند کے صدرمولانا سید ارشدمدنی نے آج کی قانونی پیش رفت پر اپنے ردعمل کااظہارکرتے ہوئے کہا کہ یہ کوئی عام معاملہ نہیں ہے بلکہ ملک کا انتہائی اہم اور حساس معاملہ ہے ،انہوں نے آج کی قانونی پیش رفت کا خیرمقدم کیا اور کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ اس فیصلے کے آنے کہ بعد ان غیر ضروری بیانات کا سلسلہ اب بندہوجائے گا جو ایک طرف جہاں عدلیہ اور قانون کو چیلنچ کرنے والے تھے وہی اس طرح کے بیانات سے ایک طبقے کی دل آزاری بھی پپہورہی تھی ، مولانا مدنی نے کہا کہ قانون کی بنیادپر ہی فیصلہ آئے گا اورہم ایسے ہر فیصلہ کے خیر مقدم کریں گے ، انہوں نے اس بات پر گہری تشویش کا اظہارکیا کہ کچھ لوگ عدالت سے باہر اس معاملہ میں غیر ضروری ہی نہیں بلکہ جارحانہ بیان بازی کررہے ہیں یہاں تک کے بعض ذمہ دارلوگ بھی میڈیا پر آکر وہیں مندربنانے کی بات کہہ رہے ہیں ، انہوں نے سوال کیا کہ جب معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہے تو پھر اس طرح کی بیان بازی اور اشتعال انگیزی کا کیا جواز ہوسکتا ہے ؟ اس لئے ہم گزارش کریں گے کہ معزز عدالت ازخود اس کا نوٹس لے اور ایسے لوگوں کو متنبہ کرے ، جن کے اول جلول بیانات سے امن واتحادکی فضاء خراب ہوجانے اور معاشرے میں کشیدگی وانتشار پھیل جانے کا شدید خطرہ ہو ، مولانا مدنی نے یہ بھی کہا کہ اس طرح کے بیان دینے والوں کی غالبا منشاء یہی ہے کہ ملک میں امن واتحاد کی فضاء خراب ہواورسماجی طورپر فرقہ وارانہ صف بندی قائم ہوجائے انہوں نے مزید کہا کہ ایک محب وطن شہری کی طرح مسلمان صبروتحمل کے ساتھ عدالت کے فیصلہ کاانتظارکررہے ہیں کیونکہ انہیں عدلیہ پر مکمل اعتماد ہے اور اس بات کا یقین بھی کہ معزز عدالت دوسرے معاملوں کی طرح اس اہم مقدمہ میں بھی ثبوت وشواہداورقانون کی بنیادپر ہی فیصلہ دےگی۔